اہلِ فن اور سید زادے

0 238

تحریر۔حمادرضا
کائنات میں بسنے والی تمام مخلوقات کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ہر مخلوق دوسرے سے الگ خواص رکھتی ہے ہم انسانوں کی ہی مثال لے لیں تمام انسان ایک جیسے انسانی اعضاءرکھنے کے باوجود شکلاً ایک دوسرے سے جدا نظر آتے ہیں میں بچپن میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ یہ کوے ایک دوسرے کو کیسے پہچانتے ہوں گے پھر تھوڑا بڑے ہونے پر مجھے خود ہی اس کا جواب مل گیا کہ ہو سکتا ہے کے کوے بھی یہی سوچتے ہوں کے انسان ایک دوسرے کو کیسے پہچانتے ہوں گے تو بات یہ ہو رہی تھی کے ہم ایک جیسے ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتے ہیں ہمارے جینز الگ ہیں بلڈ سیمپلز الگ ہیں ہاتھوں کی لکیریں الگ ہیں ہم روزگار کے لیے اپنے پیشوں کا انتخاب بھی مختلف کرتے ہیں لیکن بعض پیشے ایسے ہوتے ہیں جو مختلف سماجی گروہوں سے منسوب ہو کر بعد میں ایک قوم کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جیسے پیشہ سپہ گری کو راجپوتوں سے منسوب کر دیا گیا اسی طرح اگر بات جاٹوں اور گوجروں کی کی جائے تو فوراً دماغ میں بھینسوں کے طبیلے اور کھیتی باڑی کا خیال آتا ہے بعض قومیں اپنی محنتِ شاقہ اور خاص فن میں مہارت کی وجہ سے اس قدر آگے نکل جاتی ہیں کہ وہ پیشہ ہی ان کی پہچان بن جاتا ہے اب کراچی کی میمن برادری کی ہی بات کر لیں تو فوراً ذہن میں پہلا خیال کاروبار کا ہی آتا ہے اسی طرح پاکستان میں سید برادری کو بھی خاص عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے میرا چونکہ لکھنے پڑھنے اور صحافت سے گہرہ تعلق رہا ہے اس لیے میں نے محسوس کیا کہ اس برادری پر فنونِ لطیفہ کا فن خاص طور پر مہربان رہا ہے اب وہ چاہے ادب ہو صحافت ہو یا شو بزنس انڈسڑی اس برادری کے افراد نے ہر شعبہ میدان میں اپنا لوہا منوایا ہے ایک زمانے میں بھارتی پنجاب کی میوزک انڈسٹری میں یہ کہاوت بڑی مشہور تھی کہ اگر میوزک انڈسٹری میں کامیابی چاہتے ہو تو نام کے ساتھ مان لگنا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ وہ زمانہ تھا جب گرداس مان آئے اور آتے ہی چھا گیے پھر ببو مان نے لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا پھر ہربھجن مان آئے اسی طرح مان سیریز کی لسٹ میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا اب بھارتی پنجاب والی کہاوت کو اگر اپنے ملک کے تناظر میں دیکھوں تو محسوس ہوتا ہے کہ اہلِ فن سے متعلقہ تمام شعبہ جات میں کامیابی کے لیے آپ کا شاہ ہونا بہت ضروری ہے اب آپ اپنے قریب قریب زمانے کے شعراءکی بات کر لیں تو آپ کو نامور شعراءمیں سید برادری کے ہی لوگ نظر آئیں گے جیسا کہ پروین شاکر ناصر کاظمی جون ایلیاءمحسن نقوی اگر آج کے موجودہ شعراءکی بات کی جائے تو ان میں فرحت عباس شاہ سید وصی شاہ نوشی گیلانی کا تعلق بھی اسی قبیل سے ہے اگر صحافت کی بات کی جائے تو شائد ہی کوءسنیئر صحافی ایسا ہو جس نے کبھی کسی زیدی نقوی شیرازی کاظمی بخاری سبزواری کے ساتھ کام نا کیا ہو اسی طرح ہماری ماضی اور حال کی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری بھی ان کے ہی فن کی مرہونِ منت نظر آتی ہے وہ چاہے مدیحہ شاہ ہوں نور بخاری ہوں سید نور ہوں حیبا بخاری ہوں یا پھر سید جبران اگر میں سب ناموں کی یہاں لسٹ بنانے لگ جاو ¿ں تو پورا ایک کالم اور صرف ہو جائے گا اکثر سید زادوں کو پیری فقیری اور گدی نشینی کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے اور انھیں اس حوالے سے اپنی روایات کا نہایت پابند گردانا جاتا ہے لیکن اس برادری کے افراد کی فن کے ساتھ وابستگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے بلاشبہ فن کسی کی میراث نہیں ہوتا کوءقوم کوءبھی پیشہ اختیار کر سکتی ہے لیکن کہیں نا کہیں ہمیں کامیابیوں کا کریڈٹ کسی مخصوص فرد یا گروہ کو دینا پڑتا ہے اب جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ٹی وی ایجاد کرنے کا سہرا بھی مارکونی کو ہی جاتا ہے کیوں کہ اگر وہ ریڈیو ایجاد نا کرتا تو ٹیلی ویڑن بھی کبھی ایجاد نا ہوتا لیکن اس حوالے سے اتہاس کے پنوں میں جان لوگی بئیرڈ کا نام درج ہوا اسی طرح ہمارے ادب صحافت اور شو بز میں سینکڑوں فنکار آ? اور انھوں نے اپنے فن کا لوہا منوایا لیکن آرٹ کے میدان میں صحیح معنوں میں حکمرانی ہمیشہ انہیں سید زادوں کی رہی ہے۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.