میرے عہد کے لوگ رانجھا بھی چلا گیا
ایم سرورصدیقی
ٹی وی چینل پر خبرسنی اعجازدرانی انتقال کرگئے بے ساختہ منہ سے نکلا رانجھا بھی چلا گیا اناللہ وانا الیہ راجعون ہیر رانجھا پاکستان فلم انڈسٹری کی وہ یادگارفلم ہے جس نے دنیابھرمیں تہلکہ مچادیاتھااس فلم کو اداکار اعجازدرانی اور اداکارہ فردوس کی خوبصورت اداکاری نے امر بنادیا فلمی ناقدین بھی برملا کہتے ہیں فلم ہیر رانجھا جب بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا یہ فلم نئی لگتی ہے
ایک بھارتی فلمساز نے کہا تھا کاش یہ فلم ہم نے بنائی ہوتی اسی فلم کے ہیرو اور پاکستان فلم انڈسٹری کے سینئر اداکار اعجاز درانی طویل علالت کے بعد 88 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ جس سے برصغیرکی فلم انڈسٹری کاایک درخشاں باب بندہوگیا چندماہ پہلے ان کی” ہیر“
فردوس وفات پاگئی تھیں۔ماضی کے نامور اداکار اعجاز درانی جلال پور جٹاں گجرات کے نواحی گاو ¿ں میں 1935ء میں پیدا ہوئے۔ ہدایت کار منشی دل کی فلم ’حمیدہ‘ میں وہ بطور ایکسٹرا اداکار متعارف ہوئے، یہ فلم 1956 میں ریلیز ہوئی۔ فلم ساز داو ¿د چاند کی اردو فلم ’مرزا صاحباں‘ میں بھی وہ سائیڈ ہیرو تھے۔ 1957 میں ریلیز ہونے والی فلم ’بڑا آدمی‘ بطور ہیرو ان کی پہلی فلم تھی جسے ہمایوں مرزا نے ڈائریکٹ کیا۔ انہوں نے پہلی شادی
ملکہ ترنم نور جہاں (1959-1979) سے اور دوسری شادی فردوس سے کی لیکن دونوں شادیاں طلاق پر ختم ہوئیں پھر فلم ہدایتکار شریف نیئر کی بیٹی سے تیسری شادی کی جو آخری لمحوںتک برقراررہی۔ نور جہاں کے ساتھ ان کی تین بیٹیاں ’حنا درانی ، شازیہ اعجاز، نازیہ اعجاز درانی (بیٹی) ہیں دوستی‘، ’ہیر رانجھا‘، ’شعلے‘
جیسی باکس آفس پر تہلکہ مچا دینے والی فلمیں بحیثیت فلم ساز اعجاز درانی کے کریڈٹ پر ہیں۔1978 میں اداکار اعجازدرانی کو ہیروئن اسمگلنگ کے الزام میں لندن ہیتھرو ایئرپورٹ پر گرفتار کرلیا گیا تھا اور اس کیس میں عدالتی مقدمے کی وجہ سے انہوں نے 1978-83 تک 4 سال جیل میں گزارے تھے
ملکہ ترنم نورجہاںکواعجاز درانی سے بہت محبت تھی انہوںنے اپنے سابقہ خاوندکو ہیروئن سمگلنگ کیس میں چھڑانے کےلئے دن رات ایک کردیا تھا لیکن فردوس کی محبت میں اعجاز درانی نے یہ سب کچھ فراموش کردیا اسی لئے نورجہاںنے اعلان کیاتھا جس فلم میں فردوس کام کرے گی وہ اس فلم کے گانے نہیں گائیںگی اسی لئے نوجہاں نے ہیر رانجھا کے گا نے گانے سے انکارکردیا اس صورت ِ
حال میں موسیقار خواجہ خورشید انور بہت پریشان ہوگئے کیونکہ ہیررانجھا کے گانے نورجہاں کی آوازمیں بڑے سوٹ کرتے تھے بادل ِ نخواستہ اعجاز درانی کو خود نورجہاںکو ریکوسٹ کرنا پڑی وقت نے ثابت کردکھایا کہ ہیررانجھاکی کامیابی میں احمدراہی کے لکھے
اور نورجہاںکے گائے ہوئے گانوںکابھی بہت بڑا کریڈٹ سمجھا جاتاہے بہرحال اعجازدرانی پاکستانی سنیما کے پہلے ہیرو تھے جن کی فلم ہیررانجھا فلم نے ایک ہی سینما میں100ہفتے نمائش کا ریکارڈ قائم کیا تھا یہ فلم آج بھی کلاسیکل فلموںمیں سرفہرست سمجھی جاتی ہے ۔ بطور اداکار اعجاز درانی نے حمیدہ (1956) سے اپنی فلمی زندگی کاآغازکیا پھر اتنی کامیابیاں
سمیٹیں کہ پھر مڑکر پیچھے نہیں دیکھا ا نہوںنے 500سے زائدفلموںمیں کام کیا نمایاں فلموں میںبڑ ا آدمی (1957)،گمراہ (1959) ، راز (1959) ،سولا عنائے (1959) ، سوچاچا موتی (1959) ، ڈاکو کی لاڈکی (1960) ،گلبدن (1960)،عزت (1960)،منزل (1960)، سلمیٰ (1960) وطن (1960) ،دو راستے (1961) ،فرشتہ (1961)،شہید (1962) ،
عذرا (1962)،اجنبی (1962) ، دوشیزا (1962)،برسات مین (1962)،عورت ایک کہانی (1963)،دھوپ چھاﺅں (1963)،بیٹی (1964) ،چنگاری (1964) ،دیوانہ (1964) ،گہرا داغ (1964)،بدنام (1966) ،جلوہ (1966) سرحد (1966) ،سوال (1966) ، دوست دشمن (1967)،گنہگار (1967)،لکھوں میں ایک (1967) مرزا جٹ (1967) نادرا(1967) ،شب بخیر (1967) ،یتیم (1967)،باو ¿جی (1968) ،بہن بھائی (1968)،بیٹی بیٹا (1968) دھوپ اور سائے (1968) ، بھائی (1968)،دوسری شادی (1968)،جوانی مستانی (1968) ،قطرہ (1968) مین کہاں منزل کہاں (1968) ،میںزندہ ہوں (1968) ،موج بہار (1968)،
مراد بلوچ (1968) ،پاکیزہ (1968)،،شہنشاہ جہانگیر (1968)،ظالم (1968)، بھائیاں دی جوڑی (1969)،بزدل (1969)،درد (1969) ،دلبر جانی (1969)،دلدار (1969) ،دلاں دے سودے (1969) ،،دیا اور طوفان (1969) ،دلا حیدری (1969)،عشق نہ پچھے ذات (1969)،جاگو (1969) ، لچھی (1969)،نجو (1969)،نکے ہندیاںداپیار (1969)،پاک دامن (1969) ،پلکاں تھلے(1969) ،،قول تے قرار (1969) شیراں دی جوڑی (1969) ،تیرے عشق نچایا (1969) ،زرقا (1969)،انورا (1970)،ہیر رانجھا (1970) ،سجناں د ور دیا (1970)،
شمع اور پروانہ (1970)،آسو بلا (1971)،دوستی (1971) ،خان چاچا (1972)،دوپتر اناراں دے (1972)،اشتہاری ملزم (1972)،سلطان (1972)،ضدی (1973) ،،بنارسی ٹھگ (1973)،شعلے ،کلیار (1984) (بطور اداکار ان کی آخری فلم)،بطورفلم ساز ان کی کچھ کامیاب فلمیں ہیر رانجھا (1970) ، دوستی (1971) ، شعلے (1984) اور مولا بخش (1988) تھیں ہدایت کار،فلمساز اور اداکار اعجاز درانی نے بھرپور زندگی گذاری،آپ دو بار پاکستان ف
لم پروڈیوسر ایسوسی ایشن کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ اعجازدرانی کے ساتھ تقریباً تمام ہیرونیﺅں نے کام کیا جس میں شبنم،فردوس،انجمن، آسیہ،بہار،نیلی،نجمہ ،زمرد اورنغمہ کے نام قابل ِ ذکرہیں بلاشبہ اعجازدرانی پاکستان میں ہی نہیں پورے برصغیرمیں بے
حد مقبول تھے ان کا نام فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتاتھا جب بھی کلاسیکل فلموں کا تذکرہ کیا جائے گا اداکار اعجازدرانی کا نام ضرورلیا جائے گا اللہ پاک مغفرت فرمائے اور اعجازدرانی کو اپنی جوار ِ رحمت میں خاص مقام عطا کرے آمین یارب العالمین۔