پاکستانی فلم سسی پنوں پر تبصرہ
از:قلم۔۔۔ نورین خان پشاور
عرش تیرا اج کیوں نئیں کمبیا ، کمب گئی دنیا ساری
بابل دا دل پتھر ہویا ، اساں جمدیاں بازی ہاری
دھیاں نوں ویاندے سی او اینج نئیں سی روڑھدے
شاعر: احمدراہی ، موسیقار: رحمان ورما
گلوکار: مسعودرانا ، فلم سسی پنوں (1968)
ریاض احمد کے فلمی کیرئر کی ایک یادگار فلم سسی پنوں (1968) تھی۔ جس میں اقبال حسن کو پہلی بار سولو ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا تھا،جو اس سے قبل درجن بھر فلموں میں ایکسٹرا اور معاون اداکار کے طور پر کام کر چکے تھے۔اس فلم کے ہیرو اقبال حسن تھے۔ جس نے پنوں کا کردار ادا کیا، اور نغمہ نے سسی کا رول کیا تھا۔ جبکہ عالیہ ویمپ تھی۔ یاد رہے کہ سسی پنوں کا قصہ سندھ کے علاقہ بھمبھور اور بلوچستان کے علاقہ مکران کا تھا جو سندھ کے عظیم صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کی تصنیف ‘شاہ جو رسالو’ کی سات رومانوی داستانوں میں سے ایک تھا۔ اسے کئی پنجابی شعراء نے بھی نظم و نثر میں لکھا تھا جن میں زیادہ مشہور ہاشم شاہ کا قصہ تھا جس کا کچھ کلام فلم کے آخر میں مسعودرانا کی آواز میں ملتا ہے۔
فلم کی کہانی کچھ یوں ہے کہ پہلے سین میں ایک راجہ دیکھائی دیا جس کی کئی سالوں بعد اولاد ہوئی اور وہ بھی لڑکی۔تو راجہ لوگوں میں انعام بانٹتا ہے۔اور اسکے بعد اپنے جوتشی یا نجومی سے اس بچی کا زائچہ معلوم کرتا ہے۔تو جوتشی ڈر ڈر کے بتاتا ہے کہ بادشاہ سلامت یہ بچی بڑی ہو کے عشق کرے گی اور عشق میں مکمل ڈوب جائے گی۔جبکہ لوک کہانی کے مطابق سسی کا باپ بھنبھور کا ایک راجہ تھا، جب وہ پیدا ہوئی تو اُس کے باپ کو ایک ہندو جوتشی نے بتایا کہ تمہاری بیٹی منحوس ہے۔
اُس زمانے میں اکثر ہندو اپنی بیٹیوں کو جوتشیوں کے کہنے پر مار دیتے تھے لیکن سسی کی ماں نے اپنی بیٹی کو لکڑی کے ایک صندوق میں بند کیا اور دریائے سندھ میں بہا دیا
تو راجہ بدنامی کے ڈر سے اپنی بیٹی کو قتل کرنے جاتا ہے اور جیسے ہی چھری اٹھاتا ہے تو محل کا کوئی آدمی راجہ سے بچی لیتا ہے اور کہتا ہے اس معصوم کو قتل مت کرو بلکہ کسی صندوق میں ڈالو اور نہر میں بہا دو،آگے اس بچی کا نصیب کہ خود مرتی ہے یا بچتی ہے۔
چنانچہ بچی کو نہر میں ڈال دیتے ہیں۔
ایک دن ایک غریب دھوبی کپڑے دھونے نہر کے پاس کپڑے دھو رہا ہوتا ہے تو اسکو وہاں صندوق پانی میں نظر آتا ہے۔وہ فوری اس صندوق کو کھولتا ہے۔تو اس میں چھوٹی بچی ہوتی ہے اور ڈھیر سارا سونا اور زیورات ہوتے ہیں۔
دھوبی بچی کو گھر لے جاتا ہے جہاں اسکی پرورش ہوتی ہے۔
دھوبی کی بیوی بچی کا نام سسی یعنی چاند رکھتی ہے۔سسی جب ہوتی ہے تو بہت ہی حسین اور خوبصورت ہوتی ہے۔
دوسرے سین میں ایک شہزادہ پنوں ہوتا ہے جس سے ایک مصور ملنے آتا ہے اور اسے کئی لڑکیوں کی تصویریں دیکھاتا ہے۔جن میں پنوں شہزادے کو سسی کی تصویر پسند آجاتی ہے۔تو مصور اسے بتاتا ہے یہ بلوچستان کے علاقے بھمبھور کے دھوبی کی لڑکی ہے۔پنوں اسے دیکھنے کے بہانے دھوبی کے گھر جاتا ہے۔اور اسی طرح سسی پنوں ملتے ہیں۔دونوں ایک دوسرے سے پیار کرنے لگتے ہیں۔جبکہ لوک کہانی کے مطابق ایک دن مکران کے حکمران میر عالی خان کا بیٹا میر پنوں خان ایک تجارتی قافلے کے ساتھ یہاں سے گزرا تو اُس نے سسی کو دیکھا، پنوں نے سسی کے ساتھ شادی کی خواہش کا اظہار کیا اور یہ نہیں بتایا کہ وہ شہزادہ ہے۔
سسی کے باپ نے شرط پیش کی کہ تم کپڑے دھو کر دکھاؤ، پنوں نے کپڑے دھو کر دکھا دیے اور یوں اُس کی سسی کے ساتھ شادی ہو گئی، پنوں کے باپ اور بھائیوں کو پتا چلا تو اُنہوں نے پنوں سے کہا کہ انہیں یہ شادی قبول نہیں کیونکہ سسی ایک دھوبی کی بیٹی ہے۔
اسی طرح شادی والے دن شہزادہ پنوں کے رشتہ دار اسے بےھوش کرکے لیجاتے ہئ۔تو سسی دلہن کے جوڑے میں پنوں کے پیچھے جاتی ہے اور صحرا میں بہت تیز طوفان آجاتا ہے جس میں سسی مر جاتی ہے۔اور پنوں بھی مر جاتا ہے اور یہی فلم کا آخری سین ہوتا ہے۔
جب سسی نے پنوں کو غائب پایا تو وہ اُس کا نام لیتی ہوئی مکران کی طرف بھاگی، راستے میں بھوک اور پیاس سے وہ نڈھال ہو گئی تو اُس نے ایک چرواہے سے پانی مانگا۔
چرواہے کی نیت بگڑ گئی تو سسی نے دعا مانگی کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اُس میں سما جائے، لوک روایت کے مطابق زمین پھٹ گئی اور سسی اُس میں سما گئی۔
اس واقعے کے بعد بدنیت چرواہا سسی کی قبر کا مجاور بن گیا، اُدھر پنوں کو ہوش آیا تو وہ واپس بھنبھور کی طرف بھاگا۔
راستے میں اُس نے چرواہے سے سسی کے متعلق پوچھا تو اُس نے پنوں کو بتایا کہ وہ تمہارا نام لیتے لیتے زمین میں دفن ہو گئی اور پھر یہیں پر پنوں کی بھی موت واقع ہو گئی۔
یہ بہت اچھی فلم تھی لیکن زیادہ کامیاب نہیں ہوئی تھی کیونکہ اس وقت تک فلم بینوں کے ذہنوں پر پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی اردو فلم سسی (1954) کی یادیں تازہ تھیں۔اس فلم کی موسیقی بڑے کمال کی تھی اور احمدراہی کے گیتوں کو رحمان ورما نے اعلیٰ میعار کی دھنوں سے سجایا تھا۔
فلم کا میگا ہٹ گیت ملکہ ترنم نورجہاں اور مہدی حسن کا یہ دوگانا تھا “جدوں تیری دنیا توں پیار ٹر جائے گا ، دس فیر دنیا تے کی رہ جائے گا۔۔” میڈم نورجہاں کا یہ گیت بھی بڑا مقبول ہوا تھا “اساں جھوک پنن دی جانا۔۔” جبکہ مالا کا یہ کورس گیت بھی کیا کمال کا تھا “لنگ جانا اساں ، دلاں تے پیر دھر کے ، آم چو ، آم چو ، کالا بادام چو۔۔” لیکن ان سبھی گیتوں پر حاوی فلم کا تھیم سانگ تھا جو مسعودرانا کی لافانی آواز میں تھا “ماپے کدیں ایسطراں تے ڈولی نئیں سی ٹوردے ، دھیاں نوں ویاندے سی او ، اینج نئیں سی روڑھدے۔۔”
احمدراہی نے اس گیت میں یہ لکھ کر قلم توڑ دیا تھا کہ “نکی جئی جان نوں طوفاناں آن گھیریا ، کہیڑا منگے خیراں مکھ ماپیاں نے پھیریا ، اپنے بنے نہ جدوں ، مان کاہدے ہور دے۔۔!!!” یعنی جب ماں باپ ہی اجنبی ہو جائیں تو پھر مان کس پر کریں۔۔؟ میں اس گیت کو جب بھی سنتا ہوں تو تڑپ جاتا ہوں اور آنسوؤں کی نہ رکنے والی برسات ہونے لگتی ہے۔۔!
بحوالہ۔۔میڈیا،رسالے،نیشنل سائٹ۔