تاریخ خود گواہ ہے
دنیا میں ہر قوم کا اپنا کلچر ہوتا ہے بالکل اسی طرح بلوچ قوم کا بھی اپنا کلچر ہے جو دنیابھر میں ایک منفرد اور بہترین پہچان رکھتا ہے جہاں جہاں بلوچ قوم سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں ان سب کا رہن سہن بود و باش طور طریقے،مہمان نوازی،لوگوں سے تعلق،معاشرے میں اندازہ زندگی،مہر و محبت،خوشی غم ایک جیسے ہی ہیں،یہ نظام بلوچ قوم کے آباو اجداد سے مسلسل جاری ہے، جبکہ دوسری جانب پاکستان میں سیاسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہے جہاں مختلف مکاتب فکر کے لوگ مختلف سیاسی جماعتوں میں شامل ہو کر سیاست کر رہے ہیں خاص کر کے بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کے اپنے طور طریقے ہیں ان سیاسی جماعتوں میں کچھ ایسے بھی سیاسی پارٹیاں ہے جو صرف الیکشن کے وقت نظر آتے ہیں باقی دنوں میں ان کا نام و نشان تک نہیں ہے اگر کئی مل بھی جائے یاکہ نظر آجائے تو بڑے بڑے دعوے کرکے پھر گراونڈ سے غائب ہوجاتے ہیں سیاسی حوالے سے اگر دیکھا جائے تو حقائق کیا ہیں اس پر میں کچھ دنوں سے سوراب و گدر سمیت ضلع کے سارے علاقے کے سابقہ و موجودہ سیاسی صورتحال پر غور کررہا تھا سوراب میں 30 سال پہلے سیاست کس طرح کی جاتی تھی اور اب کس طور طریقے سے ہیں اس معاملے پر پہلے پہل میں نے ایک تحقیق شروع کر دی اس دوران میرا سوراب و گدر کے مختلف سیاسی شخصیات کے ساتھ بھیٹک ہوئی ہر کوئی اپنی پارٹی کی پوزیشن دوسری پارٹی سے بہتر بتانے کی کوشش کی لیکن تاریخ ہر ہمیشہ ہر چیز کو صاف صاف سب کے سامنے لے آتی ہے، برحال بہت سے قابل قدر شخصیات نے مجھے سوراب و گدر کے سیاست پر یقین کن معلومات فراہم کیے جو 25 سے 30 سال پہلے یعنی 90 کی دہائی سے لیکر اب تک ہمارے علاقے میں سیاسی صورتحال کیسا ہے اس پر کچھ معلومات مجھے ملیں، پہلے کے دور میں اگر کوئی شخص صوبائی یاکہ قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑنے کے لیے کھڑا ہوتا تھا تو پہلے پہل علاقہ سوراب و گدر سے چیدہ چیدہ قبائلی عمائدین کے ساتھ ایک بھیٹک کرکے ووٹ لینے کے معاملے کا فیصلہ وہاں پر کرتے تھے باقی تمام لوگوں کو وہی قبائلی عمائدین پیغام دیکر ان سے ووٹ لینے یعنی کہتے تھے کہ اس بار فلاں بندے کو ووٹ دینا ہے تو سب یک زبان ہو کر اس شخص کو ووٹ کرتے تھے،جب وہ نمائندہ جیت کر یہاں سے اسمبلی جاتےتو وہی سوراب و گدر کے چیدہ چیدہ قبائلی عمائدین اس نمائندہ سے ملنے جاتے تھے باقی کسی کو یہ تک پتا نہیں ہوتا تھا کہ یہ نمائندہ یہاں سے ووٹ لیکر کہاں جاتا ہیں اس وقت سادگی کا وقت تھا کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ جو نمائندہ یہاں سے ان کے ووٹ لیکر کامیاب ہوتا ہے ان کے پاس ووٹرز کے حقوق ہوتے ہیں یا کہ نہیں
اور ترقیاتی کام سے لیکر دیگر منصوبوں کے بارے میں ان لوگوں کو بالکل علم ہی نہیں ہوتا تھا آہستہ آہستہ یہ نظام 2008 کے الیکشن کے وقت تبدیل ہونے لگا ووٹرز کے لیئے ایم پی اے اور ایم این اے کیا کیا ترقیاتی کام کے ساتھ نوکریاں کر سکتا ہے یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی برسر اقتدار تھی اور اس وقت بلوچستان کے وزیر اعلٰی نواب اسلم ریئسانی تھے اور سوراب سے ایم پی اے کی نشست کے لئے بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے ٹکٹ پر نواب دودا خان زہری کے فرزند نوابزادہ میر ظفر اللہ خان زہری نے کامیابی حاصل کر کے بہ حیثیت وزیر داخلہ بلوچستان اپنے فرائض نبانے لگے،بلوچستان کے لوگوں میں نواب اسلم ریئسانی نے سیاسی شعور بیدار کرکے ان کو بتایا کہ بلوچستان میں سیاست کس طور طریقےسے کی جاتی ہے اور دوسری جانب بالکل اسی طرح سوراب میں نوابزادہ میر ظفراللہ خان زہری نے یہاں کے عوام میں سیاست کو ایک سمت دے دیا اور2013 کے الیکشن میں اپنے گھر میں بیٹھ کر اپنی ایم پی اے کی نشست جیت لی،یہ ضلع سوراب کے عوام کا اس پر ایک احسان تھا جسکا اکثر اعتراف خود بھی کرتے ہیں،یوں ہی سوراب و گدر کے عوام میں مزید سیاسی دلچسپی بڑھ گئی اور سیاست میں مزید دلچسپی لینے لگےجب مسلم لیگ ن پاکستان میں حکمرانی کر رہے تھے تو اس وقت بلوچستان کے وزیر اعلٰی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ تھا وہ اپنی ڈھائی سال مکمل کرکے وزارت اعلٰی کا تخت چیف آف جھالاوان نواب ثناءاللہ خان زہری کے حوالے کر دیا کچھ عرصے بعد نواب صاحب نے سوراب کو نئے ضلع کا درجہ دے دیا نواب زہری کی سیاسی تاریخ میں سوراب کے عوام کے لیے یہ کام سب سے بڑا اور اہم کارنامہ سمجھا جاتا ہے اور اس میں نوابزادہ میر نعمت اللہ خان زہری کا بھی کردار رہا, پھر اسکے بعد سوراب کے سیاست میں ایک اور نیا موڑ آ کھڑا ہوا اور لوگوں میں مزید سیاسی دلچسپی تیز ہوگئی اور 2018 کے الیکشن میں نوابزادہ میر نعمت اللہ خان نے ڈسٹرکٹ کو ووٹ دو کے نعرہ کو اپناتے ہوئے سوراب سے الیکشن لڑھ کر ایم پی اے کی سیٹ بھی جیت لیئے
اور اب موجودہ سیاسی صورتحال سوراب و گدر میں اس طرح ہے کہ لوگوں کی سیاست اس قدر تبدیل ہوگی ہے کہ وہ مرعات تک محدود ہوکر رہ گیے ہیں،اگر کوئی بھی بندہ کسی سیاسی پارٹی میں شامل ہوتا ہے تو سب سے پہلے اپنے لئے مرعات کا ڈیمانڈ رکھ کر اس پارٹی میں شمولیت کا اعلان کرتا ہے جبکہ یہاں کے ہر پلیٹ فارم سیاسی ہوگیا ہے،اب سوراب و گدر میں حالات کچھ اس طرح ہو گئے ہیں کہ مچھلی مارکیٹ کی طرح ووٹرز کی ووٹ ہزاروں روپیوں میں لینے اور دینے کا معاملہ بھی شروع ہوا ہے یہ پیسہ کلچر پچھلے 2 ادوار سے رائج ہوا ہے جو آج کل ایک رواج کے طور چل رہا ہے اور تو اور کچھ سیاسی جماعتوں کے ورکرز بھی اپنی سیاسی اسکور بڑھانے کے لئے علاقے کے سرکردہ شخصیات و معتبرین کو سوشل میڈیا پر برا بلا کہنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے ہی5 حالانکہ اخلاقیات اسکی قطعی طور پر اجازت نہیں دے سکتی۔اگر پچھلے دور یعنی 30 سال پہلے دیکھا جائے تو مہر و محبت اپنے لوگوں کے لئے خلوص نیت و احترام بڑی شان و شوکت سے تھی لیکن اب سیاسی شعور کے باوجود بھی دوسری جانب اپنے ہی علاقے کے لوگوں کو سیاسی منشور و مقاصد سے ہٹ کر ان کو برا بھلا کہنا عام طور سیاسی ورکرز نے اپنائیں ہوئے ہیں،اگر مزید اس طرح رہا تو آنے والے 2023 کے الیکشن میں سیاسی جماعتوں کو ایک ٹف ٹائم مل سکتی،اس طرح کے معاملے کس طرح سے ختم ہونگے اس پر کئی لوگوں کے ذہنوں میں کچھ سوالوں نے جنم لیئے ہیں،
1:پتا نہیں کہ اس قوم میں کب سدار آئے گی….؟
2:نہ جانے اس نظام کو ختم کر کے ایک بہترین سوچ کی بنیاد کون رکھے گا…..؟
3:کون حقیقی لیڈر بن کر یہ لالچ ختم کرنے میں کردار ادا کرے گا…….؟
4:کون سچا ہوکر ایک روشن کل کی امید دلائے گا…….؟
5:کون سچائی کا ساتھ دیکر جھوٹی سیاست جڑ سے ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا…….؟
6:کون حق کو حقدار تک پہنچائے گا…….؟
واضح رہے کہ سوراب میں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل،جمعیت علماء اسلام،جھالاوان عوامی پینل،بلوچستان عوامی پارٹی،بھی علاقے میں سرگرم ہو کر سوراب کی مستقبل کو ترقیاتی یافتہ بنانے کے لئے گراونڈ پر پرامید دکھائی دے رہے ہیں،اور جمعیت علماء اسلام نے کئی بار سوراب سے ایم پی اے کی نشست بھی جیت کر علاقے کی ترجمانی کی ہے جس میں، مرحوم مولوی غلام مصطفٰی،آغا فیصل جان شامل ہے جوکہ آغا فیصل نے مولوی غلام مصطفٰی کی سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر کامیابی حاصل کرلی لیکن دوسری بار اپنی کارکردگی کی وجہ سے الیکشن ہار گئے بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے حصے میں صرف ایک بار پی بی 36 یعنی اس کو سوراب سے کامیابی ملی پھر بھی سیاسی میدان میں عوام کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والوں میں آج بھی سرفہرست ہے،جھالاوان عوامی پینل اور بلوچستان عوامی پارٹی نئے سیاسی جماعت کی شکل میں گراونڈ پر موجود ہے،یہاں سیاسی صورتحال اب بالکل بلوچستان کی سیاست سے مختلف و الگ رنگ اختیار کر چکی ہے، اگر کوئی سیاسی ورکرز اپنی پارٹی سے ناراض ہو کر اپنی راہ الگ کر لیتا ہے تو اس کا سب سے بڑا مسئلہ مرعات ہے جو ان کو نہیں ملے رہے ہوتے ہیں،اگر یہ نظام مزید اس طرح چلتا رہا تو کل کو تاریخ کے ساتھ ساتھ ہمارے آنے والے نسل بھی ہمیں معاف نہیں کرینگے.