ہم جو ٹھہرے ایلین

2 303

پاکستان کی معاشی حالت اس وقت ایک ڈوبتی ہوئی کشتی کی مانند ہے جسے ساحل پہ لے جانے کیلئے شاید سیاسی رہنماو¿ں، ادارے اور بیرونی طاقتوں نے مل کر سوچنا اور کام کرنا ہیں مگر ملک بچانے کے بجائے حکمران اور سیاستدان خود کو بچاکر بیرون ملک پناہ لینے کو ترجیح دے رہیں ہیں۔ ملک دیوالیہ (bankrupt) ہو یا نہ ہو مگر عوام دیوالیہ پن سے بھی بری حالت میں گزر بسر کر رہی ہے اور خصوصاً بلوچستان کی عوام جنہیں شاید دو وقت کی روٹی اور ایک گز کفن بھی میسر ہونا محال ہے۔ بلوچستان ایک ایسی ڈوبتی کشتی کی مانند ہے جو صدیوں سے کسی ساحل کی تلاش میں بےیاروں مددگار طوفانی لہروں میں ہچکولے کھارہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ نہ کوئی توجہ دیتا اور نا ہی اس ڈوبتی کشتی کو کنارے پر پہنچانے کا سوچتا ہے۔ بلوچستان اور اسکے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر حکمران طبقہ اپنی نا اہلی چھپانے کیلئے مسائل کو بھی حل کرنے کے بجائے چھپا کر دبائے رکھتے ہیں۔ مگر یاد رہیں: بلوچستان کے سنگین حالات، فرسودہ نظام تعلیم اور بربادی کے دہانے پر کھڑے صحت، سیاست اور جمہوریت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور نہ ہی یہ مسائل نظروں سے اوجھل ہو سکتے ہیں۔ ہر خاص و عام کو بخوبی اندازہ ہے کہ بلوچستان میں دلخراش واقعات کے پیچھے صرف اور صرف بلوچستان کے عوام کا نظر انداز ہونا ہے۔ کسی کے صرف یہ دو لائن ہی بلوچستان کی حالت زار کی عکاسی کرتے ہیں کہ:بہت اگنور کرتی ہے مجھے وہ؛بلوچستان ہوتا جارہا ہوں میں؛حقیقتاً بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ اسے نظر انداز کرنا ہی تو ہے۔ڈان انگلش نیوز پیپر جو ملک کا سب سے بڑا اور پرانا اخبار ہے، جس میں صوبائی دارالحکومت کراچی، لاہور اور پشاور کیلئے الگ اور مخصوص اسپیس موجود ہے مگر بلوچستان کیلئے اس میں ایک صفحہ تک کی جگہ نہیں جہاں اس جھلستی سرزمین کے مسائل اجاگر کیے جائیں۔ پاکستان کے ہر صوبے کے ہر دارلحکومت کیلے ایک الگ سیگمنٹ موجود ہوسکتا ہے تو بلوچستان کیلئے کیوں نہیں؟ لیبریری میں بیٹھے ایک دوست سے بات چیت کے دوران پتہ چلا کہ وہ ڈان نیوز پیپر کو روزانہ اے سے زی تک پڑھتے ہے۔ انہی کا افسوس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ “ہفتے میں شاید کوئی ایک دوبار بلوچستان کا نام دیکھنے کو ملتا ہے” یہ سن کر مجھے اپنا آپ ایلین محسوس ہونے لگا کہ نیشنل اور انٹرنیشنل نیوز والی صفحات پر ہمارے نام اور مسائل کا نہ ہونا ہمارے ایلین ہونے کی نشاندھی کرتی ہے۔بلوچستان کے فرسودہ تعلیمی نظام کو نظر انداز کر کے کسی نے بھی آج تک اسے ٹھیک اور بہتر بنانے کیلئے کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے۔لحاظہ پرنٹ میڈیا سے لیکر تعلیم، ساست اور دیگر معاملات میں بلوچستان کو مکمل طور پر کنارے لگایا گیا ہے۔رہی سہی کسر حالیہ طوفانی بارشوں نے پورا کردی جن سے لسبیلہ، مکران، سوراب، قلات، نوشکی اور کہی دیگر علاقوں میں بجلی کے کھمبوں سمیت انٹرنیٹ، موبائل ٹاورز، روڈ اور پل وغیرہ کو شدید نقصان پہنچا۔ سندھ اور بلوچستان کو ملانے والا کہی صد سالہ پرانی پل بھی پانی میں ڈھوب گئی مگر نوٹس کون لیں؟ یہاں بھی صوبائی و وفاقی حکومت نے بلوچستان کو نظر انداز کرنا ہے۔ یہاں بھی میڈیا نمائندوں اور اخبارات کے صفحات نے بلوچستان کے نام کو قبول نہیں کرنا ہے اور نہ کی ہے۔ بس یہی اور اس طرح کے بہت سارے واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ بلوچستان کو ہر حوالے سے نظر انداز کرکے ہی اسکے حالات کشیدگی کی طرف لے جائیں گئے ہیں۔

You might also like
2 Comments
  1. intinly says
  2. brooncort says

    canadian pharmacy cialis 20mg Put simply, if you have erectile dysfunction and want a reliable drug that can enhance blood flow and give you reliable, prolonged erections, Cialis and Viagra are both good options

Leave A Reply

Your email address will not be published.