ملکہ ء ادب سیالکوٹ سمیرا ساجد ناز
بے حس معاشرے کے تپتے ہوئے صحرا میں فکر سخن کی ملکہ معظمہ عفت مآب سمیرا ساجد ناز بانی وچئرپرسن علمی ادبی و سماجی تنظیم
فکر سخن کی موجودگی باد صبح گاہی کا خوشگوار جھونکا ہے ۔ بے حس معاشرے میں اہل قلم کی اکثریت بھی بے حس ہو جاتی ہے ۔ گزشتہ روز ممتاز شاعر عبدالوحید چغتائی کی معیت میں اور بین الاقوامی شہرت یافتہ کئی زبانوں پر مہارت رکھنے والی شاعرہ محترمہ شاہین اشرف کی رفاقت اور خوبصورت عادتوں کے دلفریب انسان سماجی رہنما ناصر محمود شیخ اور فرحان یوسف فوٹوگرافر کے ساتھ لاہور سے پانچ رکنی قافلہ نو بہار دی سپرٹ کلووال کی جانب روانہ ہوا کلووال سیالکوٹ سے 17 میل کے فاصلے پر کھلیانوں کھیتوں سبزہ و گل کی وادی کے درمیان خوبصورت طلبہ و طالبات کی مادر علمی ہے کرسی ء صدارت پر جلوہ گر ڈاکٹر خالد جاوید جان ۔ مہمان خاص محترمہ راحیلہ اشرف اور لاہور سے معروف شاعر مہمان گرامی جناب عبدالوحید چغتائی کی ذات گرامی جلوہ افروز تھی ۔ نقیبہ ء مجلس چیئر پرسن علمی ادبی و سماجی تنظیم فکر سخن محترمۃ المقام سمیرا ساجد ناز کی دلربا انسانی سوچ کی مصورہ کی خوبصورت نقابت اور خوشگوار نظامت نے تین گھنٹے سامعین کو ہلنے نہیں دیا ۔ کہنہ مشق شاعروں اور عبقری شخصیات کی گفتگو کی جستجو میں حاضرین کی آرزو جاگ اٹھی ۔ مشاعرے کی کامیابی کے عقب میں سمیرا ساجد ناز کا منصوبہ ساز زہن کار فرما تھا اور ان کی فکری رعنائیوں کے چراغ روشن تھے ۔ محترمہ سمیرہ ساجد ناز اگر لاہور میں ہوتی تو وہ نامور شاعرہ اور بین الاقوامی شہرت یافتہ نقیبہ مجلس قرار پاتیں ۔ اس کی پی آر بھی نہیں ہے اس نے میرٹ پر اپنے آپ کو منوایا ہے ۔ عروض و بحور پر اسے پوری قدرت حاصل ہے ۔ اقبال و ظفر کی سر زمین کو دہلی و لکھنو کے شعرا نے تسلیم کیا ہے ۔
حاسدان تیرہ باطن کو جلانے کے لیے
تجھ میں اے پنجاب اقبال و ظفر پیدا ہوئے
نوآموز نوجوان شاعروں کی شاعری پسند کی گئی ۔ان کی حوصلہ افزائی میں سمیرا ساجد ناز پیش پیش تھیں ۔ افلاطون سے لے کر شبلی نعمانی تک تمام مفکرین نے خطابت کی اہمیت و افادیت کو تسلیم کیا ہے خطابت ایک ایسی ساحری ہے جو سامع کو اپنا اسیر کر لیتی ہے خطیب اپنے بسیط الفاظ سے سامع کے حواس خمسہ پر قبضہ کر لیتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سامع کے تمام تر جذبات و احساسات خطیب کے قبضے میں آ جاتے ہیں اور وہ جب چاہے سامع کو ہنساتا اور جب چاہے رلا دیتا ہے شاعر اور خطیب میں ایک نازک سا فرق یہ ہوتا ہے کہ شاعر اپنے اور قاری کے جذبات کو آمیخت کرتا ہے اور پھر اپنی شاعری کو باختیار بناتا ہے جبکہ خطیب صرف الفاظ کے ادبار و انحطاط سے سامع کے دلوں پر حکمران ہو جاتا ہے اور اسے اپنے الفاظ کا تابع بنا کر آنکھ کی پتلی کی طرح پھیرتا رہتا ہے بقول آتش
پھرتا ہوں پھیرتا ہے وہ پردہ نشیں جدھر
پتلی کی طرح سے میں نہیں اختیار میں
شاعر لفظوں سے طوطا مینا بناتا ہے اور خطیب اپنے الفاظ سے طوطا مینا میں جان ڈال کر سامع کے سروں پر بٹھا دیتا ہے معروف دانشور حکیم ارسطو نے بھی خطابت کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے تاہم اس نے شاعری کو خطابت پر نہ صرف فوقیت دی ہے بلکہ خطابت کو شاعری کا محض جزو قرار دیا ہے شاعری دراصل کومل جذبات و احساسات کی عکاسی کرتی ہے شاعر اور قاری دونوں کے نازک اندام دلوں میں گداز پیدا کرنا شاعری کا اولیں فرض ہے اس کے برعکس خطیب پرتجمبل اور گھن گرج والے الفاظ استعمال کر کے سننے والوں کے دلوں کو دہلانے کا فریضہ بطریق احسن ادا کرتا ہے خطیب کی خطابت عارضی طور پر دلوں کو مسحور کرتی ہے لیکن شاعری کے اثرات دیر پا ہوتے ہیں شاعر اپنے قاری کے وجود میں دل جبکہ خطیب کان کے ذریعے داخل ہوتا ہے سنی ہوئی بات زیادہ دیر تک حافظے کی زینت نہیں بن سکتی جبکہ دل پر اثر ڈالنے والا شعر تاحیات حلاوت بخشتا رہتا ہے خطیب کی گفتگو کا ماحاصل واعظ و نصیحت ہوتا ہے جبکہ شاعر تسکین پہنچانے کا متمنی ہوتا ہے ظاہر ہے کہ تبلیغ اور واعظ و نصیحت سے انسان اکتا جاتا ہے جبکہ سکون بخش شاعری سے انسان لطف اندوز ہونے کی شعوری کوشش کرتا ہے یہ بات بلا شک و بلاترد کہی جا سکتی ہے کہ ایک انسان پر کسی بھی بلند پایا خطیب کی سینکڑوں تقاریر بھی وہ اثرات مرتب نہیں کر سکتیں جو کسی ایک شاعر کا ایک شعر مرتب کر دیتا ہے تا ہم یہ بات پیش نظر رہے کہ اپنے ثمرات و نتائج کے اعتبار سے یہ دونوں قوتیں تخلیق کار کے لیے مفید اور کارآمد ہوتی ہیں اور تخلیق کاروں کو ان سے بیش از بیش فائدہ اٹھانا چاہیے مجھے یہ تمہید اس لیے باندھنی پڑی کہ میں شاعری سے بے پناہ متاثر ہوا ہوں میں نے خطیبوں کو سنا ان کی خطابت کے اثرات زائل ہو گئے لیکن مجھے ایک اچھا شعر ماہی بے آب کی طرح مہینوں تڑپا دیتا ہے ۔ احمد ندیم قاسمی کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں۔
دل گیا تھا تو آنکھیں بھی کوئی لے جاتا
میں فقط ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھوں
میں ممنون سانوں مہمان خصوصی جناب احمد شکیل بیگ ڈائریکٹ سپرٹ سکول کلووال میں انتہائی ممنوع نے احسان ہوں مہمان خاص راحیلہ اشرف جن کی شاعری ساحری سے کم نہیں اور سینیئر نائب صدر فکر سخن امانت اللہ چوھدری اللہ کی امانت ہیں کالج ثمن محمود صاحبہ وہ فکر سخن کی پوری انتظامیہ کے حسین انتظامات نے بے پناہ متاثر کیا شعرائے کرام کے کچھ اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں ۔ شائق سعیدی۔ دلشاد احمد۔ زوار علی۔ عبداللہ باصر ۔ عروج دورانی ۔ طاہر عباس امبر ۔ سفیان اکرم سیفی ۔ حافظ حمزہ سلیمانی ۔ افتخار شاید ۔ فرقان فرضی ان کے مخصوص شعروں کے ساتھ مفصل روداد تک اجازت دیں ۔
وسعت دل ہے بہت اور وسعت صحرا کم ہے
اس لیے مجھ کو تڑپنے کی تمنا کم ہے
عربی زبان میں آفتاب مونث ہے اور مہتاب مذکر ہے اس لیے تذکیر و تانیث کو کوئی امتیاز حاصل نہیں سوائے اس کے کہ اس کا کام بولتا ہے ملکہ ادب سیالکوٹ سمیرا ساجد ناز پر اہل ادب کو ناز ہے کہ انہوں نے مردوں سے زیادہ ادب کی خدمت کی ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے مشکل ترین راستہ اختیار کیا ہے اور آنے والی نسلوں کی اصلوں کی فصلوں کو شعری صلاحیتوں کے چشمہ ء آب سے سیراب و شاداب کیا ہے