مولانا محمد نصیب مینگل اہل جھالاوان کے لئے نویدِ سحر بن گئے
(تعارف)
مولانا محمد نصیب مینگل ایک عالم دین وحافظ قرآن ہیں،وہ مدرس بھی ہیں اور اعلیٰ پائیہ کے مقرر بھی، جیسا نام نصیب ہے ویساہی کردارِ حیات بھی نصیب سے مزین و لبریز ہے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں علم وعمل سوچ وفکرفہم و فراست رہبری و رہنمائی کی نعمت سے نوازاہے۔ ان کی آواز میں ایسی تاثیر کہ قرآن پاک کی تلاوت شروع کردے تو آسمان میں اڑتے پرندے سحر انگیز آواز سننے کے لئے رک جائیں،امامت میں تلاوت کریں تو مقتدی و سامعین پر سکتہ طاری ہو۔حافظ محمد نصیب مینگل کے علمی و انتظامی خدمات کی ایک طویل تاریخ و داستان موجود ہے وہ گزشتہ تین دھائیوں کی مدت میں لاکھوں طلباء کو ناظرہ وحفظ قرآن پاک اور درس نظامی کی تعلیمات سے آراستہ کرچکے ہیں ان کے زیر انتظام جامعات میں طلباء و طالبات کی کلاسیں لگتیں ہیں، اور اب بھی وہ بفضلِ اللہ تبارک و تعالیٰ ہزاروں طلباء کی پرورش اور ان کی درس و تدریس رہائش نصابی کتابوں کی ذمہ داری اور فراہمی احسن انداز میں نبہارہے ہیں۔تعمیراتی لگن اور مہارت بھی ایسی کہ ان کی زیر سرپرستی میں بننے والے تعلیمی اداروں کی عمارتوں کے شاہکارہر کسی کی توجہ کا مرکز بن چکے ہیں ان کا اپناپروجیکٹ آرکی ٹیکٹ ان کی محنت اور تخلیق کا پیمانہ اس اعلیٰ سطح پرکہ ہر ایک یہ دیکھ کر حیرا ن رہ گیا،بڑے سے بڑے دینی اداروں کے سربراہان انگشت بدندان رہ گئے عصری تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیز کے وائس چانسلرزبھی اس کمال پر انہیں داد دیئے بغیر نہیں رہ سکے، مولانا محمد نصیب مینگل کو داد ملے بھی کیوں نہیں کہ جب انہوں نے تعلیم جیسے نفیس اور پاکیزہ شعبے کو چنا اورپھر اس فیلڈ کے ہر شعبے کو بلندیوں تک پہنچانے کی ذمہ داری لی اورمثالی کامیابی کے اعلیٰ نھج تک پہنچے۔مولانا حافظ محمد نصیب مینگل انفرادی شناخت میں درویشانہ زندگی کے حامل شخصیت کے مالک ہیں، امیر و غریب چھوٹے بڑے اپنا ہو یا پرایا ہر ایک کے ساتھ یکساں انداز میں گھل ملنا مصافحہ کرنا ان کی شخصیت کا سب سے بڑا معتبر پہلو ہوتا ہے ان کی یہی سادگی انہیں دوسرے تمام شخصیات سے ممتاز اور پرکشش بنادیتی ہے۔ مولانا محمد نصیب مینگل کا تعلق ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ اور مینگل ٹرائب سے ہے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں معاملہ فہمی اور تدبر کا ایسا ہنر نصیب عطاء فرمایا ہے کہ جس محفل اور مجلس میں بیٹھیں اور مسئلہ حل کئے بغیر اٹھ جائیں ایسا ہو نہیں سکتا، مسائل اور تنازعات جتنے پیچیدہ اور گھمبیر کیوں نہ ہوں قبائل ایک دوسرے سے چاہے کتناہی شاکی اور رنجیدہ کیوں نہ ہوں یہ سب مولانامحمد نصیب مینگل کی تدبر اور معاملہ فہمی کے آگے کچھ بھی نہیں، جو کام حکومت قبائلی سربراہان و معتبرین نہ کرسکے وہ مولانا محمد نصیب مینگل نے کرکے دکھادیا۔ تحصیل وڈھ میں مینگل قبیلے کے دو ذیلی شاخوں دولت خانزئی اورحمل زئی کے درمیان گزشتہ تیس سا لوں سے خونی تنازعہ چلا آرہا تھا اور متعدد طبقات نے مختلف ادوارمیں بسیار کوششوں کے باوجود بھی ان قبائل کو قریب لانے میں کامیاب نہیں رہے اور دونوں شاخوں کے مابین تنازعہ کا مذید برقرار رہنا بھی کسی تشویشناک امر سے کم نہیں تھا۔ چنانچہ مولانا محمد نصیب مینگل نے اس حساس مسئلے کو دیکھ کر کوششوں کا آغاز اورقبائل کو آپس میں راضی کرنے کے لئے کردار نبہانے کی ذمہ داری لی، تو اس میں انہیں کامیابی بھی ملی انہوں نے مینگل قبیلہ کے مذکورہ دوشاخوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر اور ایک دوسرے کے ساتھ انہیں بغلگیر کرواکر جھالاوان کی تاریخ کا سب سے خوبصورت کام اور مستحسن کردار سرانجام دے دیا اس احسن کردارکانہ صرف جھالاوان بلکہ پورا بلوچستان معترف ہے ہر جماعت ہرطبقہ ہر قبیلہ ہر فردانہیں خراج تحسین پیش کررہاہے اور ان کے لئے نیک دعائیں سمیٹ رہاہے۔
مولانا محمد نصیب مینگل نے ذیلی قبائل دولت خانزئی اور حمل زئی کو آپس میں شیر وشکر کرنے کے لئے قبائلی اقدار کو زندہ وجاوداں رکھتے ہوئے بزرگان دین جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی سرپرست سابق ایم این اے مولانا قمرالدین جے یوآئی بلوچستان کے سابق امیر و سینیٹر مولانا فیض محمد کی سربراہی میں بڑا قافلہ لیکر قبائلی میڑھ کی صورت میں گرپرہ وڈھ علاقے میں حمل زئی مینگل کے گھر گئے جہاں میزبان فریق نے میڑھ کو قبول کرتے ہوئے دو افراد کے قتل کا خون مخالف فریق پر معاف کردیا۔ حمل زئی قبیلے کے ہاں جانے والے وفد میں جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی سرپرست مولانا قمرالدین سابق سینیٹر مولانا فیض محمد مولانا حافظ محمد نصیب مینگل مولانا میر محمد مینگل جرنلسٹس آرگنائزیشن فار سوشل سروسز کے صدر و خضدار پریس کلب کے سابق صدر عبداللہ شاہوانی مولانا عبدالقدوس بارانزئی ڈاکٹر سیف اللہ مینگل حاجی ثناء اللہ سمالانی حافظ بلال احمد مردوئی مسعود احمد شاہوانی نورجان بارانزئی مولانا عطاء اللہ لانگو سمیت دیگر شریک تھے۔ حمل زئی قبیلے کے افراد کی جانب سے خیر سگالی اور دور اندیشی و ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے میڑھ کے لئے آنے والے وفد کو عزت و اکرام سے نوازا گیا جس پر میڑھ کے لئے آنے والے علمائے کرام اور عمائدین نے اس اقدام پر انتہائی مسرت کا اظہار کیا اور حمل زئی قبیلے کے مروت و مثبت پیغام کو عین اسلام اور قبائلی روایات کے مطابق قرار دیکر انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا۔ جب کہ وفد نے مولانا حافظ محمد نصیب مینگل کی اس علاقہ دوستی قبائل دوستی کی بھی تعریف کی کہ انہوں نے دیرینہ قبائلی تنازعہ کو حل کرکے بہت بڑا سرپرائز اور اہم کارنامہ سرانجام دیدیا ہے جس پر ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ مولانا محمد نصیب مینگل کے ساتھ میر عبدالکریم چھٹو نے بھی اپنا کردار نبہایاتھا۔میڑھ کے موقع پر علمائے کرام اور قبائلی معتبرین کا کہنا تھاکہ مولانا محمد نصیب مینگل جیسا خیر خواہ اور علاقہ دوست قبائل دوست نے دونوں قبائل کے مابین خونی تنازعہ کے تصفیہ میں کردار ادا کردیا یہ ایک تاریخی دن اور تاریخی فیصلہ ہے مولانا محمد نصیب مینگل جیسے لوگ پورے علاقے کے لئے ہیرے ہوتے ہیں اور ان کی خدمات کا کوئی نعمل البدل نہیں ہوتا ہے یقینا یہ کردار مدتوں یاد رکھا جائیگا جب ان کی کوششوں سے دو ناراض قبائل ایک دوسرے کے قریب آگئے اور علاقے سے کشت و خون کا ماحول ہمیشہ کے لئے ختم کردیا آج وڈھ کے ہر گھر ہر خاندان کی جانب سے مولانا محمد نصیب مینگل کو دعائیں دی جارہی ہیں کہ انہوں نے اپنی مصروفیات ترک کرکے کراچی وڈھ تشریف لائے اور یہاں کئی روز تک اس مسئلے کے حل میں مصروف عمل رہ کر قبائل کو آپس میں شیر و شکر کرنے میں کامیاب ہوگئے اس کا اجر اللہ تعالیٰ انہیں اس دنیاء میں اور آخرت میں دیگا۔ اس موقع پر حمل زئی مینگل قبیلے کی جانب سے میر حمل حمل زئی مینگل،نصیر احمد گمشاد زئی نورجان گمشاد زئی غلام قادر گمشاد زئی بدل خان گمشاد مینگل بشیر گمشاد زئی شیرمحمد حمل زئی عبدالقادر چھٹو گہرام حمل زئی مینگل گہور حمل حمل زئی مولانا فتح محمد حمل زئی مینگل مولانا محمد جان موجود تھے جب کہ دولت خان زئی قبیلے کی جانب سے مولانا تاج محمد دولت خان زئی مینگل۔ غلام حیدر دولت خان زئی مینگل عبدالرؤف دولت خانزئی مینگل مولانا عبدالصمد دولت خان زئی مولوی عبدالعزیز دولت خان زئی بشیر رئیسانی بلوچ خان رئیسانی مولوی حبیب اللہ زہری و دیگر میڑھ و خوشی کی اس پر وقار تقریب میں موجود تھے۔ فریقین میڑھ لیکر آنے والے علمائے کرام کی موجودگی میں ایک دوسرے کے ساتھ گلے ملے مصافحہ کیا اور شیر و شکر ہوگئے۔ اس موقع پر حمل زئی قبیلے کی جانب سے مہمانوں کیلئے پرتکلف ظہرانے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔
اس کے تین روز بعد دولت خانزئی قبیلے کی جانب سے ثالثین علمائے کرام عمائدین اور حمل زئی و دولت خانزئی کے قبیلے کے معتبرین کے اعزاز میں دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا جمعرات کا دن تھا چنانچہ مولانا محمد نصیب مینگل نے علمائے کرام عمائدین و معتبرین جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی سرپرست مولانا قمرالدین سابق سینیٹر مولانا فیض محمد مولانا حافظ محمد نصیب مینگل مولانا میر محمد مینگل جرنلسٹس آرگنائزیشن فار سوشل سروسز کے صدر و خضدار پریس کلب کے سابق صدر عبداللہ شاہوانی، میر حمل حمل زئی مینگل،شیرمحمد حمل زئی عبدالقادر چھٹو گہرام حمل زئی مینگل گہور حمل حمل زئی مولانا فتح محمد حمل زئی مینگل مولانا محمد جان مولانا عبدالقدوس بارانزئی ڈاکٹر سیف اللہ مینگل حاجی ثناء اللہ سمالانی حافظ بلال احمد مردوئی مسعود احمد شاہوانی شہباز شاہوانی نورجان بارانزئی مولانا عطاء اللہ لانگو و دیگر کے وفد کو لیکر وڈھ کے دور دراز علاقہ دودکی پہنچے جہاں مولانا تاج محمد دولت خان زئی مینگل۔ غلام حیدر دولت خان زئی مینگل عبدالرؤف دولت خانزئی مینگل مولانا عبدالصمد دولت خان زئی مولوی عبدالعزیز دولت خان زئی بشیر رئیسانی بلوچ خان رئیسانی مولوی حبیب اللہ زہری و دیگر نے مہمانوں کے اعزاز میں پر تکلف ظہرانے کا اہتمام کیا تھا اس سے قبل مولانا محمد نصیب مینگل نے فریقین کے معتبرین کو سندھی اجرک پہنایا اور ان کے سروں پر بلوچی ٹوپی رکھا گیا۔ مولانا قمرالدین اور مولانا فیض محمد نے بلوچی رسم و رواج کے تحت میزبان اور مہمانوں سے حال احوال کیا اور اپنی جانب سے حال احوال دیا۔ اس طرح یہ دیرینہ تنازعہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا اوراس کی خوشی پورے جھالاوان میں پھیل گئی۔امید ہے کہ مولانا محمد نصیب مینگل اپنے اس فارمولے کوآئندہ بھی اسی طرح ازما کر دوسرے ناراض قبائل اور گروہوں کو بھی راضی کرنے میں کردار ادا کریں گے۔قبائلی تنازعات قبائلی عفریت کا خاتمہ کرکے ناراض لوگوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے میں کردار نبہائیں گے لوگوں کے چہروں پر خوشی لائیں گے جب قبائلی تنازعات کا خاتمہ ہوگا تو اس سے تعلیم اور ترقی کے آگے حائل رکاوٹوں کا خاتمہ ہوگا اور لوگ ایک دوسرے کی عزت و تکریم کریں گے اب بھی تمام نظریں مولانا محمد نصیب مینگل پر مرکوز اور انہی سے توقعات وابستہ ہیں۔