کس کے گھر جائے گا یہ سیلاب بلا میرے بعد

0 45

افغانستان دریائے کابل میں جو اس وقت سیلاب چڑھا ہوا ہے اس نے دریاۓ سندھ میں آ کر شامل ہونا ہے۔ پختونخواہ میں جو طوفانی بارشیں اور سیلاب آیا ہے وہ پانی بھی دریاۓ سندھ میں آ کر شامل ہو گا۔ یہ جمع ہونے والا ریلہ ابھی کالاباغ کے مقام تک نہیں پہنچا لیکن جلد پہنچنے والا ہے۔ اس کے بعد میدانی علاقہ ہے او یہ بڑا ریلہ تب تک تباہی مچاتا رہے گا جب تک بحیرہ ء عرب میں جا کر نہیں گر جاتا۔ کچے کا سارا علاقہ ڈوبے گا، ڈیرہ اسماعیل خان کے ساتھ ساتھ بھکر کا کچھ حصہ متاثر ہوگا، تباہی در تباہی ہو گی لیکن کسی قسم کی کوئی تیاری نہیں کی گئی ہے۔
کالاباغ ڈیم ہوتا تو یہ سارا پانی سٹور ہو جانا تھا لیکن ڈیم بن گئے تو بجلی کے “کارخانے” لگا کر حکمران تگڑا کمیشن کیسے کھائیں گے، سولر پلیٹ کیسے بیچیں گے؟

یہ سب میٹھا پانی ہے۔ اربوں ڈالر مالیت کا یہ میٹھا پانی اربوں ڈالر مالیت کی تباہی مچاتا ہوا سمندر میں جا گرے گا۔ چند ماہ بعد خشک سالی ہو گی۔
ستر سال سے اسی سیلاب اور خشک سالی کے درمیان جی رہے ہیں۔ ایک کالاباغ ڈیم اربوں ڈالر کا میٹھا پانی بچاۓ گا، اربوں ڈالر کا نقصان بچائے گا اور اربوں ڈالر کی سستی بجلی الگ سے فراہم کرے گا۔ جو قومیں فیصلے نہیں کرتی ۔ ان کے فاصلے ترقی کے لمبے ہو جاتے ہیں ۔ پاکستانی عوام اگر قوم بن جاتی تو یہ سیلاب نہ دیکھنے پڑتے ۔ کیونکہ قومیں منصوبہ بندی کرتیں ہیں ۔ عوام منصوبے بناتے ہیں۔کاش ہم ایک زندہ قوم بن جاتے تو یہ ایام نہ دیکھنے پڑتے سیلاب بلا کو کسی سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی ۔ وہ اپنے سامنے محلات ہ جھونبڑیوں کو فن کے گھاٹ اتارتا جاتا ہے ۔ اگر منصوبہ بندی ہوتی تو اربوں ڈالر کا نقصان نہ اٹھانا پڑتا حکمران 77 سال سے توکل کا درس دیتے ا رہے ہیں اور ان کے ذہن میں یہی بات ہے۔ توکل تو مشروط ہوتا ہے ۔ اونٹ کا پاؤں پہلے باندھو پھر توکل کرو خنجر تیز رکھنے سے توکل کا صحیح مفہوم مولانا ظفر علی خان نے اپنے اس شعر میں بیان کر دیا ہے ۔

توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا

پھر انجام اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر

قیام پاکستان سے لے کر ہم سیلاب کا خیر مقدم کرتے ا رہے ہیں اور تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں لیکن ہم نے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی سیلاب سے بچنے کی ۔ سیلاب کا میٹھا پانی اربوں ڈالر کا اربوں ڈالر کی تباہی مچاتا ہوا جب تک بحیرہ ء عرب میں نہیں گرے گا اس وقت تک بھکر ۔ میانوالی ۔ کالا باغ ڈیم اور بہت سارے میدانی علاقے طوفان کشمکش کے درمیان ہچکولے کھاتے رہیں گے ۔۔

اے کشتی ءحیات کے ملاح غم نہ کر

ساحل پہ پھینک دیتا ہے طوفاں کبھی کبھی

ہمارے حکمرانون نے طوفانوں پر بھروسہ کیا ہوا ہے ۔۔ تو بصیرت اور بصارت سے محروم اندھی جم غفیر کہاں جا رہی ہے ۔ ہمارے وہ کرائے دین اس دنیا میں نہیں رہے ہیں جو انے والے حادثات کی پیش بندی کیا کرتے تھے علامہ اقبال کا یہ مشہور شعر ہمارے لیے دیدہ ۔ درس نگاہ ہے۔

حادثہ جو ابھی پردہ ء افلاک میں ہے

اس کا عکس میرے اینہ ء ادراک میں ہے

اربوں ڈالر کا ریلا جو اربوں ڈالر کا نقصان کر رہا ہے ہم اس سے کھربوں ڈالو فائدہ اٹھا سکتے تھے اٹھا سکتے ہیں اٹھا سکنے کی اہلیت رکھتے ۔ایک کالا باغ ڈیم بن جاتا تو یہ اور وہ ڈالر بچایا جا سکتے تھے اور ہمارا پورا پاکستان سرسبز و شاداب ہو جاتا ۔ اور اج جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ

جن کو دعوی ہے کہ بیا باں سنوارے ہم نے

ان سے پوچھو کہ اجاڑے ہیں گلستاں کتنے

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.