خان شہید عبدالصمدخان اچکزئی کی 50ویں برسی

0 130

آج 2 دسمبر خان شھید عبدالصمدخان اچک‍زئی کی 50ویں برسی ھے خان شہید 7 جولائی 1907 کو عنایت اللہ کاریز قلعہ عبداللہ میں پیدا ھوئے۔ انگریز کی حکومت تھی۔ ملک غلام تھا گاوں کے مسجد کے امام سے درخواست کی کہ نماز عشا کے بعد عربی میں تلاوت کرنے اور سننے کا ثواب ھے لیکن ھماری زندگی پر اس کا اثر بہت کم ھوگا کیونکہ ھمارے لوگ عربی نہیں سمجھتے، تو اگر ترجمہ کیا جائے تو لوگوں کی اصلاح ھوگی۔ مسجد کے امام نے کہا کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا لیکن اگر تم کرنا چاھو تو میں نہیں روکونگا۔ خان شھید نماز کے بعد لوگوں کے سامنے کھڑے ھوگئے اور تبارک الذی سے آغاز کیا ، یہ اس کی پہلی تقریر یا خطبہ تھا،
اللہ تعالی فرماتے ھیں کہ میں نے موت اور زندگی اس لئے تخلیق کی کہ میں تمھارے اعمال کی خوبصورتی دیکھ سکوں (القران)
اگلے صبح کوئٹہ انگریز کا کارندہ ایا اور خان شھید کو کوئٹہ میں ریذیڈنٹ مجسٹریٹ کے سامنے پیش ھونے کا وارنٹ تھما دیا۔
ہر گاوں میں فرنگی کے جاسوس موجود تھے اس لئے خبر فرنگی تک پہنچ گئی
خان شہید کی برسی ایسے حالات میں منائی جارہی ہے کہ ملک میں ہر طرف سے جمہوریت اور آئینی بالادستی کے لئے آوازیں بلند ہورہی جمہوریت کے لئے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی قربانیاں لازوال ہیں.
خان شہید کی زندگی اور جدوجہد پر اگر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ موصوف نے انتہائی نامساعد حالات میں سیاسی جدوجہد کا آغاز ایک ایسے وقت میں کیا جہاں ایک طرف رجعت پسند، معاشی تباہ حال اور غیر سیاسي پشتون معاشرہ تھا جس میں ہر نئے فکر اور نظریے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، تو دوسری طرف فرنگی استعمار نے برصغیر اور پشتونخوا وطن کو غلامی کی مضبوط زنجیروں میں جکڑ رکھا تھا اور اپنا استعماری تسلط برقرار رکھنے کے لئے ان مستعمرہ علاقوں میں سیاسی سرگرمیاں اور سیاسی شعور اجاگر کرنا ناقابلِ معافی جرائم تھے.
انگریز کے اُس جابرانہ دورِ حکومت میں جہاں باقی ہندوستان میں آئین کے تحت حکمرانی کی جاتی تھی اور لوگ ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرتے تھے لیکن برٹش بلوچستان (جنوبی پشتونخوا) میں بدنام زمانہ سیاہ قانون ایف سی آر نافذ العمل تھا. انگریز پولیٹکل ایجنٹ صوبے میں مختارِ کُل ہوتا تھا اور سرکاری جرگه جس کے ارکان کے ذریعے حکومتی نظم و نسق پر عمل درآمد کرواتا تھا. سرکاری جرگے ارکان جو فرنگیوں کی کاسہ لیسی، خوشامد اور ضمیر فروشی کے بنیاد پر سلیکٹ ہوتے تھے. کے ذریعے چلاتا تھا
خان شہید سے وطن و ملت کی یہ حالت دیکھی نا جاسکی اور غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ وطن و قوم کی انگریز استعمار سے آزادی حاصل کرنے کے لئے ایک منظم سیاسی تنظیم کی اشد ضرورت ہے. سر سید احمد خان کے نظریے کہ انگریز سرکار سے قربت اور اعلی تعلیم حاصل کرکے مسلمانوں کے برے دن بدلنے کے برخلاف آپ سمجھتے تھے کہ قوم کو غلامی محکومی اور ظلم کے خلاف استعمار اور سامراج کے ظالمنا منصوبوں نے آگاہ کرنے اور منظم کرنے اور استعمار سے آزادی کے لئے تیار کرنے ہی سے قوم کی حالت بدلی جا سکتی ھے،
خان شہید نے آزادی اور برٹش بلوچستان سے ایف سی آر خاتمے اور جمہوریت کے حصول کے لئے اپنے جدوجہد کا آغاز “بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس” کے پلیٹ فارم سے جیک آباد سے 1930ء سے کیا جس مین خان شہید نے بلوچستان میں عوامی بالادستی اور پولیٹکل ایجنٹ کی مطلق العنانیت کے خاتمے کے لئے آواز اٹھائی اور پشتون، بلوچ اقوام و عوام کی زبوں حالی سے دیگر اقوام و عوام کو آگاہ کرایا. اس جدوجہد کی پاداش میں پولیٹکل ایجنٹ کے کاسہ لیس سرکاری جرگے کے توسط سے وقفہ وقفہ سے خان شہید کو سزائیں دلا کر قید رکھا جاتا رہا تاکہ وہ انکو آزادی عظیم مقصد سے دور رکھا جا سکے لیکن آپ اپنے عزم پر ڈٹے رہے.
خان شہید اپنی سوانح عمری “زما ژوند او ژوندون” میں لکھتے ہیں کہ کچھ عرصے میں مجھے احساس ہوا کہ یہ تنظیم چند پڑھے لکھے وطن دوست شخصیتوں، سرکاری نوکروں اور طلباء تک محدود ہے اور اس کی سرگرمیاں بلوچستان سے باہر دوسرے صوبے میں ہیں اس لیے اس سے اندورنی طور پر برٹش بلوچستان اور ریاستِ قلات کے باشندوں کو کوئی خاص سیاسی فائدہ نہیں ہورہا ہے. اس لئے سیاست کو عوامی رنگ دینے اوربرٹش بلوچستان کے ہر شہر، ہر گاؤں اورہر گلی کوچے تک پہچانے کیلئے خان شہید نے 20مئی 1938ء کو بلوچستان کی پہلی سیاسی تنظیم “انجمن وطن” کی داغ بیل ڈالی. اس پارٹی نے بلوچستان میں سیاسی شعور اجاگر کرنے اور تحریک آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا.
تقسیم ہند اور پاکستان کے معروضِ وجود میں آنے کے بعد یہاں بسنے والوں کو یہ خوش فہمی تھی اب یہاں عوام کے حقیقی منتخب نمائندوں کی حکومت ہوگی اور بدیسی حکمرانوں کے برعکس یہ نمائندے عوام کی فلاح و بہبود کو اپنا نصب العین بنائیں گے لیکن ملک میں انگریز استعار نے جاتے جاتے اختیار اپنے پرانے نوکرو اور وفادارو کے شکل میں نئے استعمار کےحوالے کیا. ان حکمرانوں نے محکوم اقوام کا استحصال جاری رکھنے اور جمہوریت کو مضبوط ہونے سے روکنے کیلئے تحریک آزادی میں نمایاں کردار ادا کرنے والے سیاسی رہنماؤں کو پابند سلاسل کیا. خان شہید بھی ان قید ہونے والے رہنماؤں میں شامل تھے. خان شہید لکھتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی کے بہترین دن دن فرنگی اور مسلم لیگی جیلوں میں گزارے،
خان شہید نے 1954ء میں چھ برس مسلسل قید سے رہائی پانے کے بعد منقسم پشتونخوا وطن کی وحدت اور ملک میں جمہوری استحکام کی سیاسی جدوجہد کرنے کے لئے اسی سال 24 اپریل کو نئی پارٹی “ورور پشتون” کی بنیاد رکھی. حکومت نے 22 نومبر1954ء کو سندھ پنجاب، سرحد، برٹش بلوچستان (جنوبی پشتونخوا) اور ریاست قلات کو ملا کر ون یونٹ قائم کیا. ون یونٹ کے خلاف تمام جمہوری پارٹیوں نے مشترکہ جدوجہد کے لئے1956ء میں “پاکستان نیشنل پارٹی بنائی. “ورور پشتون” بھی اس ملک گیر پارٹی میں ضم ہوئی جو 1957ء میں مولانا بھاشانی اور بنگالیوں کی شمولیت کے بعد نیپ (نیشنل عوامی پارٹی) میں تبدیل ہوئی. نیپ کے بنیادی مقاصد میں ون یونٹ کا خاتمہ اور لسانی، جغرافیہ اور تاریخی بنیادوں پر نئی صوبوں کا قیام شامل تھے.
سال 1958ء کو مارشلاء کے نفاذ کے فوراً بعد خان شہید کو گرفتار کیا گیا اورعدالت نے چودہ سال قید کی سزا سنائی. آپ نے ایوبی مارشلاء کا پورا دورانیہ سلاخوں کے پیچھے گزارا اور 1968ء میں رہائی پانے والے آخری سیاسی قیدی تھے.
یحییٰ خان کے دور اقتدار میں جب 1 جولائی 1970ء کو ون یونٹ تحلیل ہوا تو نیپ کی قیادت نے اپنے منشور سے روگردانی کرتے ہوئے پرانے صوبوں کی بحالی پر اکتفاء کیا اور ستم ظریفی یہ ہوئی کہ ریاست قلات اور برٹش بلوچستان کو ملا کر ایک نیا صوبہ بنایا گیا جس سے جنوبی پشتونخوا کے پشتون آبادی کی شناخت ایک بار پھر مسخ کرکے بلوچستان کا نام دیا گیا. خان شہید اور جنوبی پشتونخوا دیگر اکابرین اپنے اصولی موقف لسانی، جغرافیائی اور تاریخی بنیادوں پر صوبوں کی قیام پر قائم رہتے ہوئے نیپ سے علیحدہ ہوگئے اور نیشنل عوامی پارٹی پشتونخوا کے نام سے ایک نئی جماعت بنائی. جس کے اغراض و مقاصد میں منقسیم پشتونخوا وطن اٹک، میانوالی، شمالی پشتونخوا (خیبر پشتونخوا) اور جنوبی پشتونخوا کو یکجاء کرکے “پشتونستان” کے نام سے پشتون قوم کا ایک متحدہ صوبہ بنانا اور ملک میں جمہوریت اور عوامی بالادستی کے لئے منظم سیاسی جدوجہد شامل تھے.
بنگلہ دیش کے الگ ہونے کے بعد جب ذولفقارعلی بھٹو اور اپوزیشن کے اختلافات شدت اختیار کر گئے تو خان شہید نے بھٹو کے بعض ناپسندیدہ اقدامات کے باوجود بھٹو حکومت کی حمایت کی اگرچہ پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کی مرکزی کمیٹی نے مشروط طور پر حکومت کی حمایت کا فیصلہ کیا تھا لیکن خان شہید پارٹی فیصلے کو نظر انداز کرتے ہوئے غیر مشروط طور پر حکومت کی حمایت کی جس پر پارٹی کی مرکزی کمیٹی نے خان شہید کی پارٹی رکنیت ختم کی، اس دوران خان شہید حکومت و اپوزیشن کو سیاسی اختلافات افہام و تفہیم سے حل کرنے پر زور دیتے رہے.
خان شہید نے اپنی شہادت سے ایک دن پہلے ایک صحافی کو اپنی زندگی کا آخری انٹرویو دیتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ بعض قوتیں ملک میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی سازشیں کررہی ہیں جو اپوزیشن اور حکومت دونوں کی مفاد میں نہیں ہے. یہ خدشہ خان شہید کے شہادت کے پانچ برس بعد اس وقت درست ثابت ہوا جب اپوزیشن کی شدید احتجاجوں کے بعد جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشلاء لگایا اور ایک بار پھر ملک کا سیاہ دور شروع ہوا.
اپنی زندگی کا نصف حصہ انگریز اور پاکستانی جیلوں میں گزارنے کے باوجود جمہوریت اور پشتون و دیگر محکوم اقوام کے حقوق کے لئے حق آواز کو خاموش کرنے کے لئے 2 دسمبر 1973ء کے رات دستی بم پھینک کر خان شہید کو ہم سے جدا کردیا.لیکن دشمن کا یہ خواب اس لئے پورا نا ہوسکا کہ خان شہید نے بچے بچے کے کانوں میں استعمار اور ان کاسہ لیسوں ظلموں کی داستان بھر چکے تھے خان شہید کی شہادت کے بعد پارٹی دوبارہ متحد ہوئی، اور خان شہید کے اولاد میں تیسرے نمبر آنے والے نوجوان مشر محمود خان اچکزی کو پارٹی کا صدر چن لیا گیا جو اب تک پارٹی قیادت کر رہے ہیں
محمود خان اچکزئی کی قیادت میں پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی نے ضیا مارشلاء کے خلاف جمہوریت کی بحالی کے لئے اہم کردار ادا کیا. 7 اکتوبر 1983ء کو کوئٹہ میں مارشلاء کے خلاف احتجاجی جلوس پر سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے اندھا دھند فائرنگ کی گئی تاکہ محمود خان اچکزئی کو راستے سے ہٹایا جاسکے. فائرنگ کے نتیجے میں کاکا محمود، اسلم اولس یار، داؤد اور رمضان نے جام شہادت نوش کیا لیکن محمود خان کاکنوں کی قربانی کی بدولت محفوظ رہے.
جمہوریت کی حمایت کرنے اور افغانستان میں مداخلت کے خلاف موقف اپنانے کی پاداش میں 1989ء کو محمود خان اچکزئی کے گھر عنایت اللہ کاریز پر غیرجمہوری قوتوں کی جانب سے مسلح جنگ مسلط کی گئی جسکا ہر سطح کے پارٹی کے دلیر کارکنوں مقابلہ کرکےناکام بنایا، 11 اکتوبر 1991ء کے شہداء وطن اور مشرف مارشلائی دور کے 27 اپریل 2000ء کے پشتون آباد کے شہداء بھی اسی اصولی موقف کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا
پہلے پشتونخوا نیشنل عوامی اور اب پشتونخوا ملی عوای پارٹی نے خان شہید کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر وقت متحدہ پشتون صوبہ جمہور کی حکمرانی اور محکوم اقوام کی حقوق، دہشت گردی، آزاد افغانستان کے استقلال ارضی تمامیت کے لئے کی نتائج سے بے پرواہ ہوکر جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کے معرکے میں صفِ اول میں کھڑے رہے ہیں. اور یہ جدوجہد آخری فتح تک جاری رہے گی، اسی لئے ایم آر ڈی سے لیکر آج کی پی ڈی ایم تک جمہوریت کے لئے بننے والی ہر اتحاد میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا ھے تحریر عارفہ صدیق ایڈووکیٹ

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.