لہو میں لت پت مسجد و محراب
تحریر: عبدالصمد حقیار
متحیر ہوں کہ اس دل دہلا دینے والے المیے کی داستان لکھنے کے لیے قلم میں گویائی کی قوت کہاں سے لاؤں؟ میرا قلم لرزاں ہے، دل مضطرب ہے، اور خیالات مفلوج ہو چکے ہیں۔ وہ اندوہناک لمحہ، جب ایک سفاک درندے نے چند ہی لمحوں میں مسجد کے پاکیزہ در و دیوار کو بے گناہ اور نہتے نمازیوں کے خون سے رنگین کر دیا۔ منبر و محراب سے بہنے والا لہو اللہ کی وحدانیت اور ربوبیت کی گواہی دیتا رہا، مگر قاتل نے اتنا بھی انتظار نہ کیا کہ سجدے میں گرے ہوئے معصوم نمازی سلام پھیر سکیں۔ یہ کیسی درندگی اور ظلم ہے کہ عبادت گاہوں کو مقتل بنا دیا جاتا ہے؟ جہاں امن اور سکون کی صدائیں بلند ہونی چاہیے، وہاں آہوں، سسکیوں اور چیخوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔ نہ جانے ایسے بے رحم قاتل کس کی خوشنودی اور کس مقصد کی تکمیل کے لیے اپنی دنیا و آخرت دونوں برباد کر دیتے ہیں۔ مظلوموں کا بہتا ہوا خون آج بھی رب العالمین کی عدالت میں فریاد کناں ہے، چیخ چیخ کر پکار رہا ہے: “اے اللہ! مجھے کس جرم میں قتل کیا گیا؟”
یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ مساجد، مدارس اور خانقاہیں ہمیشہ امن، اخوت اور بھائی چارے کے مراکز رہے ہیں۔ یہ وہ مقدس مقامات ہیں جہاں دلوں کو جوڑا جاتا ہے، نفرتوں کو مٹایا جاتا ہے، اور انسانیت کا درس دیا جاتا ہے۔ مگر آج یہی مقدس مقامات دشمنوں کے نشانے پر ہیں۔ جہاں کبھی “اللہ اکبر” کی صدائیں گونجتی تھیں، وہاں آج شہداء کی آہیں سنائی دیتی ہیں۔ جہاں کبھی روح کو سکون ملتا تھا، آج وہاں خون کے چھینٹے بکھرے نظر آتے ہیں۔ عبادت گاہیں، جو امن و سکون کی علامت تھیں، آج ماتم کدوں میں بدل چکی ہیں۔ انسانی جان کی حرمت گویا مٹی میں ملا دی گئی ہے، اور ناحق خون بہانا سب سے آسان اور سستا کام بن چکا ہے۔ وہ ماں، جس نے اپنے لخت جگر کو دعاؤں کے سائے میں مسجد بھیجا تھا، آج اس کا خون میں لت پت لاش اٹھانے پر مجبور ہے۔ وہ بہن، جو اپنے بھائی کے خیر و عافیت سے لوٹنے کی منتظر تھی، آج اس کے جنازے پر ماتم کر رہی ہے۔ وہ باپ، جو اپنے بیٹے کو امام و حافظ قرآن بننے کے خواب دکھاتا تھا، آج قبر کے کتبے پر اس کا نام لکھوا رہا ہے۔ انصاف کے دروازے بند ہیں، عدالتیں خاموش ہیں، اور حکمرانوں کی بے حسی عروج پر ہے۔ مظلوموں کی آہ و فریاد عرش تک تو پہنچ چکی ہے، مگر زمین کے بے حس اور نااہل حاکموں کے کانوں پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔
یہ بات کسی سے پنہاں نہیں کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال بدترین شکل اختیار کر چکی ہے۔ قومی شاہراہیں مظلوموں کے قتل گاہیں بن چکی ہیں، جہاں ڈاکو، لٹیرے اور قاتل بے خوف دندناتے پھرتے ہیں۔ ہر شہری خود کو غیر محفوظ سمجھنے پر مجبور ہے، گویا جان و مال کا تحفظ ناممکن ہو چکا ہے۔ چند سکوں کے عوض معصوم بچوں کا اغوا، بے گناہ انسانوں کا قتل، اور بربریت کے نہ ختم ہونے والے سلسلے روز کا معمول بن چکے ہیں۔ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے کہ مساجد، مدارس اور علمائے کرام سمیت ہر مکتبہ فکر کے رہنماوں اور عام شہریوں کو مکمل تحفظ فراہم کرے، مگر افسوس! وہ اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے منہ موڑ چکی ہے۔ جب عبادت گاہیں غیر محفوظ ہو جائیں، جب نمازی خوف کے سائے میں سجدہ ریز ہونے پر مجبور ہو جائیں، جب قومی شاہراوں پر محفوظ سفر ممکن نہ ہو، تو سمجھ لیجیے کہ معاشرہ انتشار اور بدامنی کی آگ میں جھلس رہا ہے۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ اگر آج بھی ہم نے اپنی ذمہ داریوں سے آنکھیں چرائیں، اگر قاتلوں کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا، تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ یہ وقت ہے کہ ریاست اپنی رٹ قائم کرے، ظالموں کو نشانِ عبرت بنائے، اور عبادت گاہوں کو ایک بار پھر امن و سکون کا گہوارہ بنائے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہر گلی، ہر کوچہ، اور ہر در و دیوار یہی سوال کرے گا
“مجھے کس جرم میں قتل کیا گیا؟”