پاکستان بالخصوص بلوچستان میں آزاد فکر پر پابندی عائد ہے ، لشکری رئیسانی

0 110

کوئٹہ( پ ر) سینئر سیاست دان وسابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ بلوچستان سے پارلیمنٹ میں پہنچائے گئے لوگوں کو صوبے کے معاملات پر خاموش رہنے کی اجرت ادا کی جارہی ہے، عوامی پارلیمنٹ ہی ہماری پارلیمان ہے ، ہم اس کے ذریعے بلوچستان کا مقدمہ باقی ملک میں لڑرہے ہیں، ریاست بلوچستان کیساتھ ایک سوشو اکنامک ، پولیٹیکل، سائیکلوجیل ڈائیلاگ کا آغاز کرکے 1940 کی قرار داد ، خان آف قلات میر احمد یار خان اور محمد علی جناح کے درمیان ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد کرئے۔ یہ بات انہوںنے گزشتہ روز ملتان میں ملک سلیم جاوید کی جانب سے اپنے اعزاز میں دیئے گئے ظہرانے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو ،ڈیرہ غازی خان میں منعقدہ عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر سابق وفاقی وزیر میر ہمایوں عزیز کرد نے بھی خطاب کیا۔ نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے مزید کہا کہ پاکستان بالخصوص بلوچستان میں آزاد فکر پر پابندی عائد ہے ، بلوچستان سے گونگے اور بہرے لوگوں کوپارلیمنٹ تک پہنچایا گیا ہے ان لوگوں کو بلوچستان کے معاملات پر خاموش رہنے کی اجرت ادا کی جارہی ہے جس کے نتیجے میںصوبے کے سیاسی، معاشی، معاشرتی بحرانوں میں اضافہ ہوا ہے،انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے ان حقیقی مسائل جن پر پارلیمنٹ میں بات نہیں ہورہی ہم پارلیمنٹ سے باہرعوامی پارلیمنٹ لگا کر ان مسائل پر ڈائیلاگ کررہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ اگر معاشرے میں ڈائیلاگ نہیں ہوگا تو ایک گھٹن پید ا ہوگی اور مسائل میں مزید اضافہ ہوگاجس کے نتیجے میں ایک بہت بڑا المیہ جنم لے سکتا ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم نے معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان بات چیت کا آغاز کیا ہے تاکہ عوام کے اجتماعی معاملات پر بحث کرکے کسی نتیجے تک پہنچیں اور لوگ اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر ملک کو بحران سے نکالنے میں کامیاب ہوں۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں پارلیمنٹرین حکومت میں آنے کیلئے غیر اخلاقی ویڈیوز ، آڈیو لیکس کا سہارا لے رہے ہیں جس کا مطلب پاکستان ایک بہت بڑے اخلاقی ، سیاسی بحران کا شکار ہے سیاسی جماعتیں مصلحت کا شکار ہو کر اپنی ذات کیلئے پاور شیئرنگ کررہی ہیں۔ انہوںنے کہاکہ پارلیمنٹ ڈیلیور کرنے میں ناکام ہے ایسے میں عوامی پارلیمنٹ ہی ہماری پارلیمان ہے اور ہم اس کے ذریعے بلوچستان کی آواز کو باقی ملک میں اٹھارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے 47فیصد رقبہ پر مشتمل بلوچستان کے لوگوں کیلئے کوئی آئین اور قانون رائج نہیں ہے، بلوچستان کو آج بھی ون یونٹ کے تحت چلایا جارہا ہے ، انہوںنے مطالبہ کیاکہ ریاست بلوچستان کے ساتھ ایک سوشو اکنامک ، پولیٹیکل، سائیکلوجیل ڈائیلاگ کا آغاز کرکے 1940 کی قرار داد اور خان آف قلات احمد یار خان اور محمد علی جناح کے درمیان ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد کرئے۔ انہوںنے کہاکہ ہماری سیاسی جدوجہد کا مقصد بلوچستان کے وقار اور عزت کا دفاع کرنا ہے تاکہ ہماری آئندہ نسلیں باوقار باعزت زندگی گزاریں۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.