بلوچستان کے معروف ادیب گل بنگلزئی کی ادبی خدمات کا اعتراف

0 442

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا ادب معاشرے کی جذباتی ، فکری اور عملی زندگی کا ترجمان ہوتا ہے ۔ اور یہ صرف ترجمان ہی نہیں ہوتا اِس پر تنقید بھی کرتا ہے ۔
معاشرہ مختلف خانوں میں بٹے ہونے کے باوجود اکائی کی حیثیت رکھتا ہے ۔
اِسی اکائی کو جسے ہم اگر ادبی اکائی تسلیم کر لیں تو ہمارا سماجی برتاوُ میں نہ صرف سلجھاوُ آجائے بلکہ سماجیات کا وہ حُسن ہماری زندگیوں میں در آئے۔ جس کی تمنّا ہر ذی شعور انسانی ذہن و قلب کرتا ہے ۔
ادب اور ادیب معاشرتی ، سماجی ، تمدنی اور ثقافتی رعنائیوں کو دوام بخشنے کیلیے مدام ہمہ تن و ہمہ وقت مصروفِِ عمل رہتے ہیں ۔ اور ادب کے حوالے سے متحرک رہنے والے اہلِ قلم کو مذید فعال رکھنے کیلیے اُن کی حوصلہ افزائی اور پذیرائی کی خاطر تقاریب کا انعقاد کرتے رہتے ہیں ۔
اسی ایک تقریب پاکستان رائٹرز گلڈ کے زیرِ اہتمام منعقد کی گئی ۔ جس میں بلوچستان کے سینئر ترین بزرگ ادیب ، ممتاز افسانہ نگاراور براہوئی زبان کے شاعر محمد گل بنگلزئی کو اُن کی اعلیٰ ادبی کارکردگی پر گلڈ کی جانب سے ایوارڈ اور پھولوں کا گلدستہ پیش کیا گیا ۔
تقریب میں پروفیسر خدائیداد گل ، پروفیسر طاہر بلوچ ، ڈاکٹر اعظم بنگلزئی ، علیم مینگل ، ناصر بنگلزئی ، غلام نبی اور شیخ فرید نے گل بنگلزئی کے فن و شخصیت پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے موصوف کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ۔۔مقررین نے گل بنگلزئی کی ادبی خدمات کو بے حد سراہا ، اپنے خطاب میں اہلِ قلم نے نے کہا کہ گل بلوچستان میں جو ادب کی۔ترقی و ترویج کیلیے انجام دی ہیں ، وہ قابل ستائش ہیں ۔
شیخ فرید راقم۔الحروف نے گل بنگلزئی کا شخصی خاکہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ گل بنگلزئی اگست 1936ء کو۔کوئٹہ۔کے۔نواحی علاقے کلی نوحصار میں پیدا ہوئے ، ابتدائی تعلیم نو حصار سے حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ اسپیشل ہائی اسکول کوئٹہ میں داخلہ لیا اور وہی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ، ملتان۔ ورڈ سے انٹرمیڈیٹ اور لاہور یونیورسٹی سے بی ، اے کی ڈگری حاصل کی۔اور عملی زندگی کا آغاز کیا ، آپ نے۔بلوچستان ثانوی تعلیمی بورڈ کوئٹہ ، بلوچستان یونیورسٹی ، انجیئرنگ یونیورسٹی خضدار اور تربت میں اعلیٰ عہدوں پر کام کیا اور شہرت کمائی۔۔
گل بنگلزئی نے علم و ادب کے جھنڈے بھی لہرائے اور عروج حاصل کیا ،
پروفیسر خدائیدادگل نے اپنی تقریر میں گل بنگلزئی کے ادبی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گل صاحب نے 1977ء میں ” قائدِ اعظم نا تراناک ” افسانوں کا۔مجموعہ “ڈراداگاگواچی” 1989ء میں منظرِ عام پر آیا ، پھر براہوی ناول “دریہو” لکھا ، گل بنگلزئی نے ٹالسٹائی کے افسانوں کا ترجمہ 1981ء میں ” زندنا چراغ” کے نام سے۔کیا۔جسے۔بے حد پزیرائی ملی ، 1993ء میں “روش پیش” مارکیٹ میں آیا ، گل بنگلزئی نے اردو میں بھی ایک کتاب ” انسان کا نصیب” لکھکر اپنی ادبی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے ۔
مقررین نے براہوی لسان و ادب پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں براہوئی بولنے ، سمجھنے اور پڑھنے والوں کی تعداد کم و بیش 2.7 ملین ہے جو سندھ‘ بلوچستان اور افغانستان میں بھی پائے جاتے ہیں اور انکے مشہور قبائل میں مہمند‘ حسینی‘ چنگل‘ بنگلزئی‘ جوگیزئی‘ میروانی‘ مہمند شاہی نمایاں ہیں۔ قدیم سندھ بلوچستان اور ہڑپہ کی آبادی داروڑتی ‘ قدیم سندھی نسلیں اور براہوی داروڑو ہیں جبکہ بلوچ ایرانی نسل ہیں اور چنگیز خان کے ایران پر حملوں کے بعد بلوچستان میں وارد ہوئے لہٰذا بلوچستان کی سرزمین کے اصل وارث اور قدیم حاکم براہوی ہیں اور انگریزوں کی آمد سے پہلے 17 صدی سے تین سو سال تک قلات میں براہوی کے حکمران رہے ہیں۔ براہوی قوم جس نے 550 سال تک بلوچستان پر حکومت قائم رکھی‘ اِس طرح ہم کہ سکتے ہیں کہ بلوچستان میں براہوی ادب اور یہاں کا ادیب ایک تاریخ رکھتے ہیں اور یہی تاریخ بلوچستان کا قیمتی اثاثہ ہے ۔بعد ازاں۔گلڈ کے صوبائی جنرل سیکرٹری علیم مینگل سپاس نامہ پیش کیا ، آخر میں گل بنگلزئی شرکاء کی فرمائش پر اپنی ماضی کی یادوں کو جگایا اور دلچسپ ادبی واقعات سے سامعین کو محظوظ کیا ۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.