آزادی فیلو شپ کہورٹ دوئم برائے آزادی، انصاف اور جمہوریت

0 148

تحریر = فرید بگٹی

بین المذاہب و بین المسالک پر جہاں منفی تاثرات کے پھیلاؤ و رجحانات پر کام ہورہا ہے وہاں دوسرے جانب ان پہلوؤں کا بھی  ذکر  زدِ عام ہے جو مثبت سوچ و فکر کے ساتھ نئے پیراڈئیم اپروچ اپنا کر ایک خوبصورت تصور و پیغام  دیا جارہا ہے عالمِ مذاہب میں اگرچہ امن محبت و بھائی چارگی کا درس یکساں طورپر بنیادی تعلیمات کا حصہ ہیں لیکن مذاہب اپنی رفتار کو معاشرتی و انسانی شعوری رفتار کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں کسی حدتک ناکام رہی ہیں  جس کی وجہ سے ان تمام متفکرین کے نظریات کو لالٹین کی تیل مہیاء ہوگئ جن کے نزدیک مذاہب دقیانوسی فلسفوں پر استوار زندگی گزارنے پر مجبور کرتی ہے درحقیقت اس نقطے میں انتہائی تضاد موجود ہے جو معاشرتی و اخلاقی طور پر بحث طلب ہے ۔ ہمارے ہاں جس قدر مادی تعليم و ٹکنالوجی کے استعمال کی افادیت بتائے جاتے ہیں ان میں مذاہب کا عنصر نکال دیا جاتا ہے یہ امر شاید اس لئیے موزوں ہوا کہ مذاہب اپنی شعوری رفتار بڑھانے میں کسی حدتک ناکام دکھائی دینے لگے کیوں مذاہب کے اندر مسائل کے حل پر موجود تمام تر موضوعات کو بنا زیر بحث لائے ردی کے ٹوکری کے نظر کردیا گیا ہے جس کے سبب ہم نے جدید تعلیمات کو لیکر آگے بڑھنے اور معاشرے کے قیام پر انہی تعلیمات کے اصولوں کو استوار کرنا بہتر سمجھ لیا اسی اثناء میں مذہبی ہم آہنگی کی ضرورت پیش آئی کیونکہ سماج کو مذاہب کے معاشرتی اصولوں سے جدا کرکے اسے علیدہ نظر سے دیکھنے سے جدید معاشرتی اصولوں کے پیمانے تذبذب کا شکار ہوگئے جس کی وجہ سے اب ہمیں واپسی کا سفر وہاں سے شروع کرنے کی ضرورت پیش آرہی ہے جہاں سے ہم نے انسانی فکر کی بنیادی اکائی کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنے کا عزم کیا  ہم نے شاید یہ ٹھان لیا کہ ٹکنالوجی نئے معاشرے کے قیام پر اپنا کردار ادا کرے گی لیکن کسی بھی معاشرے میں سماجی اخلاق استوار کرنے کیلے یقین اور اعتماد کے فلسفے کی انتہائی سخت  ضرورت سمجھی جاتی ہے جو مذاہب کے معاشرتی تعلیمات کے نزدیک تر سمجھے جاتے ہیں ۔
مذہب معاشرہ اور انسانی حقوق پر اب جس قدر کام ہورہا ہے یہ قابل ستائش ہے کیونکہ مذاہب یقین اعتقاد و اعتماد کے تالے۔کھولنے کی کنجی ہیں یہ امر اظہر من الشمس کہ مذاہب ظلم و جنونیت کا تختہ الٹنے پر قادر ہیں ہمارے نزدیک جنونیت مذاہب کی پیداوار ہے لیکن مذاہب صبر و سلامتی کے پورے باب لئیے گھوم رہے ہیں لحاظہ جنونیت کمزور معاشرتی اخلاق کی پیداوار ہے نہ کہ مذاہب کا کیا یہ جنونیت مذاہب کے ہزاروں سال تاریخ میں صرف اس صدی میں رونماء ہوئے ؟ ہرگز نہیں یہ گرم مصالحے باہر سے امپورٹ کی گئی ہے اسی پیش نظر عالمی ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور IRCRA نے اپنے کاندھوں پر معاشرے کے انتہائی نگہداشت امرجنسی ICU میں پڑے موضوع کو اٹھا کر اپنے کاندھوں پر سوار کردیا جہاں ایک طرف مثبت تو دوسرے جانب منفی اثرات اس قدر پیچیدہ پیرہن میں موجود ہیں کہ انہیں روکنے کیلئے حقائق کا صرف سمجھنا ضروری نہیں بلکہ سائنسی طورپر معاشرے کی بنیادی فلسفے کو مذاہب کے ساتھ یوں جوڑ کر پیش کرنا ہے کہ جس سے باہمی محبت و اخوت کا تصور بیان ہوسکے مجھے سوشل میڈیا کے زریعے سے علم ہوا کہ اسلام آباد کی فضائیں انتہائی پیچیدہ پر خوبصورت موضوع پر رنگ بکھیرنے جارہی ہے میرے لئیے قدرے اس لئیے بھی غیر معمولی تھا کیونکہ میں نے مذاہب کے فسادات کو بڑے قریب سے دیکھا اور اس پر لکھنے و حلقہ احباب میں بولنے کا موقع بھی ملتا رہا میں نے بڑے امید کے ساتھ رجسٹریشن فارم فل کی اور نتائج کیلے منتظر رہا چند دن گزرنے کے بعد مجھے مبارکبادی کا پیغام موصول ہوتا ہے میں نے انتہائی جزباتی انداز میں جواب دیکر شکریہ ادا کیا یوں پھر کچھ دنوں میں انٹریو ہوا جس میں دو خواتین نے مذہب و ثقافت پر سوالات پوچھے انٹرویو سیشن کے بعد مجھے مزید انتظار کرنے کو کہا گیا بلآخر وہ گھڑی آہی گئ جس میں مجھے اپنے چند ضروری سامان کے پیکنگ کرنے کے بعد بجانب اسلام آباد سفر ہوا اسلام آباد کے مارگلہ پہاڑوں اور شرارتی بندروں کے درمیان واقعہ خوبصورت فیصل مسجد کے دائیں جانب میں موجود آئی آر ڈی گیسٹ ہاؤس میں پہنچے پہلے روز صرف یہی آرزو رہی کہ اور کون کون اور کہاں کہاں سے نوجوان آئے ہوئے ہیں کیا کوئی میرے علاوہ بلوچستان سے بھی ہے ؟ بہرکیف ان سوالات کے ساتھ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد مجھے پیغام موصول ہوا کہ مغرب تک تمام پارٹیسپینٹ آئی آر ڈی مہمان خانے میں تشریف لائیں میں مقررہ وقت پر وہاں پہنچا تو دیکھا کہ یہاں مرد حضرات کے ساتھ ساتھ خواتین بھی شامل ہیں اور قل شرکاء کی تعداد بھی تقریباً بیس 20 ہے ہمارے درمیان ادارے کے چند مرد و خواتین بھی تشریف فرما تھے ان کے انداز سے مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ ہمارے میزبان ہیں پر ہمارے دلوں میں اب ایک دوسرے کو جاننے کی جستجو بڑھتی چلی جارہی تھی ہم ایک دوسرے کو دیکھتے اور مسکرا کر منہ یھیر دیتے کوئی مجھ سے یوچھے یا میں جاکر کسی سے پوچھوں والا تجسس قائم رہا تھوڑی دیر بھد ہمارے ہی درمیان ایک شخص کھڑے ہوئے اور اپنا تعارف شروع کیا اور پھر تمام شرکاء سے اپنا تعارف کرنے کی گزارش کی یوں ہمیں اندازہ ہوا کہ کوئی لاہور۔ پنڈی ۔بھاولپور ۔ بنیر ۔ لکی مروت ۔ کوئٹہ ۔پنجگور ۔ تربت ۔مردان ۔کراچی ۔ چمن۔ ہنزہ ۔ آزاد جمو کشمیر سے تعلق رکھنے والے اور اپنے شہروں میں غیرمعمولی خدمات انجام دینے والے حضرات یکجا ہوئے ہیں یہی خوبصورتی ہے کہ جہاں مختلف سوچ و فکر کے مرد و حضرات ایک ہفتے کے ڈائلاگ سیشن میں اپنا کردار ادا کریں گے کسی سے کم نہیں لیکن میں ساتھ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اس قدر پیچیدہ موضوعات کو لیکر بھلا یہ کیسے شروعات و اختتام کرتے ہونگے جس کے الف سے لیکر چھوٹی یئے تک بحث ہی بحث ہے بہرحال آگے چل کر دیکھنے پر استفادہ کیا پہلے روز کے سیشن میں شرکاء کو چند ضروری ہدایات کے ساتھ انہیں ایک بیگ دیا گیا جس میں چند ضروری سامان موجود تھا ہم نے رات کا کھانا کھایا اور اپنے کمروں کے طرف نکل پڑے اگے صبح سورج کے طلوع سے قبل ہمیں اٹھایا گیا اور maditation کیلے فیصل مسجد کے قریب بنے گراسی میں لیجایا گیا پہلے روز کے سیشن میں صبح کی ورزش کے ساتھ ساتھ خوب گپشپ بھی ہوئی یوں مجھے دو شرکاء کے نام بھی یاد ہوگئے جو کاشف شاہ صاحب لاہور سے اور عبداللہ امتیاز صاحب کشمیر سے تھے اس ایکسرسائز کے بعد ہم واپس اپنے کمروں میں فریش ہونے کیلے چلے گئے اور پھر ناشتے کے بعد ہم آئی آر آئی کے کانفرنس حال چلے گئے جہاں تمام شرکاء تیار ہوکر نشست کے آغاز کے منتظر تھے اب تک ہم ایک دوسرے کو دیکھتے اور صرف مسکراتے سیشن کے شروعات کے ساتھ یہ ہمارے تعلق کی بھی شروعات تھی  یوں قرآن پاک کی۔تلاوت شروع ہوئی اس کے فوراً بعد سناتھن دھرم کی گیتا کی تلاوت اور عیسائی مذہب کی پریئر کی گئ یہاں سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ صرف مختلف شہروں سے نہیں بلکہ مختلف مذاہب سے بھی شرکاء موجود ہیں راج کمار سندھ تھرپارکر اور سویرا پرکاش بنیر سے اور نادیا حیات صاحبہ اسلام آباد سے سیشن اٹینڈ کرنے کیلے موجود تھے تھوڑی دیر بعد جناب اسرار مدنی۔صاحب تشریف لائے اور تمام شرکاء کے تعارف کے بعد انہوں نے اپنا اور اپنے ٹیم کا تعارف کیا ان کے ساتھ جناب تہمید جان محترمہ بشریٰ علی ۔ مقدس صاحبہ , مجتبیٰ راتھوڑ صاحب  , محترمہ ماہم صاحبہ اور شیرشاہ صاحب موجود تھے انہوں نے ادارے کے قیام سے قبل اپنے متعلق بتانا پسند کیا ان کا تعلیمی پس منظر ایک مدرسے سے تھا یعنی انہوں نے درسِ نظامی کی ہوئی تھی  ان کا کہنا تھا کہ میں مدرسے سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جب میں نے بین المذاہب پر مبنی تعلیمات کو اپنے کیروکلم کا حصہ بنایا تو مجھے کئ ممالک میں جاکر مذہبی ہم۔آنگی پر مشتمل کئ سیمینارز و کانفرنسز میں حصہ لینے کا موقع ملا مختلف اقوام و افراد کی اجتماعی و انفرادی مذہبی سوچ کو بڑے قریب سے نہ صرف دیکھنے کا بلکہ لکھنے کا بھی موقع ملا یہ تمام تر سفر اس دور میں ہورہے تھے جب پاکستان سمیت دیگر۔ہمسائے ممالک میں مذہبی دہشتگردی اپنے عروج پر تھی اس موضوع پر بات کرنا لکھنا اور سیمینارز وغیرہ کرنا موت کو دعوت دینے کی مترادف تھی پر یہ سوال میرے جستجو کا حصہ بن گیا کہ آخر ہم مذہبی تصورات کو کب تک یوں غیروں کے ہاتوں تراشنے کیلے چھوڑتے رہیں گے ہمیں آگے بڑھنا ہوگا اور مذاہب کے خوبصورت وجود کی بقاء کیلے حکمت عملی اپنانی ہوگی مجھے یہ امر پیش ہوئی کہ مذاہب کے درمیان بڑھتے مسائل کا حل موجود ہے اور اس پر کام کرنا چاہیے کیونکہ یہ آگ اب اپنے ہی جھونپڑیوں کو زد میں لارہی تھی لحاظہ اب قمر بستہ ہونا ضروری تھا بلخصوص نوجوانوں کے سطح پر کیونکہ عالمی۔اداروں کی ورکنگ یر کے در پے حملے مختلف فتوے وغیرہ کا رجحان انتہائی بڑھ چکا تھا ایسے میں ہم نے IRCRA کے وجود کی بیج بو دی ہم نے 2014 میں مذاہب کے ہم آنگی پر کام شروع کیا اس سے قبل بھی ہم نے نوجوانوں کی اسی طرح ایک کامیاب سیشن کیا ہے جو آج آپ حضرات کرنے تشریف لائے ہیں یہ اگرچہ مشکل کام تھا پر ناممکن نہیں مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ میں نہ صرف مذاہب کی خدمت۔کررہا ہوں بلکہ مذہبی تاریخ کی بھی خدمت کررہا ہوں اور یہ میرے لئیے سب سے بہترین و قیمتی سرمائے سے کم نہیں
اس پروگرام کو انجام تک پہنچانے کیلے کئ اداروں نے حصہ داری کی جس میں muslim council of elders اور islamic research institute islamabad کے۔علاوہ پیغام پاکستان ۔ نیشنل انڈمونٹ ڈیموکریسی وغیرہ نے تعاون کی ہے ان  اداروں کے نمائندے اپنے اداروں کے تعارف بھی پیش کریں گے جناب اسرار مدنی نے انتہائی شائستہ انداز میں IRCRA کے۔قیام کے حوالے سے بتایا اس کے مقاصد و مستقبل کے گولز سمیت اپنے جزبات و افکار سے بھی ہمیں آگاہ کیا
ادارے میں موجود محترمہ مقدس صاحبہ اس فورم کے کوارڈینیٹر کے طورپر اپنی خدمات انجام دے رہی تھی ان کی خوبصورتی کی طرح ان کا مزاج بھی قابلِ دید تھا محترمہ نے اس فیلو شپ آزادی میں دوستانہ طرز میں خدمات انجام دی اسی طرح محترمہ بشریٰ علی جو۔IRCRA کی پروگرام مینجر کی حثیت سے کام کررہی ہیں ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ ہی سجی رہتی تھی ان کے تاثرات و جزبات انتہائی خوبصورت تھے وہ غصہ بھی کرتی تھی تو مسکرا کر کرتی تھی ان کے چہرے پر کبھی غصے کے تاثرات نہیں دیکھے البتہ انہوں نے تمام شرکاء کے ساتھ بہترین رویہ رکھا گویا کہ ہم سب ان کے فیملی میمبرز تھے یہ ان کی خوبصورت شخصیت ہے اسے مزید بیان کرنا میرے نزدیک شاید ممکن نہ ہو ان کے ساتھ مزید رضاکاران بھی تھے جو لمہ بلمحہ اپنی خدمات انجام دے رہے تھے

  اسرار مدنی صاحب کے بعد محترم ڈاکٹر رستم صاحب تشریف لائے جو  islamic research institute islamabad کے ڈپٹی منیجر تھے انہوں نے ادارے کے قیام کی تاریخ پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کے وجود کے ساتھ ہی۔اس ادارے کے وجود کا ظہور بھی ہوا جو ایک think tank کے طورپر ہوا 1956 کے آئین پاکستان کے آرٹیکل 197 تحت کام کرنے کی اجازت دی گئ اور 1960 میں باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا بعدازاں 1980 میں اسلامک یونیورسٹی کا قیام زیرِ عمل آیا اور یوں 1985 میں اسلامک یونیورسٹی کو عالمی یونیورسٹی کرار دیا گیا 1985 کے بعد ادارے کے جانب سے بلخصوص ورکشاپس ٹریننگز وغیرہ پر کام جاری رکھا  یوں ایک گھنٹے کے بریفنگ کے بعد ٹی بریک دیا گیا اس پورے آزادی فیلو شپ میں پروگرامز کی ترتیب کچھ یوں تھا کہ صبح نو بجے سے گیارہ بجے تک دو سپیکرز کی نشست پھر چاہے کیلے بریک اور پھر ایک گھنٹے کیلے ایک سپیکر اور اس کے بعد دوپہر کا کھانا پھر پانچ بجے تک۔دو یا یھر پینل ڈسکشن چلتے اس کے بعد محمد عدیل صاحب تشریف لائے جو muslim council of elders کے جانب سے بطور نمائندہ پیش۔ہوئے انہوں نے اپنے اس ادارے کے متعلق انتہائی خوبصورتی کے ساتھ تعارف پیش کیا دراصل اس ادارے کا قیام 19 جولائی 2014 عرب امارات میں شیخ الازہر   کے دست  وجود میں آیا اور  2019 میں  شیخ  الازہر اور  پاپ  فرانس کے درمیان ںین المذاہب کے دستاویزات پر دستخط کرکے مذہبی ہم۔آنگی کے۔درس کیلے باقاعدہ کام شروع کردیا اس کے بعد مختصر ٹی۔بریک لینے کے بعد انتہائی جاندار موضوع کا سیشن شروع ہوا۔جو محترمہ ہمیرا مسیح الدین صاحبہ نے دی جو پاکستان کے بہترین ٹرینرز میں  شامل ہیں محترمہ پولیس اور جوڈیشل کو ٹریننگز دیتی ہیں ان کا ہمارے ہاں موضوع مذہبی ہم۔آنگی و عدمِ تشدد وغیرہ پر تھا انہوں نے فلسطین کے حمایت میں یہودیوں کی احتجاج سے لیکر ہندوؤں کے مندر کے جلانے کے بعد اسے پھر۔سے تعمیر کرنے تک تمام تر حقائق پر تبصرہ کیا ان کے موضوع کا محور انسانیت اور انسانی فروغ پر تھا انہوں نے چار سوالات دیکر شرکاء کے چار گروپ بنا لائیے اور انہیں ان سوالات کے متعلق اپنے خیالات قلمبند کرنے کو کہا یہ ایکٹیویٹی ہمارے درمیان پہلا سیشن ایکٹیویٹی تھا جس سے ہم نے۔اپنے ٹیم کے ممبران کے ساتھ خوب و دلچسپ تبصروں کے بعد جوابات اکھٹے کئیےاسی طرح پہلے روز کے فرسٹ ٹائم سیشنز کا اختتام ہوا اور نماز و کھانے کا وقفہ دیا گیا اس کی بعد تنازعات کا حل پر محترم راشاد بخاری صحاب نے شرکاء کو بریف کیا اور انتہائی خوبصورت مثالوں کے ساتھ کہ تنازع درحقیقت ہے کیا اور تنازعے کا انسانی نفسیات کے ساتھ کس قدر ہم آہنگی ہے یوں اس خوبصورت موضوع کے ساتھ پہلے روز کے سیشنز کا۔اختتام ہوا اور ہم سب اپنے گیسٹ ہاوسز چلے گئے کچھ دیر آرام و نماز کے بعد رات کے کھانے پر یکجا ہوئے اور اس دوران ہمیں صرف ایک گھنٹے کیلے موبائلز دئیے گئے یقیناً یہ کچھ مشکل تھا پر لیکن ادارے کے قاعدوں کا خیال رکھنا ہمارا فرض تھا
اگلے روز یعنی سیشن کا دوسرا دن صبح maditation اور یوگا کیلے ڈاکٹر محمد رضوان صاحب تشریف لائے خاص کر یہ ایکٹیویٹی کروانے کیلے آپ اس عمل سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ IRCRA نے اس فیلو شپ کیلے کس قدر محنت کی اور سپیکرز کی سلیکشن اگرچہ مشکل مرحلہ ہوتا ہے پر اسرار مدنی تہمید جان و دیگر اس کی ٹیم کی مخلصانہ کوششوں سے انتہائی شائستگی کے ساتھ تمام سپیکرز کا سلیکشن کیا گیا اور شرکاء کو یہ باور کروایا کہ ہم نے بہتر سے بہتر سپیکرز جو اپنے موضوعات پر عبور رکھتے تھے آپ کے خدمت میں انہیں حاضر کیا ڈاکٹر محمد رضوان صاحب نے maditation کا عمل مکمل کروایا صبح  میڈیٹیشن و ناشتے کے بعد ہم IRI کانفرنس حال پہنچ گئے دوسرے روز کا شروعات ہوا جس میں پہلا لیکچر ڈاکٹر ظفراللہ خان صاحب کا تھا جو پاکستان آئین پر عبور رکھتے ہیں وہ ایک۔مانے جانے شخصیت ہیں پاکستان آئین پر ان کی بےمثال خدمات ہیں انہوں نے آئین کے تمام پیچیدہ مسائل پر عبور حاصل کی ہوئی ہے اسی موضوع پر ان کا لیکچر شروع ہوا  آئین کی تعارف آئین کیوں بنایا گیا ؟ آئین کہتے کسے ہیں ؟ آئین آرٹیکل کی طرح کیوں لکھا گیا ؟ وغیر وغیرہ سوالات کے ساتھ گفتگو کا آغاز ہوا ڈاکٹر ظفراللہ خان صاحب نے آئین کی چھپی ہوئی تاریخ اور اس کے تمام تر خدوخال پر خوبصورت گفتگو کی جس میں انہوں نے تقسیم برصغیر ہند پر بھی روشنی ڈالی وہ واقعی اپنے موضوع پر کمال کا عبور رکھتا تھا انہوں نے آخر میں شرکاء کے سوالات کے جوابات دئیے اور نیک تمناؤں کے ساتھ رخصت ہوئے اس کے بعد ڈاکٹر محمد رضوان صاحب کا ذہنی دباؤ اور ڈپریشن وغیرہ پر لیکچر ہوا یہ سیشن قدرے مشکل تھا پر اپنے معیار سے کم نہ تھا ڈاکٹر صاحب نے بھی خوبصورت مثالوں سے سٹریس و ڈپریشن وغیرہ کی وضاحت کی اور اس کے حل کیلے مختلف ایکٹیوٹیز بتائی دوسرے روز کے فرسٹ ٹائم کے سیشنز کا اختتام ہوا میں کوشش کروں گا کہ اپنی تحریر میں یکے بعد دیگرے شرکاء کا تعارف بھی کرواتا چلوں تمام مرد و خواتین دلچسپ کہانیوں کے ساتھ اور مختلف مزاج کے موجود تھے ان کے متعلق بات کرنا اور انہیں بھی تحریر کا حصہ بنانا تحریر کو مذید دلچسپ بنانے میں مددگار ثابت ہوگا ہمارے ساتھ سویرا پرکاش صاحبہ موجود تھیں جنہوں نے حال ہی میں جنرل الیکشن میں حصہ لیا اور خوب سیاسی کیمپین چلائی پہلی اکلیتی خاتون کا الیکشن لڑنا انڈین چینلز پر انتہائی انہونی شے تھی وہ میڈیا میں اپنی کئ سیاسی نعروں کے ساتھ مشہور ہوئیں انہوں نے بنیر سے الیکشن لڑا یہ خاتون واقعی کمال کی خاتون تھیں ان کا مزاج و بول چال میں زبردست نرمی عیاں تھی اسی طرح شاری بلوچ صاحبہ جو تربت بلوچستان سے تھی انتہائی ایکٹو اور انگریزی مطالعہ سے لبریز تھی ہمارے ساتھ مصور حمید صاحب جو مختلف تھنک ٹینک سے وابستہ اپنی خدمت انجام دے رہا ہے اسی طرح باقی شرکاء بھی اپنے اپنے دائرے میں اپنا معاشرتی حق ادا کررہے ہیں اس کے بعد پاکستان کے مشہور سپیکر میجر جنرل ریٹائرڈ سمریز سالک صاحب تشریف لائے  جنہوں نے گورنمنٹ کے مسائل و قومی دہشتگردی کے خاتمے پر بھرپور و سیر حاصل گفتگو کی انہوں نے سول معاشرے میں انقلاب کے موضوع پر بھی خوب گفتگو کی کہ معاشرے میں زوال کیوں آیا ؟ ہم پہلے کہا تھے اور اب کہاں ہیں ؟ آخر اس زوال کے کیا اسباب ہوسکتے ہیں ؟ اس طرح خوبصورت سوالوں کو یکجا کرکے ان پر دلچسپ تبصرہ کیا یہ سیشن انتہائی کمال کا سیشن تھا خوبصورت و دھیمے لہجے سے شرکاء کے سوالات کے جوابات پر اختتام ہوا یوں دوسرے روز کے تمام تر ایکٹیویٹیز مکمل ہوگئے اب رات کھانے کے بعد موبائلز کے ملنے کے منتظر گویا کہ کوئی بچپن کا قیمتی شے یکدم ہم سے جدا ہوا ہو اور اب واپس ہمارے پاس آرہا ہے یقیناً اس دور میں موبائلز کے بغیر زندگی انتہائی مشکل ہے
ہم اپنے آزادی فیلو شپ کے تیسرے روز کا آغاز کرتے ہیں جس میں صبح کے تمام تر ایکٹیویٹیز کے بعد ہم کانفرنس حال میں حاضر ہوئے جہاں پیغام پاکستان کے بانی ڈاکٹر محمد ضیاءالحق صاحب نے لیکچر دیا ان کا مزاج کچھ سخت و لہجے میں عدمِ برداشت کا عنصر پایا جاتا تھا لیکن وہ اپنے نظریات پر انتہائی مظبوطی کے ساتھ کھڑے رہنے والے شخصیت تھے انہیں قومی بیانیہ ہر بیانیے سے عزیز تھا اسی پینل ڈسکشن میں میڈیا سے تعلق رکھنے والے حسن خان صاحب جو خیبر نیوز سے تھے وہ بھی تشریف فرما تھا انہوں نے میڈیا کے کردار پر انتہائی غیرجانبدارانہ گفتگو کی کہ کہاں عوام کی غلطیاں ہیں اور کہاں میڈیا البتہ وہ یہ بات مان گئے کہ میڈیا شتر بےمہار کی طرح اچھلتا ضرور ہے یوں اس پینل ڈسکشن کا اختتام ہوا  اس ڈسکشن میں خاران سے آئے امتیاز بلوچ ضمان باجوہ صاحب نے خوب دلچسپی لی کیونکہ ان دونوں شرکا کا تعلق میڈیا سے تھا چائے کے وقفے کے بعد سابق وزیر محترمہ ستارہ آیاز صاحبہ تشریف لائی جنہوں نے موسمیات کے اتار چڑاؤ پر قومی و ملکی فریضے کی نشاندہی کی کہ آخر ہم کلائمیٹ چینج کے اثرات سے کب نبردآزما ہونگے ؟ ہمارے کرنے کے کام اور ہمارے اخلاقی حقوق جو موسمیاتی تبدیلی کے۔اثرات سے ہمیں کسی حدتک محفوظ رکھ سکتا ہے
اور پھر اگلے پینل ڈسکشن میں ڈاکٹر شمس الرحمن محمد جان اور ہمارے شرکاء میں موجود نوجوان لیڈر محترم سویرا پرکاش بھی پینل ڈسکشن میں شامل ہوئیں ان کے موضوعات عالم مذاہب کو درپیش چیلنجز و مذہبی آزادی مذہبی ہم آنگی اور نوجوانوں کا ہم آہنگی پر خدمات ان موضوعات پر انتہائی سخت و ترش گفتگو رہی کیونکہ یہ وہ موضوعات ہیں جن سے کسی نا۔کسی طرح ہمارے جزبات کے تعلقات ہیں

اور اس پینل ڈسکشن   کے بعد ہم مندر اور چرچ کے وزٹ پر۔نکلے جو راولپنڈی میں واقعہ تھے مندر کے متعلق مکمل بریفنگ اور پھر چرچ کے متعلق آگئ حاصل۔کرنے کے بعد ہم نے اسلام آباد میں واقعہ لوک ورثہ کا وزٹ کیا جہاں پاکستان میں موجود تمام تر ثقافتوں کے مختلف انداز میں ان کی شناخت آویزاں تھیں ۔
یوں تیسرے روز کا اختتام ہوا اور رات کے تمام ضوابط عمل میں لائے دوستوں کو شب بخیر کیہ کر اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے اگلے روز کی سورج نے پھر نئے کرن و امید کے ساتھ ہمیں جگایا یوں آزادی فیلو شپ کے چوتھے روز کا آغاز ہوا یہ سیشن کسی عالمی سیشن سے کم نہ تھا جس میں امریکہ و برطانیہ کے سفارتخانے سے نمائندے تشریف لائے ہوئے تھے جس میں پاک و امریکہ کے تعلقات اور خطے کے استحکام اور پاک و افغان کے تعلقات پر گفتگو رہی اس پر بھی شرکاء کے بہترین و سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا دونوں موضوعات دلچسپ تھے ان صاحبان کی گفتگو کے فوراً بعد ہم وزٹ کیلے نیشنل ڈفینس یونیورسٹی کے اندر موجود ISSRA تھنک ٹینک کا وزٹ کرنے گئے جہاں ہمیں ڈی جی ISSRA اور ڈائریکٹرز نے بریفنگ دی یہ پاکستان کے بڑے۔اداروں میں شامل تھنک ٹینک ہے جو نیشنل سیکورٹی پر اجارہ داری رکھتا ہے  اور اسی طرح اسلام آباد میں موجود ISSI نامی تھنک ٹینک کے ہاں بھی وزٹ ہوا وہاں کے نمائندوں نے بھی اپنے ادارے کے متعلق خوب بریفنگ دی یوں ہم نے ان دو اداروں کے وزٹ کے بعد پاکستان قومی اسمبلی دیکھنے اسمبلی حال چلے گئے اسمبلی کے متعلق وہاں کے نمائندوں سے گفتگو رہی یوں اس روز ہم نے سیشنز کے ساتھ ساتھ مختلف اداروں کے وزٹ بھی کئیے
اسی طرح چوتھے روز کا اختتام ہوا اب ہمارے پاس سونے سے قبل کچھ باہمی گفتگو کرنے کا بھی موقع ملا۔کیونکہ موبائل ہمارے پاس موجود ہی نہیں تھے سو وقت گزارنے کیلے ہم نے خواتین و مرد حضرات سے اپنے اپنے خیالات شئیر کئیے جس میں موجود ہنزہ سے نازیہ صاحبہ جنہوں نے ہیومن بیہویر سائنس میں تعلیم حاصل کی تھی لکی اتم تربت سے بلوچ خاتون جو ایک ادارے میں پرائیویٹ ٹیچر ہیں فہد بلوچ صاحب جو پنجگور کےںراہشی تھے اسی طرح عاقب اور عبداللہ امتیاز جن کا تعلق کشمیر مظفرآباد سے تھا ساتھ بیٹھے اور خوب گپشپ کے ساتھ رات اختتام کی اگلے صبح اپنے روٹین کے مطابق ہم IRI حال پہنچے اس بار سمندر پار حضرات سے آنلائن سیشن تھا جس میں نیشنل انڈومنٹ فار ڈیموکریسی کے نمائندے ولسن لی اور امریکہ موجود نیشنل ڈفینس یونیورسٹی کے ڈین جناب ڈاکٹر حسن عباس موجود تھے دونوں مہمان امریکہ سے حاضر خدمت تھے جنہوں نے جدید جمہوریت اور جمہوری خدوخال پر گفتگو کی مذاہب کا جمہوریت کے اندر عمل دخل وغیرہ موضوع کے دلچسپ پہلوں تھے اس کے بعد چئیرمین رحمت العالمین  و خاتمن نبین ﷺ اتھارٹی ڈاکٹر خورشید ندیم صاحب تشریف لائے اس سے پہلے راقم نے اس شخص کے مختلف کالمز پڑھے تھے پاکستان کے انتہائی نامور دانشوروں میں شامل ہیں  انہوں نے سماج و مذاہب و جمہوریت پر جس طرح گفتگو کی شاید مجھ جیسے طالبعلم سے یہ ممکن نہ ہوگا کہ میں بیان کرسکوں یا پھر ان لفظوں کو تسبیح کی دانوں کی طرح پرونے کیلے مجھے لغت کی مدد لینی پڑے گے آپ نے اقلیت و معاشرتی اخلاق پر خوبصورت لہجے میں گفتگو کی اس کے بعد عالم اسلام میں مایہ ناز ماہر عالمی قانون جناب احمر بلال صوفی تشریف لائے جنہوں نے وراثت کے حقوق اور انسانی دماغی ایجادات پر معاشی حقوق یعنی intellectual property  پر مکمل بریف کیا آپ کی شخصیت واقعی کمال کی شخصیت تھی آپ اپنے موضوع پر عالمگیریت سطح پر عبور رکھتے تھے  اس کے بعد شاور فاونڈیشن اور پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے نمائندوں نے اپنے اپنے اداروں کے متعلق بریفنگ دی اور یوں اس خوبصورت دن کا اختتام ہوا

اور یوں چلتے چلتے ہم اپنے سیشن کے مہمانوں کی آمد کے۔آخری روز کا آغاز کرتے ہیں یہ آزادی فیلو شپ کا چھٹا دن ہے جس میں ہم یہ ہے کہ سکتے ہیں کہ  فکری موضوعات پر یہ آخری ڈائلاگ ہوگا روز مرا کی طرح اس دن بھی صبح کے تمام تر لوازمات سے گزر کر ہم کانفرنس حال گئے جہاں بعینہ پچھلے سیشنز کی طرح اس بار بھی اسی انداز پینل ڈسکشن ہوئی جس میں محترمہ فرخندہ صاحبہ جو دخترانِ پاکستان کو لیڈ کررہی ہیں اور دوسرے کرسٹوفر شرف جو صائبان پاکستان کو لیڈ کررہے ہیں اسی طرح ڈاکٹر زائد حسن جو باچاخان یونیورسٹی کے  وائس چانسلر تھے یہ سیشن پاکستان کے قومی بیانیہ برائے اقلیتی امور  پیغام پاکستان کی روشنی میں یہ مضمون اپنے اندر ہماگیریت رکھتا ہے جس کے کئ پہلوؤں پر بحث کی جاسکتی ہے اور اس پر ڈاکٹر زائد حسن صاحب نے اینے یورپی زندگی کے تجربات سے پاکستان کے معاشرتی پہلوؤں پر روشنی ڈالی جو۔ان کے زاتی تجربات کا حصہ تھے اسی طرح محترمہ فرخندہ صاحبہ نے بھی انسانیت اور یکانیت پر درس دیا اور کرسٹوفر شرف نے ہندو , عیسائی اور مسلمانوں کے باہمی اور تاریخی تعلقات پر سیر حاصل گفتگو کی اس کے بعد muslim council of elders کے نمائندے تشریف لائے جو مصر کے جامعہ الازہر کے پروفیسرز تھے جنہوں اس فورم کے بنیادی مقاص اور مستقبل کے نظریاتی گولز پر لیکچر دیا انہوں نے شرکاء سے مختلف سوالات بھی لئیے اور بڑے تحمل مزاج سے جوابات پیش کئیے
اور یوں اس فیلو شپ کے اہم دنوں کا اختتام ہوتا ہے اور اگلے روز الوداعی تقریب منعقد کی جاتی ہے جس کے مہمان خصوصی انڈونیشیا اور رومانیہ سفیر بطور مہمانِ خاص تشریف لائے الوداعی تقریب میں مختلف شرکاء نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اختتام میں سرٹیفکیٹ و تحفوں کے ساتھ نیک تمناؤں و خوبصورت احساسات کے ساتھ رخصت ہوئے یہ میرے نزدیک انتہائی بہترین فیلو شپ تھا جہاں مجھے بہت کچھ۔سیکھنے کے ساتھ ساتھ کئ طرح کے نقاط پر نظر ثانی کرنا پڑا یقیناً یہ پروگرام اپنے۔اعتبار سے انتہائی معانی خیز پروگرام تھا شکریہ IRCRA

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.