آبادی، وسائل اور ذمہ داری کا تقاضا

0 59

تحریر: انیلہ اعجاز

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جب پاکستان پاپولیشن کونسل اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے آبادی (UNFPA) کے تعاون سے میڈیا کولیشن اجلاس منعقد ہوا تو یوں محسوس ہوا جیسے ہم ایک ایسے اہم مگر مسلسل نظر انداز کیے گئے موضوع کی طرف پلٹے ہوں، جس کا تعلق براہ راست نہ صرف انسانوں کی زندگی بلکہ ریاست کے مستقبل سے بھی ہے۔
اجلاس میں جو اعداد و شمار، خدشات اور تجاویز پیش کی گئیں، وہ نہایت تلخ حقیقتیں لیے ہوئے تھیں، لیکن ان میں سے ہر سطر میں ایک سمت موجود تھی—ایک ایسی سمت جو ہمیں اندھیروں سے روشنی کی طرف لے جا سکتی ہے، بشرطیکہ ہم بطور قوم اپنی ترجیحات کو درست کریں۔

زچگی کے دوران ماؤں کی شرحِ اموات — بلوچستان کی خاموش چیخ

سب سے پہلے تو یہ اعتراف ضروری ہے کہ بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں زچگی کے دوران ماؤں کی اموات کی شرح دیگر تمام صوبوں کی نسبت زیادہ ہونا کسی حادثاتی یا قدرتی امر کا نتیجہ نہیں۔ یہ ایک مسلسل غفلت، غیر مساوی طبی سہولیات کی فراہمی، سماجی جمود اور حکومتی بے حسی کا نتیجہ ہے۔ یہ خاموش اموات ہمیں ایک اجتماعی ضمیر کی پکار کی مانند متوجہ کر رہی ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہماری سماجی اور حکومتی ترجیحات میں اس کی بازگشت سنائی نہیں دیتی۔

پاپولیشن کونسل کے ڈپٹی منیجر، اکرام الاحد کی جانب سے پیش کیے گئے اعداد و شمار دل دہلا دینے والے تھے۔ روزانہ 675 نوزائیدہ بچوں کی اموات، جو کہ روزانہ دو مسافر بردار طیاروں کے حادثے کے برابر ہے، کیا اس سے بڑی انسانی المیہ کوئی ہو سکتا ہے؟
مزید یہ کہ 2 کروڑ 60 لاکھ پاکستانی بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ بچوں میں غذائی قلت کا عالم یہ ہے کہ پانچ سال سے کم عمر کے 40 فیصد بچوں کا قد اُن کی عمر کے مطابق کم ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ بچے نہ صرف جسمانی طور پر پیچھے ہیں، بلکہ ذہنی نشوونما میں بھی محرومی کا شکار ہیں، اور یہ محرومیاں مستقبل کی پیداواری صلاحیت اور معاشی ترقی کو براہِ راست متاثر کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کو اب تک صرف “مانع حمل ذرائع” تک محدود کر کے دیکھا جاتا ہے، جب کہ درحقیقت یہ ایک جامع ترقیاتی حکمتِ عملی ہے۔ ڈاکٹر علی میر، سینئر ڈائریکٹر پاپولیشن کونسل نے نہایت بصیرت کے ساتھ یہ وضاحت کی کہ خاندانی منصوبہ بندی کا بنیادی مقصد وسائل کے مطابق خاندان کی تشکیل ہے، تاکہ ہر بچہ نہ صرف پیدا ہو بلکہ جئے، تعلیم حاصل کرے، باصلاحیت بنے اور ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔

ان کا یہ کہنا بھی نہایت اہم تھا کہ میڈیا کو چاہیے کہ وہ اس موضوع کو عام بحث کا حصہ بنائے۔ صرف سیاسی تنازعات، کرائم اور حادثات کی رپورٹنگ سے ہٹ کر میڈیا کو اپنی سماجی ذمہ داریوں کو اپنانا ہوگا۔ کیونکہ یہ وہ مسائل ہیں جو ہم سب کے گھروں، بستیوں اور مستقبل سے جڑے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں تعلیم اور صحت کے شعبے کو بجٹ کا جو حصہ دیا جاتا ہے، وہ نہ صرف عالمی معیار (6-7 فیصد) سے کم ہے بلکہ ہم بھارت اور ایران جیسے قریبی ہمسایہ ممالک سے بھی پیچھے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں انسانی ترقی کے تمام اشاریے مسلسل تنزلی کا شکار ہیں، وہاں بھی اگر بجٹ ترجیحات تبدیل نہ ہوں تو ہم کس ترقی کی بات کر رہے ہیں؟

میٹنگ میں شریک صحافیوں نے بجا طور پر یہ مطالبہ کیا کہ مانع حمل ادویات پر ٹیکس کا خاتمہ کیا جائے، ان تک آسان رسائی یقینی بنائی جائے، اور آئین کے آرٹیکل 25-A (مفت و لازمی تعلیم) پر مکمل عملدرآمد ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں کی غذائیت و صحت کو سامنے رکھتے ہوئے بجٹ سازی کو ازسرِ نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
پاپولیشن کونسل کی رپورٹ “Pakistan @2050” کے مطابق اگر 2030 تک آبادی کی شرح 1.2 فیصد تک لائی جائے تو 2050 تک نہ صرف جی ڈی پی میں 1.7 فیصد پوائنٹس کا اضافہ ممکن ہے بلکہ فی کس آمدنی بھی دگنی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح، اسکول سے باہر بچوں کی تعداد میں 30 فیصد تک کمی آ سکتی ہے۔ کیا ہم بطور قوم اتنے با شعور ہیں کہ ان اعداد و شمار کو سنجیدگی سے لیں اور اپنی پالیسیاں تبدیل کریں؟ یہ سوال آج بھی کھلا ہے۔

میڈیا کی ذمہ داری — اب یا کبھی نہیں

اجلاس میں ایک اہم بات یہ بھی سامنے آئی کہ میڈیا کو اب اپنی طاقت کو صرف Breaking News اور فوری سنسنی تک محدود نہیں رکھنا، بلکہ معاشرے کی دیرپا تبدیلی کے لیے اسے بطور تحریک استعمال کرنا ہوگا۔ خاص طور پر بچوں، ماں، تعلیم، غذائیت اور خاندانی منصوبہ بندی جیسے موضوعات کو ترجیحی بنیادوں پر اجاگر کرنا میڈیا کا فریضہ بن چکا ہے۔

آج جب ہم معیشت کی بدحالی، مہنگائی، بے روزگاری، سیاسی عدم استحکام اور معاشرتی انتشار کا رونا روتے ہیں، تو یہ سمجھنا لازمی ہے کہ ان تمام مسائل کی جڑ انسانی ترقی کی عدم ترجیح ہے۔ جب تک ہم بچوں، ماؤں، تعلیم اور صحت کو بجٹ، پالیسی اور توجہ میں مرکزی مقام نہیں دیں گے، تب تک کوئی بھی “ترقی” صرف ایک سراب ہی رہے گی۔

یہ وقت ہے کہ ہم بحیثیت قوم جاگیں — اور اس بیداری میں میڈیا، پالیسی ساز، سول سوسائٹی اور عام شہری، سب کا کردار یکساں اہم ہے۔ کیونکہ یہ صرف آج کی نہیں، بلکہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کی جنگ ہے۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.