اسرائیل اندر سے کھوکلا ہو رہا ہے
اس وقت اُمت مسلمہ ایک ایسے پُر آشوب دور سے گزر رہی ہے جسے تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ایک بابِ سیاہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا. سرزمین انبیاء پر کئی دہائیوں سے ” اسرائیل نامی” ایک جابر اور ظالم ریاست انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلسل ظلم اور بریت کے پہاڑ توڑتی جا رہی تھی. یہاں تک کہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ، انہیں زندگی سے محروم کیا اور جو زندہ بچ گئے اُن پر ان کی زندگی اجیرن کر دی گی۔ آج اگرچہ اسرائیل اپنی طاقت کے نشے میں آکر “شتر بے مہار” کی طرح معصوم فلسطینیوں کی نسل کشی اور بے دخلی پر تُلا ہوا ہے لیکن ان کی یہ چوہدراہٹ اور ظلم زیادہ دیر تک نہیں چل سکتے ، اس لیے کہ تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ماضی میں جن اقوام نے اپنے وقت کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کی نافرمانی کے ساتھ ساتھ ان کے متبعین (ماننے والوں ) پر بھی ظلم و جبر کیا تو اللّہ رب العزت نے انہیں عبرت کا نشان بناتے ہوئے اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے لیا اور آج تک تاریخ میں انہیں سیاہ باب کے طور پر یاد کیا جاتا ہے. جیسے: قوم نوح ، سبا ، عاد ، ثمود اور فرعون ۔۔۔
بالکل اسی طرح آج کل اسرائیل بھی اپنے آقاؤں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مسلسل فضائی اور زمینی حملے کر رہا ہے لیکن اسے کسی بھی صورت میں کامیابی نہیں مل سکتی ، بلکہ بہت جلد اپنے انجام تک پہنچ جائے گا اس لیے کہ آپ علیہ السلام کا فرمان مبارک ہے کہ : “ظالم کو اپنے ظلم کا بدلہ دنیا میں ہی دیا جائے گا ” اسرائیل بھی اپنے ظلم وبربریت کا بدلہ دنیا میں چکے گا۔انشاءاللہ
اسرائیلی حکومت میں دراڑیں پڑ گئیں :
حالیہ جاری جنگ میں اگر چہ اسرائیل کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے. اور اس وقت پوری دنیا کی نظریں اسرائیل اور ان کے جدید ٹیکنالوجی پر مرکوز ہیں لیکن اگر حقائق سے آگاہی ہوجائیں تو جناب والا آپ ! اس نتیجے پر پہنچ جائے گے کہ اسرائیل اندر ہی اندر سے کھوکلا اور عالمی برادری کی نگاہوں میں تنہا ہو رہا ہے. پچھلے ہفتے کی رپورٹ کے مطابق سابق اسرائیلی فوجی جنرل اور ڈیموکریٹس (پارٹی )کے سربراہ یائر گولان ( yair golan ) نے اپنے بیان میں اسرائیل اور اس کی پُشت پناہی کرنے والے ممالک کی ضمیر کو جنجھوڑا . موصوف نے اسرائیل کا کھوکلا پن اور پوری دنیا سے تنہا ہونے کو یوں بیان کیا : ” کہ اسرائیلی حکومت نہ صرف فلسطینی بچوں کو قتل کر رہی ہے بلکہ اسے ایک “مشغلہ” سمجھ کر انجام دے رہی ہے۔ ایک مہذب ریاست اپنے شہریوں پر نہ جنگ مسلط کرتی ہے اور نہ ہی معصوم بچوں کا خون بہاتی ہے”
اس سے قبل بھی موصوف نے بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کو انتقام لینے اور خونریزی کو ترجیح دینے والی حکومت قرار دیتے ہوئے کہا: “کہ نیتن یاہو کی حکومت غزہ میں جنگ بندی کی ہر ممکن کوششوں کو ٹھکرا کر صرف اور صرف خونریزی کو ترجیح دے رہی ہے اور جب وزراء ( اسرائیلی وزراء ) بچوں کے اموات اور فاقہ کشی کا جشن منا رہے ہو تو چپ رہنا گناہ ہے۔”
اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہود باراک ( Ehud Barak ) نے بھی یائر گولان کی مکمل حمایت اور تائید کرتے ہوئے کہا: کہ یائر گولان ایک بہادر شخص ہے اور سچ کہہ رہا ہے. اس کے علاوہ اسرائیل کو باہر کی دنیا سے زیادہ ، اپنی عوام سے خطرہ لاحق ہے. کیوں کہ حالیہ جاری جنگ میں اسرائیل کی ناکامی ( ابھی تک کئی اسرائیلی یرغمالی حماس کے قبضے میں ہیں ، اس کے علاؤہ بہت بڑی تعداد میں جانی نقصان بھی ہوا ہے) کو دیکھتے ہوئے ہزاروں اسرائیلی بنجمن نیتن یاہو اور فوج کے خلاف مسلسل مظاہرے کر رہے ہیں، اس وقت اسرائیلی شہری اپنی جان ، مال اور عزت و آبرو کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں؛ جس کی وجہ سے باہر ممالک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہیں ، عوام کا وزیراعظم اور اپنی فوج سے اعتماد مٹ چکا ہے. خصوصاً حریدیم فرقہ ( یہ انتہا پسند مذہبی یہودی طبقہ ہے. جو اس وقت یہودی مذہب کے علاؤہ اسلام اور دیگر آسمانی مذاہب کو نہیں مانتے ، تورات کی تعلیم وتعلم کو افضل سمجھتے ، اور یہ گروہ اس وقت اسرائیل میں بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں) سے تعلق رکھنے والے سر فہرست ہیں اس لیے کہ ان کا نظریہ یہ ہے کہ: ہم مر جائیں گے مگر فوج میں بھرتی نہیں ہوں گے
اور یہ گروہ موجودہ سیکولر اسرائیلی یہودیوں کو کافر سمجھتے ہیں. یہاں تک کہتے ہیں کہ خنزیر کا گوشت کھا لیں گے مگر سیکولر اسرائیلی معاشرے میں (جو اس وقت تورات کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہیں) میں گُل ِمل کر اپنے ایمان اور عقیدے کو ہر گز خراب نہیں کریں گے .
یہاں یہ بات قابل غور ہے ! کہ یہ محض زبانی اختلافات نہیں، بلکہ ایک نظریاتی ، ریاستی اور ایمانی اختلافات ہیں۔
آج بھی اگر حریدیم فرقہ ( یروشلم کے یہودی دینی مدارس والے ) نے بغاوت کا اعلان کیا تو اسرائیل کے قیام اور بقاء کو قوی خطرہ ہے کہ ان کے ایوانوں میں دراڑیں نہ پڑ جائیں، اسرائیل کو اندرونی خدشات میں سے جہاں دیگر عناصر سے زیادہ خطرہ لاحق ہے ان میں سے ایک حریدیم فرقہ بھی ہے اس لیے کہ حالیہ جاری جنگ میں اسرائیل اور عالمی دباؤ کے باوجود حریدیم فرقے سے تعلق رکھنے والے فوج میں بھرتی نہیں ہو رہے ، بلکہ مسلسل حکومت کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں.
عالمی بحران :
حالیہ جاری جنگ سے جس طرح اسرائیل کو اندرونی طور پر نقصان کا سامنا ہو رہا ہے اسی طرح عالمی سطح پر بھی اسرائیل اپنے آپ کو تنہائی کی طرف دکھیل رہا ہے اور شدید نقصان کا سامنا کر رہا ہے امریکہ کے “ہارورڈ یونیورسٹی” کے طلبہ حالیہ جاری جنگ کے خلاف مسلسل مظاہرے کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ٹرمپ نے ہارورڑ یونیورسٹی کے طلبہ ، اساتذہ اور انتظامیہ پر مختلف قسم کی پابندیاں لگائی ، کبھی تو ان کے فنڈز کو روکا جا رہا ہے اور کبھی غیر ملکی طلباء کے داخلوں پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں. امریکہ کے علاوہ اکثر یورپی ممالک میں بھی اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں : اسپین ، ناروے ، آئرلینڈ ، جرمنی ، اٹلی اور فرانس یہاں تک کہ جنرل اسمبلی نے بھی اسرائیل کو مسلسل انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کو پامال کرنے کی بنیاد پر قابض اور غاصب ریاست تک قرار دیا. اقوام متحدہ اور انسانی حقوق ہیومن رائٹس(Human Rights ) کے فلاحی اداروں نے بھی اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: کہ اسرائیل کا انسانی بنیادی خوراک کو روکنا ، معصوم بچوں کو مارنا اور نسل کشی کو جاری رکھنا ایک غیر اخلاقی اور سنگین جرم یے۔
کئی ممالک نے اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی ، سفارتی اور تجارتی تعلقات پر نظر ثانی کرنے کی تجاویز پیش کی ہیں. اسرائیل اس وقت عالمی برادری کی نگاہوں میں ایک خونخوار ریاست کے طور پر پہچانا جاتا ہے ، عالمی دباؤ کے باوجود اسرائیل کا اپنا موقف سے پیچھے نہ ہٹنے اور مسلسل نسل کشی کو برقرار رکھنے سے بہت بڑے معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا، اسرائیل کی موجود صورتحال کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے وقت میں اسرائیل کی کرنسی ( نیو شیکل ) بہت جلد گر جائے گی جب کہ یہ دنیا کی ہر ریاست کی بقاء اور استحکام کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اور یہ دنیا کا قانون بن چکا ہے کہ جس ملک کا رائج شدہ سکہ بلند وبالا ہو تو پوری دنیا کی نظروں میں ان کی وقعت اور عزت ہوتی ہے ، لیکن اسرائیل اس وقت اندرونی بحران کا شکار ہے، جس کی وجہ سے ہر طرف بدامنی ہی بدامنی ہے. اسرائیلی باشندے سراپہ ان کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور باہر ممالک کے ساتھ بھی کی اسرائیل کی سیاسی ، خارجی ، سفارتی اور تجارتی تعلقات درست نہیں ہے۔ اور یہی وہ وجوہات ہیں؛ جن کی بنیاد پر اسرائیل اندر سے کھوکلا اور عالمی برادری کی نگاہوں میں تنہا ہو رہا ہے ۔۔۔!