حمزہ شفقات ، کوئٹہ کا سنہرا باب

0 132

تحریر/ ملک نعیم کاکڑ

کوئٹہ کی تاریخ میں جب بھی خلوصِ نیت سے کی گئی خدمت، دیانت دار انتظامیہ اور عوام دوست اقدامات کا ذکر آئے گا، وہاں حمزہ شفقات کا نام فخر اور تحسین کے ساتھ لیا جائے گا۔ ان کا حالیہ تبادلہ ایڈیشنل ہوم سیکرٹری کے طور پر اگرچہ ایک ذمہ داری کی منتقلی ہے، مگر کوئٹہ کے لیے ایک فعال اور نتیجہ خیز دور کا اختتام بھی ہے۔ حمزہ شفقات کا دور کسی خواب سے کم نہ تھا، ایک ایسا خواب جو کوئٹہ کی بیدار ہوتی تقدیر کی علامت بن گیا۔ ان کی قیادت میں ایک سست، مایوس اور تھکا ہارا نظام جاگا، حرکت میں آیا اور ترقی کی راہ پر چل نکلا۔ حمزہ شفقات نے وہ کچھ کر دکھایا جو برسوں سے محض دعووں اور وعدوں کی صورت میں عوام کے کانوں میں گونجتا رہا۔ انھوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کے وژن کو عملی شکل دی اور ہر اس رکاوٹ کو چیلنج کیا جو کوئٹہ کی ترقی کے راستے میں حائل تھی۔ انھوں نے نہ صرف اختیارات کو ذمہ داری سمجھا بلکہ اسے ایک موقع بنایا اور دکھایا کہ نیت صاف ہو، قیادت مخلص ہو، اور ٹیم متحرک ہو تو محدود وسائل بھی بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ ان کے دور میں محض دو برس کے اندر کوئٹہ ڈویژن نے تقریباً بیس ارب روپے کی بچت یا آمدن ممکن بنائی، وہ بھی بغیر کسی اضافی فنڈ یا بیرونی امداد کے۔ یہ رقم محض ایک عدد نہیں بلکہ ان کی حکمت، دیانتداری، شفاف حکمرانی اور ٹیم ورک کی مظہر ہے۔ اس مختصر مگر تابناک دور میں ایک بند عمارت کو بلوچستان کے پہلے ٹیکنالوجی پارک میں بدل دیا گیا۔ اس منصوبے نے 1.6 ارب روپے کی بچت، پانچ سو روزگار، اور بیس سے زائد اسٹارٹ اپس کی بنیاد رکھ کر ثابت کیا کہ خواب اگر سچے ہوں تو وسائل کی کمی راہ کی دیوار نہیں بنتی۔ برسوں سے رکی ہوئی چمن بارڈر مارکیٹ کو چھ ماہ کے اندر مکمل کرنا اور اس کے نتیجے میں تین ارب روپے کی بچت اور پانچ ہزار سے زائد ملازمتیں پیدا کرنا، ایک ایسا کارنامہ ہے جو انتظامی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ کوئٹہ جیسے شہر میں جہاں ٹریفک اور پارکنگ ایک مستقل عذاب تھا، وہاں جدید انٹیگریٹڈ پارکنگ سسٹم کا آغاز، سرکلر پلازہ کی چھت پر بننے والا پلان، اور زیرِ زمین پارکنگ کی تعمیر ان کی انتظامی فراست کی دلیل ہے۔ اس منصوبے سے نہ صرف عوام کو سہولت ملی بلکہ سالانہ تین کروڑ پچاس لاکھ روپے کی آمدن متوقع ہے اور نجی شعبے سے دو ارب روپے کی سرمایہ کاری لانا ایک بڑا مالی کارنامہ ہے۔ شہر کی صفائی کا مسئلہ ہمیشہ سرکاری اداروں کی ناکامی کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے، مگر حمزہ شفقات نے “صفا کوئٹہ” کے ذریعے بغیر کسی سرکاری فنڈ کے صفائی کے نظام میں تین سو فیصد بہتری لا کر یہ تاثر بدل دیا۔ یہ ایک ایسا خواب تھا جو وزیراعلیٰ بلوچستان نے دیکھا اور حمزہ شفقات نے دن رات محنت سے اسے شرمندہ تعبیر کیا۔ اس منصوبے پر ساٹھ سے زائد میٹنگز اور وزٹس کیے گئے جو ثابت کرتے ہیں کہ قیادت جب عملی ہو تو خواب حقیقت بنتے ہیں۔ عوامی اثاثوں کی بازیابی میں بھی ان کی خدمات قابلِ تقلید رہیں۔ کیفے بلدیہ کی ایک ارب روپے مالیت کی زمین مافیا سے واگزار کروا کر اسے دس لاکھ روپے ماہانہ آمدن پر دینا محض مالی کامیابی نہیں، بلکہ ایک تصوراتی تبدیلی ہے۔ اسی طرح اربوں کی زمینیں جن پر مافیا قابض تھے، واپس حاصل کر کے یہ پیغام دیا گیا کہ اگر ارادہ ہو تو قانون شکن عناصر کو بے بس کیا جا سکتا ہے۔ منشیات، اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، غیر قانونی کرش پلانٹس اور پٹرول پمپس کے خلاف کی گئی کارروائیوں سے جہاں دو ارب روپے کا فائدہ ہوا، وہیں شہر کا ماحول بہتر ہوا، اور قانون کی بالادستی کا عملی مظاہرہ سامنے آیا۔ تعلیم اور صحت کے شعبے بھی ان کی توجہ کا مرکز رہے۔ تین سو بند اسکولوں کو دوبارہ فعال کرنا، تمام سرکاری اسپتالوں کو مکمل آپریشنل بنانا، اور مزدوروں کے بچوں کو اسلام آباد کے نجی اسکولوں میں داخلہ دلا کر ان کے لیے ایک روشن مستقبل کی راہ ہموار کرنا وہ کام ہیں جو کسی بھی انتظامی افسر کو ایک انسان دوست رہنما کے مقام پر فائز کر دیتے ہیں۔ تیس ہزار طلبہ کو وظائف، دو جدید آئی ٹی لیب، اور کرکٹ، فٹبال و باکسنگ کے ٹورنامنٹ جیسے اقدامات ان کے نوجوان دوست وژن کا عملی اظہار ہیں۔ کوئٹہ کی سڑکیں، بائی پاس، لنک روڈز اور دیگر انفرااسٹرکچر منصوبے ان کے دور کی پہچان بنے۔ سبزل روڈ، سریاب روڈ، انسکومب روڈ، شاہوانی و بادینی لنک روڈز، آبپاشی کی عمارت اور مرکزی بائی پاس جیسے منصوبے آج کوئٹہ کے شہریوں کو ایک نئی امید دیتے ہیں۔ ان کا طرزِ حکمرانی اس بات کا ثبوت ہے کہ وسائل کی کمی، اگر نیت میں خلوص اور انتظامیہ میں عزم ہو، ترقی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ ان کا کام محض اعداد و شمار پر مبنی نہیں، بلکہ سینکڑوں خاندانوں کی خوشیوں، نوجوانوں کے خوابوں، اور شہر کی ترقی میں جھلکتا ہے۔ حمزہ شفقات کا جانا یقیناً ایک خلا ہے، مگر ان کا نام، اندازِ خدمت، اور نتائج کوئٹہ کے عوام کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ انھوں نے بیوروکریسی میں یہ امید پیدا کی ہے کہ اگر ایک افسر خالص نیت سے میدان میں اترے تو وہ پورے نظام کا رخ بدل سکتا ہے۔ وہ صرف ایک کمشنر نہیں تھے، وہ اس شہر کی دھڑکن، قیادت کی روشنی اور مستقبل کی علامت تھے۔ ان کا دور ختم ہوا، مگر ان کا نقش باقی رہے گا۔ بلاشبہ کوئٹہ جیسے شہر کی خدمت ایک بڑا چیلنج ہے۔ مسائل کا انبار، محدود وسائل، بدعنوانی کی جڑیں، ادارہ جاتی جمود اور شہری توقعات کا بوجھ، یہ سب مل کر ایک ایسے ماحول کی تشکیل کرتے ہیں جہاں تبدیلی ایک خواب لگتی ہے۔ لیکن جب کوئی شخص خلوصِ نیت، ایمانداری، پیشہ ورانہ مہارت اور جذبۂ خدمت کے ساتھ میدان میں اترتا ہے تو وہ خواب تعبیر بن جاتا ہے۔ حمزہ شفقات ایسے ہی ایک باصلاحیت، مدبر اور دور اندیش افسر کا نام ہے جنہوں نے مختصر وقت میں کوئٹہ جیسے پیچیدہ شہر کو امید، بہتری اور ترقی کا راستہ دکھایا۔حمزہ شفقات نے کمشنر کوئٹہ ڈویژن اور ایڈمنسٹریٹر میٹروپولیٹن کارپوریشن کوئٹہ کے طور پر اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران جو کارنامے سرانجام دیے، وہ محض سرکاری فائلوں تک محدود نہیں بلکہ عوام کے دلوں میں محفوظ ہیں۔ ان کا طرزِ قیادت روایتی سرکاری انداز سے بالکل مختلف تھا۔ وہ فائلوں میں دبے ہوئے نہیں، بلکہ میدان میں سرگرم، دفاتر سے باہر، عوام کے درمیان، اور مسائل کے مرکز میں پائے گئے۔ انھوں نے اپنی ٹیم کو صرف احکامات نہیں دیے بلکہ خود ان کی رہنمائی کی، عملی مثالیں قائم کیں اور ثابت کیا کہ ایک مخلص منتظم بہت کچھ بدل سکتا ہے۔ ان کے دورِ انتظامیہ میں کوئٹہ شہر نے ایک ایسی کروٹ لی جو برسوں میں بھی ممکن نہ ہو سکی تھی۔ ترقیاتی منصوبے صرف کاغذی خاکے نہیں رہے بلکہ عملی طور پر مکمل ہوتے نظر آئے۔ حمزہ شفقات کا اندازِ حکمرانی روایتی بیوروکریسی سے ہٹ کر تھا۔ وہ عام شہری کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتے جیسے کسی افسر کے ساتھ۔ ان کی دروازے ہمیشہ کھلے رہے، ان کی آنکھ ہمیشہ شہر پر، اور ان کا دل ہمیشہ عوام کے ساتھ رہا۔ وہ نہ صرف ایک کامیاب منتظم تھے بلکہ ایک سچے انسان بھی، جن کی نیت، عمل، اور کردار نے کوئٹہ کو بدل کر رکھ دیا۔ آج جب وہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہو چکے ہیں، کوئٹہ کے عوام کے دلوں میں ان کے لیے ایک احترام اور محبت کا جذبہ ہے۔ وہ صرف سابق کمشنر یا ایڈمنسٹریٹر نہیں، بلکہ وہ شخص ہیں جنہوں نے ایک تھکے ہارے شہر کو نئی امید، نئی زندگی اور ایک نیا وژن دیا۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.