اندرونی سازشیں اور جماعت کا استحکام
تحریر: حافظ محمد عمر
اکثر اعتراض اٹھانے والے دلیر، بے باک اور قابل تصور کیے جاتے ہیں۔ ان سے کارکن اور عوام بہت جلد متاثر ہوتے ہیں، کیونکہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ بہادری اور زبان و بیان کے ماہر سے متاثر ہوتا ہے۔ اگر بے باکی اور سوال اٹھانے کا مقصد واقعتاً اصلاح ہو تو یہ قابل تحسین عمل ہے۔
سوال اٹھانے اور اعتراض کا برمحل استعمال کرنے کا ہنر صرف ان لوگوں کے لیے آسان ہوتا ہے جو “اندر” کے لوگ ہوتے ہیں اور سسٹم سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں، یا اس نظام کے اندر فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں، یا ایسی ذمہ داریاں نبھا چکے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے اکثر ان کے تیر درست نشانے پر لگتے ہیں۔
اگر یہی ماہر نشانے باز کسی سازش، مفاد یا غداری کا شکار ہو جائیں تو کسی بھی تحریک کو نقصان پہنچانے کا بڑا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اور اگر یہ زبان و بیان کے ماہر، شخصی وجاہت کا پیکر، اثر و رسوخ اور ہوشیاری جیسی صفات سے آراستہ ہوں، تو یہ بہت جلد خود بھی اپنی تیز طبیعت کی وجہ سے بھٹک جاتے ہیں اور اکثر دشمن کی نظروں میں آ جاتے ہیں جو انہیں راہ راست سے ہٹا کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، کیونکہ یہ تیز قسم کے لوگ ان کے مقاصد کو آگے بڑھانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
اسی لیے بزرگوں کا کہنا ہے کہ “قابلیت نہیں، بلکہ قبولیت شرط ہے”۔
اس وقت جمعیت علماء اسلام مقامی سطح سے بین الاقوامی سطح تک جس انداز میں اسلام اور عالم اسلام کے مفادات کا فروغ اور تحفظ کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے، وہ ہر باشعور اور دینی حلقوں سے وابستہ مخلصین پر عیاں ہے اور وہ جمعیت کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ ملک کے اندر دینی مدارس، مساجد، علماء، تبلیغی جماعت، اور دینی تحریکوں کی ترجمانی، ملک میں اسلامی اقدار، شرعی قوانین کی نگہبانی، اور گوناگوں مسائل کے حل کے لیے قائد جمعیت اور جمعیت علماء اسلام کا کردار دن بدن اہمیت حاصل کرتا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں مخالف قوتوں کا جمعیت کی جانب متوجہ ہو جانا اور اس کی گوناگوں خدمات میں رکاوٹ ڈالنا ان کے لیے ضروری ہو چکا ہے، کیونکہ یہ سلسلہ اگر یونہی بلا رکاوٹ جاری و ساری رہا تو ان کے اسلام مخالف مشن کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ بن جائے گی۔
ایسی صورت میں وہ ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ کہاں سے نقب لگا کر اس مضبوط قلعے میں داخل ہوا جائے۔ لازماً اس کے لیے اندرون خانہ حمایت درکار ہو گی اور وہ یہ کام جماعت میں موجود ان عناصر سے بھی کروانے کی کوشش کریں گے جو بااثر، بااختیار، قادرالکلام اور اہل منصب ہوں، اور وہ کارکن جو بے لوث، مخلص اور جماعت پر جان فدا کرنے والے ہوں۔
یقیناً وہ یہ کام ان طبقات سے دشمنی کے نام پر نہیں لے گا، بلکہ شیطان کی نورانی چال کی طرح اصلاح اور جماعت میں بہتری کے نام پر ہی لے گا۔
خواص کو یہ خدشہ باور کرائے گا کہ جماعت جمود کا شکار ہے، قیادت مصلحت کی بجائے عزیمت پر چل کر مشکلات میں گھر جائے گی، ہماری رائے اور ہمارے افکار انتہائی اعلیٰ ہیں، ہماری شخصی اور علمی قابلیت سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا، ہمیں نظر انداز کرکے اچھا نہیں کیا جا رہا، یا پھر قیادت مفادات کا شکار ہے اور غلط فیصلے کر رہی ہے۔
یعنی قیادت سے بدظن کرکے ان قابل ترین لوگوں کو استعمال کرکے جماعت کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کی جائیں گی اور پھر ان ہی کے ذریعے کارکنوں کو اخلاص اور اصلاح کے نام پر دھوکہ دے کر جماعت کی قوت کو کمزور اور منتشر کرکے اپنے مقاصد حاصل کیے جائیں گے۔
اور ان سازشوں کو سینکڑوں نورانی پردوں میں چھپا کر عین جماعت کی بقا و استحکام کا نام دیا جائے گا۔
یہ مضمون پورے درد دل اور خالصتاً اصلاح کی نیت سے لکھا گیا ہے۔ اس سے اختلاف رائے کا حق رکھا جا سکتا ہے، لیکن خدارا اسے پڑھتے ہوئے بالکل غیر جانبدار سوچ کے ساتھ فکر ضرور کیجیے گا۔