خان شہید کے سیاسی نظریات بغیر۔کسی تعصب، نفرت اور ایکپر امن سیاسی جد وجہد پر مبنی ہے
برصغیر پر استعماری قبضے کے خلاف جد وجہد کا ہیرو، جو مذہبی ہم آہنگی، سماجی انصاف، جمہوریت، پرامن سیاسی سیکولر نظریات پر نہ صرف یقین رکھتا تھا بلکہ اسے عملی بنانے میں بچپن ہی سے عمل پیرا رہا: خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی
ایک خوبصورت بچہ، جس کے گورے سفید خدوخال بادامی آنکھیں، صحت مند اور اپنے ہم عمروں سے قد میں بڑے، تجسس سے بھری ہوئی سوچ لیکر دنیا کو غور سے دیکھنے کی پیاس بجھانے کےلئے تگ و دو کر رہا تھا۔
وہ پشتون افغان ملت کی ایک ایسے خاندانی اور سماجی کلچر سے تعلق رکھتا ہے، جو آج تک زرتشت اور بدھا تہذیبوں کے تئت سوچتے اور اس پر عمل کرتے آرہے ہیں۔ ان دو قدیم تہذیبوں نے خان شہید کے مادر وطن میں سے جنم لیا ہے۔ جس میں بدھا کی گندہارا تحزیب کا گڑھ پشاور، سوات، مردان سے ہوتے ہوئے بامیان تک پھیلا ہوا ہے۔
اسی طرح زرتشت بلخ میں اپنی آنکھیں کھولتا ہے، اور سب سے پہلے انکی سرزمین یعنی انڈس اور آکسس کے درمیان افغان وطن کو متاثر کرنے کے بعد بعد بدھا کی تہذیب مشرق جب کہ زرتشت کی تہذیب مغرب کے فلسفہ، فکر اور ثقافت کو متاثر کرتا ہے۔
یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ افغان سرزمین ہمیشہ سے اپنے بچوں کو رہبری کیلئے متاثر کرتی ہے، اور ان تہذیبوں کے نقوش یہاں کے رہنے والوں پر واضع طور پہ اثر انداز ہوئے ہیں۔
خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی عنایت اللہ کاریز گلستان میں پیدا ہوتا ہے اور اپنی آپ بیتی لکھتے ہوئے، خود کو سب سے پہلے دلبرہ (ماں) اور اسکے بعد نور محمد خان (والد) کے نام سے منصوب کرتا ہے۔ یعنی صنفی امتیاز کو ختم کرنے کے لئے جدوجہد کرنے والوں کےلئے میں اس بحث کو چھوڑ رہا ہوں، کہ خان شہید کیوں اپنی شناخت کو ماں کے نام سے پہکء منصوب کرتا ہے۔ حالانکہ پشتون افغان ملت میں شاہد کسی نے یوں لکھا ہو۔ میرے نزدیک تو ماں، مادروطن کی حیثیت رکھتی ہے، اور عظیم ہے۔
عموماً سب سے چھوٹے بچے کو ماں ساتھ لیکر چلتی ہے، چونکہ وہ دوسرے نمبر پر ہے، اسلئے خان شہید کی بہن کے علاج کےلئے انہیں ساتھ لیکر کوئٹہ کے مشن ہسپتال لاتے ہیں۔ کیونکہ استعماری دور دورے میں مشنری ہسپتالوں اور سکولوں ہی کے ذریعے صحت اور تعلیم حاصل کرنے کے واحد راستے ہوا کرے تھے۔
آج بھی دور دراز علاقوں سے جو بچے شہر کی کہانیاں سنتے ہیں تو انکے دلوں میں ایک خیالی اور تصوراتی دنیا پائی جاتی ہے۔ تو یہی کچھ کوئٹہ آنے سے پہلے اس دور اندیش بچے کے زہن میں چل رہا ہوگا۔ کیونکہ گھروں میں بڑے ہمیشہ اپنی کہانیوں میں شہروں کے قصے سناتے آرہے ہیں۔
میرا مقصد یہاں خان شہید کی زندگی کو جانچنا ہے، کہ وہ کیوں سیکولر، جمہور، پرامن، سماجی انصاف کی سوچ پر نہ صرف یقین رکھتا ہے، بلکہ بچپن ہی سے وہ اس کو عملی بنانے میں شعوری طور پر گامزن ہے۔
یہ تب کی بات ہے جب برصغیر پر انگریزوں کی استعماری قبضے کا دور دورہ تھا۔ جہاں یا تو ان کے حق میں یا انکے خلاف سوچ پائی جاتی تھیں۔ ایسی صورت حال میں خان شہید کے بچپن کی سوچ مذہبی آزادی، جیو اور جینے دو، امن، بھائی چارے اور برابری۔ درج بالا بیان کئے گئے تہذیبوں کے اثر کے بغیر شاہد ممکن نہ ہو۔
کیونکہ یہ تہذیبیں ہزاروں سالوں سے افغان مادر وطن اور پورے دنیا کو متاثر کرتی چلی آرہی ہیں۔ اس بچے کی یہ سوچ اور دوسری جانب انگریزی استعمار کے کالے قوانین کا دور دورہ۔ (ہندوستانی اور کتوں کی اجازت یہاں نہیں ہے) کے مشہور مقولوں سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں پر آقا اور غلام جیسا سلوک کیا جاتا رہا۔
استعماری سوچ کے خلاف بیانیے پائے جاتے ہیں، اور یہ کہا جاتا ہے کہ چونکہ انگریز یہاں پر شراب اور سور کے گوشت کے ذریعے یہاں کی عوام اور اقوام کو کرپٹ بنانے کے درپے ہیں۔ یہ بیانیے خان شہید کی مادر وطن میں اور بھی شدید اسلئے ہیں کہ انکی مادر وطن کو بولان اور سبی، کوئٹہ، پشین، ہرنائی یعنی بولان درہ، جبکہ اوپر خیبر پشتونخوا کے ابھی خیبر ضلع جو کہ پہلے خیبر ایجنسی ہوا کرتی تھی، کے علاقے میچنی یعنی خیبر درہ کو انگریزی استعمار نے افغانستان سے بزور اور چالاکی گندمک معاہدے کے تحت مقبوضہ اور متنازعہ علاقہ بنایا۔
وہ خان شہید جس نے اپنی پوری زندگی زد استعمار کی بنیاد پر اپنی سوچ کے تحت جد وجہد کرتے ہوئے گزاری، بچپن میں بھی چیزوں کو محض انتہا پسندی کے نقطہ نظر سے نہیں بلکہ ایک منطقی سوچ کے حامل شخص کی نظر سے دیکھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بچپن میں ہسپتال آتے ہیں، ڈاکٹروں اور نرسز کی آپریشنز، پٹیاں لگانے، مریضوں کے ساتھ دل جوہی سے ملنے کا مشاہدہ کرتا ہے۔ دوسری جانب انگریز ڈاکٹرز اور نرسز اسی سوچ میں ہیں کہ یہاں پر تو انکے خلاف پروپیگنڈہ ہورہا ہے مگر یہ خوبصورت بچہ انکے اردگرد گھومتا ہے اور انہیں دوستی بھری نظروں سے دیکھتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ ان سے ملتے ہیں، انہیں دوست بناتے ہیں۔ اور یہاں تک کہ انکو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں انہیں کھانا کھلاتے ہیں اور سارا دن ان کے ساتھ کے رہتے ہیں۔
جب کہ دوسری جانب والدین انکے پیچھے گھومتے پھر رہے ہوتے ہیں کہ کہیں بچہ راستہ تو بھولا نہیں بیٹھا۔ جوں ہی خان شہید کے والدین انہیں ڈھونڈ لیتے ہیں تو والدین پوچھتے ہیں کہ” کہاں تھے؟” خان شہید کہتا ہے کہ “میں تو ڈاکٹروں اور نرسوں کے ساتھ تھا اور کھانا بھی وہیں کھا آیا ہوں۔” والدین کی ذہنوں میں شراب اور خنزیر کا پراپیگنڈہ آجاتا ہے اور انہیں غصہ کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیںانگیز لوگ تو حرام چیزوں کو کھاتے ہیں آپ نے کیسے ان کے ساتھ دن گزارا اور کھانا بھی کھایا۔ خان شہید یکدم جواب دیتا ہے، کہ یہ سب جھوٹ ہے، میں نے تو وہی کہایا جو ہم گھر پہ کھاتے ہیں اور وہی پیا جو ہم گھر پہ پیتے ہیں، میں نے مرغی، آلو، سبزیاں کھائیں اور پانی پیا اس کے علاوہ کچھ تھا ہی نہیں۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنے منظم طور پہ باشعور اور حقیقت پسندی کی بنیاد پر چیزوں کو پرکھتے ہیں۔ ساتھ ہی دل میں سوچتا ہے کہ عیسائی اپنے دینی فریضے کے خاطر لوگوں کی تیمارداری اور انکو پڑھانے کےلئے کیا خوب انسانی خدمات سر انجام دیتےہیں۔ کاش کہ ہم مسلمان بھی ایسے ہی کرتے تاکہ انسانوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہوتیں۔ یہ کام ہم کیوں نہیں کرتے؟
خان شہید بیک وقت زد استعمار اور پرامن شعوری سیاست کے قائل رہے ہیں۔ انکے بزرگوں میں سے عبداللہ خان اچکزئی پہلے انگریز افغان جنگ کے ہیرو ہیں، جنہوں نے کابل میں ہندوستان کے وائسرائے کے نمائندے الیگزینڈر کو چری کو مار کر قتل کیا۔ جس کے رد عمل میں انگریزوں نے انہیں، انکے بھائی اور انکے دو بچوں کو شہید کیا، جو بعد میں افغان لشکر کی شکل میں جلال آباد کے مقام پر انگریزوں کی شکست کی وجہ بنا۔
برخوردار خان انکے بزرگ ہیں۔ جو احمد شاہ ابدالی کے چیف سٹریٹیجیک اور ملٹری ٹیم میں مشیر اور جنرل کی حیثیت سے پانی پت کی تاریخی جنگ میں شریک رہے اور مرہٹوں کے کو شکست دیتے ہوئے جنگ کے ہیرو قرار پائے۔ خان شہید خود اپنی جوانی میں مسلح ہوکر افغانستان میں تیسری افغان انگریز جنگ کے ہیرو غازی امان اللہ خان کے استقلال
( آزادی) کے دفاع کی خاطر تیار ہوئے تھے۔ کنگ غازی امان اللہ خان کو جب انگریزوں نے سبق سکھانے کی خاطر سازش کے ذریعے راہ سے کرنے کی مہم چلا رہے تھے۔
بعد میں خان شہید اسی فرنگی استعمار اور پاکستان بننے کے بعد ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے جیلوں میں ۳۳ سال پابند سلاسل یا پھر گھر پر نظربند رہے۔ جوکہ انکی کل زندگی کا ۵۰ فیصد حصہ بنتا ہے۔
خان شہید کی زندگی پہ غور کیا جائے تو وہ بیک وقت فلسفہ، سیاست، سماج اور مذہب کو ایک سائنسی اور عملی طریقے سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس میں کسی بھی نفرت، بالادستی، نسل پرستی کا خلل نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے سیاسی فلسفہ کسی بھی ایک فرد کے دوسرے فرد پر، ایک طبقہ کے دوسری طبقہ، ایک قوم کے دوسری قوم، ایک ثقافت کا دوسری ثقافت یا پھر ایک مذہب کا دوسرے مذہب پر بالادستی اور استحصال کو نفی کرتے ہوئے پشتون افغان ملت کو پر امن سیاسی جدوجہد سے روشناس کراتا ہے۔
وہ کسی بھی انسان سے اسکی شکل، زبان، نسل، مذہب، فرقہ یا علاقے کی بنیاد پر نفرت کے خلاف ایک انسان دوست سوچ کی بنیاد پر مشتمل معاشرے کی تشکیل کےلئے جدوجہد کرتا ہے۔
یہی وجہ تھی جب انکے قبیلے کے کچھ لوگوں نے انگریز میجر پارلی، انکی بیوی اور ایک اور کپتان کو اغواء کرتے ہوئے افغانستان لے گئے تو یہ برصغیر میں جنگ آزادی کی خاطر سب سے پہلے انسانی اغوا تھا۔ اور ان کا فرنگی سرکار سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ خان شہید اور انکے ساتھیوں کو جیل سے رہا کردیں۔ مگر اس واقعے نے خان شہید کو اسلئے دلبرداشتہ کیا کہ پشتون افغان تاریخ اور انکی اقدار یعنی پشتون ولی اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ کسی عورت کو قیدی بنایا جائے۔ حالانکہ فرنگیوں کا اغواء خان شہید، انکے سیاسی رفیق کار اور بھائی حاجی عبدالسلام خان اچکزئی، محمد ایوب خان اچکزئی اور انکے ماموں محمد عیسیٰ خان اچکزئی کی رہائی کےلئے کیا تھا۔
خان شہید چونکہ اپنی سوچ، فکر، نظرئے اور عمل میں متذلزل نہیں تھے اسلئے انہیں سکون تب آیا جب ان انگریزوں کی رہائی کے وقت انہوں نے اقرار کیا تھا کہ ہمارے اغواکاروں نے ہمیں بھرپور مہمانوازی کی۔ اور یہ بتایا کہ آپ لوگ فکر نہ کرے ہمارے سیاسی رہنماوں کی رہائی کی جب بات ہوگی تو آپ لوگوں کو آزاد کردینگے۔
اسی سلسلے میں انگریز نرس جوکہ بچپن ہی سے خان شہید کو اپنے بچے جیسے سمجھتی تھی، اس نے عنایت اللہ کاریز جاکر خان شہید کی ماں کو تسلی دی تھی کہ آپ کے بچے رہا ہونگے کیونکہ انکو میں جانتی ہوں کہ وہ بلکل انسان دوست اور معصوم ہیں، آپ بلکل فکر نہ کریں۔ بعد میں جب انگریز انتظامیہ نے ان مشنری نرسوں اور سٹاف سے تفتیش کی تھی تو انہوں نے واضح طور پہ کہہ دیا تھا کہ خان شہید اور اسکی سیاسی سوچ و فکر سے ہم بخوبی آگاہ ہیں۔ وہ نہ کبھی کسی کو اغوا کرسکتا ہے اور نہ ہی اس معاملے سے اسکا کوئی تعلق ہوسکتا ہے۔
ہندوستان میں مشنری دوروں نے اچھوت ہندووں کو عیسائی بنایا جس کہ بعد وہ لوگ ہندوستان بھر میں پھیل گئے۔ گلستان میں بھی یہی عیسائی آج تک آباد ہیں۔ چونکہ لوکل سرٹیفیکیٹ ( ڈومیسائیل) انگریز نظام نے ڈیٹا کے طور پر رائج کیا تھا جو کہ آج تک چلا آرہا ہے۔ اسلئے گلستان میں رہنے والے عیسائی کے لوکل سرٹیفیکیٹس بھی خان شہید کے دستخط سے بنائے گئے ہیں۔ قبائلی معاشرے میں سرکردہ نہ ہونے کی صورت میں یہ سرٹیفیکیٹس نہیں بنتے تھے۔
چونکہ خان شہید مادر وطن کے بچوں اور بچیوں کو ایک سمجھتے تھے، اور انہیں ایک عیسائی، ہندو، پارسی اتنا ہی پشتون افغان لگتا تھا جتنا وہ خود ہوں۔ اور (کور او گور) یعنی پشتو کہاوت جس میں کہا جاتا ہے کہ جنکا گھر آپ کے ساتھ ہو اور انکے مردے آپ کے دھرتی میں درگور کئے جاتے ہوں وہی آپ کے اپنے ہیں۔
ایک مرتبہ خان شہید جب جیل میں تھے تو ان کے بڑے صاحبزادے مرحوم ڈاکٹر احمد خان اچکزئی کی شادی ہورہی تھی، جسکا بندوبست روایات کے مطابق انکے بڑے بھائی حاجی عبدالسلام خان اچکزئی کر رہے تھے۔ انہوں نے علاقے کے لوگوں کو اسلئے حیران کیا کہ یہاں کے پشتونوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے گلستان کے عیسایوں کو نہ صرف شادی میں مدعو کیا، بلکہ انکو ایک ہی دسترخوان پر بٹھا کر لوگوں کو عملی طور پر دکھایا کہ یہ ہمارے اپنے ہیں۔ مسئلہ مختلف مذاہب پر یقین سے نہیں بڑھتا جب تک ہم انسانوں کو آدم اور حوا کی اولاد سمجھ کر انہیں اپنے قریب نہیں کرتے تو ہم ایک انسان دوست قوم کیسے رہینگے؟
چونکہ ہندووں میں بھی انتہا پسندی کے رجہانات پائے جاتے ہیں ایک مرتبہ خان شہید جیکب آباد میں ہندوں آڑتھیوں کے ساتھ رہتے تھے، اس نے نوٹ کیا کہ ہندو اپنے کھانے، پینے کا الگ بندوبست کرکے الگ کھاتے ہیں۔ تو انہوں نے ہندووں کو بلایا کہ مذہب ہر انسان کا خدا کے ساتھ محبت کا نام ہے۔ مگر زندگی کی معمولات میں ہم سب آدم اور حوا کی اولاد ہیں تو اگر کل سے ہم لوگ اکھٹے اور ایک ہی دسترخوان پر کھانے نہیں بیٹھیں گے تو میں احتجاجاً یہاں پر نہیں رہونگا۔ جس سے ان ہندو آڑتھیوں میں شعور پیدا ہوذ اور انہیں اپنے ساتھ اکھٹے کھانے پر بٹھایا۔
یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ جب ہندوستان کے کانگریس کے رہنما موہن داس گاندھی سے پہلی ملاقات انہوں نے چوبیس سال کی عمر میں کی۔ گاندھی جی کو حیرت ہوئی کہ کوئٹہ سے آئے ہوئے پشتون افغان کی باتوں میں اثر، سیاست میں سیکولرازم، مذہبی بنیاد پر وہ پر امن اسلام کے داعی ہیں۔ تو انہیں کہا کہ آپ اپنے سیاسی بیانئے کے ذریعے اپنے مادر وطن کے مسائل کو لکھ کر دے دیں میں انگریزوں کے ساتھ لندن میں گول میز کانفرنس میں مسائل میں پیش کرونگا۔
ہزارہ افغان چونکہ ایک افغان قبیلہ ہے، جو کہ غزنی اور بامیان کے ساتھ کوئٹہ میں بھی آباد ہیں اور ان کو رنگ و نسل کی بنیاد پر شیعہ سنی فسادات اور دہشتگردی کے حملوں میں مارے دئے جاتے ہیں۔ مگر خان شہید کے ماموں کے گھروں میں انکی شادیاں ہوئی ہیں اور یہ سب اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ مادر وطن اور انکے بچوں کو ایک جان کرنا جانتے تھے۔
خان شہید کے سیاسی نظریات بلا تعصب، نفرت پر امن سیاسی جد وجہد پر مبنی ہیں۔ افغان بدھا، زرتشت اور پر امن دین مبین اسلام سے متاثر ہوکر سماجی انصاف، جمہوریت، برابری، آزادی اور امن کےلئے زور پکڑ چکی ہے۔ اس سے خوفزدہ ہوکر انکے ان افکار کو خاموش کرنے کےلئے انہیں ۲ دسمبر ۱۹۷۳ کو دو ہینڈگرینیڈز بم حملے کے ذریعے ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا کیا گیا مگر خان شہید کی سائنسی، سیاسی افکار اور آئیڈیالوجی ہر لمحے لوگوں کو متاثر کر رہی ہے۔ جس کی تعداد اب پشتون افغان ملت میں سرائیت کر چکی ہے۔