“خون میں فرق کیسا”
تحریر :محمدلعل بابر
زمانہ سکول و کالج کے دنوں میں حیاتیات (Biology) میں پڑھا تھا کہ خون کے مختلف گروپس تو ہوتے ہیں لیکن رنگ سب کا سرخ ہی ہیں اور اگر آپکو کبھی کسی بلڈ بینک سے خون خریدنے کا اتفاق ہوا ہو تو آپ اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ خون کے مختلف گروپس کی قیمت میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ پاکستان میں خریدنے کی قیمت تو ایک جیسی ہے لیکن خون بہانے کی قیمت میں واضح فرق ہے۔
بحر کیف کہا جاتا ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور جس اسلام کو ہم جانتے ہیں اُس میں تو ایک بے گناہ افراد کو قتل کرنا پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ آقائے دو جہاں نبی کریم صلى الله عليه و آلہ وسلم کے ایک حديث کا مفہوم ہے کہ کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو عجمی پر کوئی برتری حاصل نہیں یعنی سب برابر ہیں۔ لیکن مملکت خدادا میں سب اس کے بر عکس ہے اور اسی فرق کو واجب سمجھا جاتا ہے۔
پہلے یہ فرق محض سائل وسائل کی حد تک محدود تھی اور واجب سمجھا جاتا تھا لیکن کوئی تو ان احمقوں کو یہ تو بتائے کہ بلوچستان کے لوگوں نے بے شمار جانی و مالی نقصانات اٹھائے ہیں اور قربانیاں دی ہیں. لیکن اب یہاں ایک صوبے کے باشندے کو دوسرے صوبے کے باشندے پر ترجیح دی جانے لگی اور وقت کے ساتھ ساتھ اب یہ فرق آگے بڑھ کر ہمیں خون بہنے پر آواز اٹھانے میں کافی واضح نظر آرہا ہے۔
آج شہر اقتدار میں ایک نوجوان کو پولیس والوں نے گولیاں مار کر قتل کر دیا جس پر ملکی میڈیا نے سرخی چلائی, کوریج بھی دی گئی اور ہر طرف سے مذمتی بیانات جاری ہوئے بالکل ایسا ہونا بھی چاہیے پورے ملک و قوم کو اس پر تشویش بھی ہونا چاہیے کیونکہ کسی گھر کا لخت جگر و روشن چراغ ان سے جدا ہوا ہے۔
لیکن چند سوالات تو بنتے ہیں جو ہر اس مظلوم و محکوم قوم کے دل و دماغ میں اس وقت چل رہے ہیں۔کہ بلوچستان کے لوگوں کا خون اتنا سستا کیوں سمجھا جاتا ہے؟ ہمارے خون پر خاموشی کیوں ہوتی ہیں؟ کیا ہم کسی کے گھر کی روشن چراغ نہیں؟ کیا ہمارے والدین ہمیں بے دردی سے مارے جانے کے لئے جوان کرتے ہیں؟ کیا ہم اس میڈیا کے سرخیوں میں آنے کے قابل نہیں؟ کیا ہمیں یہ ریاست انسان سمجھتا ہی نہیں؟
بلوچستان میں تو ایسے واقعات کی ایک طویل داستان ہے جس کو خون سے لکھا جارہا ہے جن کو یہاں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہاں لیکن یہاں پر ایک واقعہ آپ کے نظر میں لانا چاہتا ہوں کہ 13 اگست 2020 کو ایک طالب علم حیات بلوچ کو اس کے والدین کے سامنے دن دیہاڑے ایف سی اہلکار نے گولیاں مار کر قتل کر دیا جس کی ویڈیو ابھی بھی موجود ہیں۔ حیات بلوچ کے قتل کے واقعے کو نہ تو کسی نیوز چینل پر کوریج دی گئی اور نہ ہی کسی بڑے سیاسی جماعت کی طرف سے اس پر بات کی گئی۔
ملکی میڈیا کا کوریج نہ دینا اور آواز نہ اٹھانے کے بنیادی دو وجوہات تھے ایک تو مقتول بلوچستانی تھا جہاں خون بہت سستا ملتا ہے اور دوسرا یہ کہ قاتل ملک کے محافظ ایف سی اہلکار تھے۔
کاش!!! حیات بلوچ کے قتل پر یہ میڈیا کوریج دیتی، یہاں کے حکمران ٱس دن بھی مذمت کرتے اور واقعے کی صاف و شفاف تحقیقات کی جاتی تو آج اسامہ سڑکوں پر قتل نہ ہوتا۔ ان باتوں پر سوچئے اور ظلم کے خلاف برملا آواز بلند کریں ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔