ہم ہی معاشرہ ہے اور ہم ہی معاشرے کی تباہی کا ضامن ہے
معاشرہ لازوال و تباہیوں کا شکار ہوچکا ہے عوام مہنگائی کی زد میں ہے بےروزگاروں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے چوری چکاری،ڈھکیتی،خونریزی،ٹارگیٹ کلینگ کے کیسس بڑھ رہے ہے معاشرے میں کسی بھی قسم کا ترقیاتی کام نہیں ہورہا بلکہ معاشرہ مزید خرابی کی طرف گامزن ہے انتظامیہ بے بس ہوچکی ہےاور فرعونوں کے اشاروں پر ناچتی ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں آئے روز امن و امان بھگڑ رہا ہے کرائم ریشیوں اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ کوءبھی شخص محفوظ نہیں ہے ہمارے ہی چنے ہوئے لوگ آستین کا سانپ بن چکے ہے اور ہماری ہی زمینوں پر قابض ہوکے ہمیں ہی بیچ رہے ہےمگر اسکا ضموار کون ہے؟ ہمارے معاشرے میں امن کیوں نہیں ہے؟عدل و انصاف کیوں نہیں ہے؟ قانون نافذ کیوں نہیں ہوپارہا ہے؟ انسانی حقوق کی تحفظ کیوں نہیں ہے؟ آئینی حقوق سے کیوں عوام محروم ہے؟ وہ اس لیئے کیونکہ ہم ایک نہیں ہے ہم مختلف قوموں میں تقسیم ہوچکے ہے ہم مختلف فرقوں میں تقسیم ہوچکے ہے ہم مختلف گروپوں میں تقسیم ہوچکے ہے ہم مظبوط بھی اسی لیئے نہیں ہے کیونکہ ہم اتحاد و اتفاق سے محروم ہے یا پھر ہمیں محروم کیا گیا ہے کیونکہ ہم نے مزاحمت نہیں کی ہم خلاف کھڑے نہیں ہوئے ہم نے دیکھا ہم نے سمجھا ہم نے جانا مگر ہم خوف کی وجہ سے چپ رہے خاموش رہے اسی خاموشی نے ہمیں غلام بنا دیا اسی خاموشی نے ہمیں بم دھماکوں،خون ریزی،بھتہ خوری،ناانصافی،اور فرعونیت کا شکار بنا دیا مگر یہ بھی درست ھیکہ ہم عوام نے بھی اس معاشرے کو اپنے ہاتھوں سے اندھیرے میں دھکیلا ہے اس بات کا علم تو معاشرے میں رہائش پزیر ہر شخص کو ھیکہ ہم اپنے ہاتھوں سے دیئے ہوئے وو¿ٹ سے ایک چور اور کرپٹ حکمران کو چنتے ہے مگر کسی میں بھی خلاف بھولنے کی جسارت نہیں ہے حکمرانوں کی کوءغلطی نہیں ہے کیونکہ انہیں بے وقوف بنانے کا چل آتا ہے وہ تھوڑا سا لالچ دیتے ہے اور ہم میں سے کچھ غلام اپنے نسلوں کا سودا کرلیتے ہے اور پھر بعد میں کہتے ھیکہ وو¿ٹ کو عزت دو سب سے پہلے تو حقیقت یہ ھیکہ ہم نے اپنا فرضہ صحیح طریقہ سے ادا نہیں کیا معاشرے کیلئے ہماری جو ضمواریاں ہے ہم نے آج تک وہ ادانہیں کیئے ہمیں اس معاشرے میں اپنے اختیارات تک نہیں معلوم اور ہم ملک کی صورت حال پر بحث مباحثے کرتےرہتے ہے ہمیں اپنا دشمن تو معلوم ہے مگر ہم گروپوں میں بٹے ہوئے ہے دشمن کے ساتھ کس طرح لڑا جائے اس سے بے خبر ہے کیونکہ ہمارا ایجنڈا مختلف ہے دشمن ہمیں ایک سمجھ کر ڈرا رہا ہے اور ہمیں قتل کررہا ہے مگر ہم ہر ایک الگ طریقے سے اکیلے اکیلے معاز پر ہے وقت کے حکمرانوں سے ہمیں کوءشکوہ نہیں کرنا چاہئے ہمیں سب سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے اور سورت حال کا ضموار کسی اور کو نہیں بلکہ خود کو کرار دینا چاہئے چین،ترک،جاپان،امریکہ،رشیاں،اور تمام ترقی آفتہ ممالک عوام کے مخلص کردار کی وجہ سے عروج پر ہے کیونکہ وہاں کے عوام نے غلط چناو¿ں نہیں کیا ان میں ہمت ھیکہ وہ غلط کو غلط کہے اور انکا جزبہ ذاتی مفادات کیلئے نہیں بلکہ معاشرے کی فلاح و بہبود کیلئے ہے تاریخ گواہ ھیکہ ہمارے باپ داداو¿ں نے ہمیشہ اپنے ذاتی مفاد کیلئے اپنے معاشرے کو بیچ دیا ہے اور آج ہمارے لئے مصیبت اور سردرد بن چکا ہے مگر ہم نے پھر بھی سبق حاصل نہیں کیا ہم مزید غلط فیصلے کررہے ہے جس سے ہمارا نام و نشان تک مٹ جائے گا ہمارے محافظ معاشرے کیلئے سردرد اور دشمن بن چکے ہے آئے دن خون کی ندیاں بہہ رہی ہے ہمارے خون پر ڈالر لیئے جارہے ہے مگر عوام تو دور کی بات ہے قوم پرست پارٹیاں بھی خاموش تماشائی ہے مزاحمت کرنے کی کسی میں جسارت نہیں ہے دن بدن زوال کا شکار ہوتے جارہے ہے سیاسی نمائندگی بلکل زیرو ہے محافظوں نے تو حفاظت کی دہجیاں اڑاءہوءہے ہر شخص آئین 1973 کے تناظر میں آرٹیکل 9 کو مد نظر رکھتے ہوئے حفاظت مانگ رہا ہے مگر جو بھی شخص مزاحمت کریں اسے دھمکانے لگ جاتے ہے یا پھر ماردیا جاتا ہے وہ اس لیئے کیونکہ ہم الگ الگ ہوکے مزاحمت کر رہے ہے جس کی وجہ سے ہم آئینی حقوق سے بھی محروم ہے مولانا مضل الرحمٰن صاحب سے ایک وکیل بھاءنے سوال کیا کہ اگر 1973 کا آئین بدستور صحیح نہیں ہے تو کیوں ناں ہم کوءاور آئین بنا لے جس سے عوام کو فوائد حاصل ہو مولانا صاحب نے جواب دیا کہ آئین بلکل درست ہے اور صحیح اسلامی طریقہ پر بنا ہے مگر بدقسمتی سے آئین نافذ العمل نہیں ہورہا ہے آئین اور عوام کو جب میں نے سٹڈی کیا تو ایک بات میرے ذہن میں رونما ہوءکہ کوءشخص چاہے وہ عوامی رہنمائ ہو یا پھر اعلیٰ اعدیداران ہو کسی نے بھی ایک ہو کر آئین کو نافذ کرنے کی بات نہیں کی ہاں اگر کسی نے کی بھی ہے تو اپنے مفادات کیلئے کی ہے جس سے یہ بات ثابت ھیکہ عوام ہی معاشرے کے تباہی کا خود ضموار ہے با چاخان بابا نے کہا تھا کہ انگریز اس لیئے عروج پر نہیں ہے نا ہی اس لیئے طاقتور ہے کہ وہ ہتھیاروں کے مالک ہے یا پھر انکے ساتھ کافی مقدار میں سونا ہے بلکہ انگریز اگر طاقتور ہے تو اپنی یکجہتی کی وجہ سے ہے کیونکہ انگریز چاہے آپس میں جیسے بھی ہو مگر اپنے دشمن
کیلئے ایک ہے انکے ارادے دشمن کیلئے خوف زدہ ہے مگر ہم پاکستانی قوم چار صوبے نہیں بلکہ چار ملک ہے انہی صوبوں میں ہر ایک ضلع اپنے لیئے ایک الگ ریاست ہے کیونکہ یہاں کچھ قبضے قومی ٹھیکداران نے کی ہے اور کچھ قبضے ہمارے محافظوں نے کی ہے وہ اس لیئے کیونکہ یہاں ہمارے بیچ یہودی لابی کا ڈھیرا ہے اور وہ معاذ پر ہے مگر مظلوم عوام فٹ بال کی طرح ہے لاتھ پے لاتھ کھا رہی ہے کیونکہ عوام میں اپنے بنیادی حقوق کیلئے لڑنے کی ہمت نہیں ہے