سب کہاں کچھ لالا و گل میں نمایاں ہو گئیں

0 48

وزارت اطلاعات نشریات کے وزیر عطائ اللہ تارڑ کی کوارڈینیٹر محترمہ فرح دیبا نے ایک پارسی خاتون ناول نگار کی تعزیتی تقریب میں مدعو کیا تھا اور میں علالت کی وجہ سے حاضر نہ ہو سکا۔ تو میں نے سوچا کیوں نہ مرحومہ کو اپنے احساسات و جذبات کا نذرانہ عقیدت لفظوں میں پیش کر دوں اور اپنی حاضری لگوا لوں ، مرزا غالب نے کہا تھا کہ تم سلامت رہو ہزار برس ہر برس کے دن ہوں پچاس ہزار مجھے اس وقت یہ لگتا تھا کہ یہ غالب نے مبالغہ کیا ہے لیکن آج محسوس ہوتا ہے کہ اس نے مبالغہ نہیں کیا یہ تو بہت کم اور تھوڑی دعا دی ہے انسان کروڑوں سال زندہ رہ سکتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ پارسی خاتون ناول نگار نے وہ کام کیا ہے جو تا ابد اسے زندہ رکھے گا۔ دنیا کی کوئی قوت اس جلیل القدر خاتون کو اپنے حافظوں سے محو نہ کر پائے گی ، یہ دوام کس کی بدولت ہے ، صرف اور صرف اس کو قلم نہیں یہ اعزاز عطا کیا ہے کہ اس کے خامہ عنبر شمامہ سے کتنے ہی خوبصورت الفاظ قرطاس موتیوں کی طرح بکھر گئے ہیں۔ب ایسے جیسے طشتری پر موتی جڑے ہوں اپ کے ناول پوری دنیا میں پڑھے جاتے ہیں، رب صرف مسلمانوں کا ہی نہیں بلکہ وہ رب المسلمین نہیں رب العالمین ہے اس لیے اگلے جہان کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن دنیا میں اس خاتون کا کام زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا بلکہ اس کے دشمن بھی اس کے مرنے کی خبر کو ترستے رہیں گے بقول محسن نقوی کے، عمر اتنی تو عطا ہو میرے فن کو خالق میرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو ترسے سٹاف کالج میں میرے لیے بڑا اعزاز تھا کہ میں وہاں اپنے خیالات کا اظہار کرتا لیکن میں اپنی علالت کی وجہ سے نہ جا سکا ، ہمارے دوست ممتاز سیاستدان ڈاکٹر سعید الہی کے بھائی سے بھی ملاقات ہو جاتی جناب نوید الہیٰ صاحب مجھے فرح دیبا نے بتایا تھا کہ میں نے اس سلسلے میں آپ کا نام دیا ہے تو میں اپنی حاضری لگوا رہا ہوں اور مرحومہ انجانی پارسی خاتون ناول نگار باپسی سدھوا کی خدمات کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں ہمارے بہت سارے احباب اس سلسلے میں ان کے بھی یہی جذبات ہیں ہمارے سی ٹی این کے سربراہ جناب مسعود علی خان ائر کموڈور خالد چشتی ، سابق سیکرٹری اطلاعات حکومت پنجاب جناب شعیب بن عزیز ، میجر نجیب آفتاب محترمہ فردوس نثار ، شائلہ صفوان اور ہماری پی ایم ڈی سی کی سابق مینجر مریم شجاع اور مریم اعجاز کے جذبات بھی میرے ساتھ شامل ہیں ، باپسی سدھوا ایک پاکستانی ناول نگار اور مصنفہ ہیں جنہوں نے عالمی ادب میں اپنی اہمیت ثابت کی۔ ان کی تحریریں نہ صرف پاکستان کے معاشرتی مسائل کو اجاگر کرتی ہیں بلکہ انہوں نے دنیا بھر میں پاکستانی ثقافت اور تاریخ کو روشناس کرایا۔ باپسی سدھوا کا کام خواتین کے حقوق کی جدوجہد، نسلی امتیاز اور معاشرتی انصاف جیسے اہم موضوعات کو دستاویزی شکل میں پیش کرتا ہے۔ ان کی تحریر میں گہرائی اور شدت ہے، جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔باپسی سدھوا کا سب سے مشہور ناول (Cracking India) ہے، جس میں انہوں نے 1947 کی ہندوستان کی تقسیم کے دردناک منظرنامے کو پیش کیا ہے۔ اس ناول میں وہ تقسیم کے دوران لوگوں کی زندگیوں پر ہونے والے اثرات اور پاکستان اور بھارت کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کو بہت ہی باریکی سے بیان کرتی ہیں۔خدا روز بد دشمن کو نہ دکھلائے قفس کے سامنے جلتا تھا آشیاں اپنا اس ناول نے ان کو عالمی سطح پر شہرت بخشی اور ادب کی دنیا میں ان کا مقام مستحکم کیا۔ ان کی تحریریں ہر نسل کے لیے ایک سبق ہیں اور وہ ہمیشہ اپنے کام میں حقیقت اور انسانی جذبات کی گہرائی سے کام لیتی ہیں۔ان کی تحریروں کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے کرداروں کو زندہ اور حقیقت پسندانہ طریقے سے پیش کرتی ہیں۔ ان کی کہانیاں ہمیں انسانیت، محبت اور درد کے مختلف پہلوو¿ں سے روشناس کراتی ہیں۔باپسی سدھوا نے پاکستانی ادب کی دنیا میں ایک نیا باب کھولا اور اپنے کام کے ذریعے عالمی سطح پر پاکستان کی ادبی حیثیت کو اجاگر کیا۔ ان کا کام نہ صرف پاکستانی ادب کا سرمایہ ہے بلکہ عالمی ادب کا بھی اہم حصہ بن چکا ہے۔باپسی سدھوا کی مشہور تصانیف اور ناولThe Crow Eaters, (1978)The Pakistani Bride, (1983)Cracking India, (1988)An American Brat یہ ناول پڑھنے کے بعد مصنفہ کا مقام عالمی سطح پر خوش نظری اور احترام کا سزا وار قرار دیتا ہے میں ایک بار پھر فرادیبہ کا ممنون احسان ہو کہ انہوں نے مجھے یہ کالم لکھنے پڑیں تحریک دی اور ہم بھی اس تقریب میں روحانی طور پر موجود تھے سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں خاک میں کیا ہو گئیں کہ صورتیں پنہاں ہو گئیں

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.