سمجھ نہیں آرہا کہ حکومت کس سمت جارہی ہے،اسلم رئیسانی
خضدار میں بولان مائننگ کمپنی جو 1970ءکی دہائی سے کام کررہی ہے معاہدے کی مدت ختم ہونے کے باوجود کمپنی نے اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے
کوئٹہ (ویب ڈیسک )بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ایک گھنٹہ کی تاخیر سے ڈپٹی سپیکر سردار بابرخان موسیٰ خیل کی زیرصدارت شروع ہوا ۔ اجلاس میں جمعیت علماءاسلام کے رکن میر زابد علی ریکی نے پوائنٹ آف آرڈر پر ماشکیل زیرو پوائنٹ کی مسلسل بندش کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل بھی ایوان میں اس مسئلے کو اٹھا چکا ہوں مگر ماشکیل زیر و پوائنٹ اب تک بند ہے کسٹم حکام کسی کی بات سننے کو تیار نہیں اور نہ ہی وہ اس ایوان کو اہمیت دیتے ہیں انہوںنے
ڈپٹی سپیکر سے استدعا کی کہ کسٹم حکام کو بلوچستان اسمبلی طلب کرکے اس بابت بات کی جائے ۔ جس پر ڈپٹی سپیکر سردار بابرخان موسیٰ خیل نے کلکٹر کسٹم کو پیر کے روز ایوان میں طلب کرنے کی رولنگ دی ۔ اجلاس میں جمعیت علماءاسلام کے میر یونس عزیز زہری نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ خضدار میں بولان مائننگ کمپنی جو 1970ءکی دہائی سے کام کررہی ہے معاہدے کی مدت ختم ہونے کے باوجود کمپنی نے اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے کمپنی کے سربراہ کا دفتر کوئٹہ میں ہے میں نے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو ملاقات کی بجائے انہوںنے کہا ک
ہ وہ صرف فون پر بات کرسکتے ہیں جس سے میرا استحقاق مجروح ہوا ہے جس پر میں تحریک استحقاق لاﺅں گا انہوںنے کہا کہ اب خضدار میں صوبائی حکومت کو پچاس ہزار ایکڑا راضی کی الاٹمنٹ لیز کے لئے درخواست دی گئی ہے اور شنید ہے کہ یہ اراضی الاٹ ہونے جارہی ہے انہوںنے کہا کہ خضدار میونسپل ایریا میں پچاس ہزار ایکڑ اراضی اگر الاٹ کی گئی تو پھر شہر کو کہاں لے کر جائیں گے؟ ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے اگر پی پی ایل کو یہ اراضی دی گئی تو اس
پر ہم شدید احتجاج کریں گے ۔ سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی نے کہا کہ یہ نہایت اہم معاملہ ہے ماضی میں اس ایوان کی ایک کمیٹی بنی تھی جس میں میں اور ملک سکندر خان ایڈووکیٹ بھی شامل تھے جس نے یہ رپورٹ دی تھی کہ یہاں کوئی اسٹیٹ لینڈ نہیں بلکہ تمام قبائل کی اراضی ہے اگر کسی بھی وفاقی یا صوبائی ادارے کو کسی بھی مقصد کے لئے زمین چاہئے تو وہ قبائل سے بات کرے پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے یونس عزیز زہری کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہاں تمام اراضی صوبے میں آباد قبائل کی ہے مگر گزشتہ دنوں میں زیارت گیا تو وہاں علم ہوا کہ قبائل کی اراضی لوگوں کو الاٹ کی جارہی ہے یہی کچھ کوئٹہ میں مختلف قبائل کی اراضی کے ساتھ کیا جارہا ہے