بھٹو آج بھی زندہ ہے
فخر ایشیاء،فرزند پاکستان ،قائد عوام ،شہید ذوالفقارعلی بھٹو جو خود میں ایک تاریخ ہیں،اور 50 سال گزرنے کے باوجود آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہیں 5جنوری 1928 کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے، کون جانتا تھا کہ وہ بین الاقوامی قد آور سیاسی شخصیت کے روپ میں اُبھر کر سامنے آئیں گے، ان کے والد سر شاہ نواز بھٹو بھی سیاست کے میدان سے وابستہ رہے تھے۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ابتدائی تعلیم کے بعد اُنیس سو پچاس میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا سے سیاسیات کی ڈگری حاصل کی اور اُنیس سو باون میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصولِ قانون میں ماسٹرز کیا، تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے کراچی میں وکالت کا آغاز کیا اور ایس ایم لاء کالج میں بین الاقوامی قانون پڑھانے لگے۔شہیدذوالفقار علی بھٹو نے سیاست کا آغاز اُنیس سو اٹھاون میں کیا اور پاکستان کے پہلے آمر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت میں وزیر تجارت، وزیر اقلیتی امور، وزیر صنعت وقدرتی وسائل اور وزیر خارجہ کے قلمدان پر فائض رہے، ستمبر 1965ءمیں انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا موقف بڑے بھرپور انداز سے پیش کیا۔جنوری 1966ء میں جب صدر ایوب خان نے اعلان تاشقند پر دستخط کیے تو ذوالفقار علی بھٹو بڑے دلبرداشتہ ہوئے اور اسی برس وہ حکومت سے علیحدہ ہوگئے، اُنہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مسئلہ کشمیر کو مرکزی حیثیت دی۔شہید ذوالفقارعلی بھٹو نے دسمبر اُنیس سو سڑسٹھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی، جو بہت جلد پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت بن گئی۔ عوامی جلسوں میں عوام کے لہجے میں خطاب اُنہی کا خاصا تھا۔اُنیس سو ستر کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی نے م نمایاں کامیابی حاصل کی۔ 1971ءمیں پاکستان کے صدر اور پھر 1973ءمیں پاکستان کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں بے پناہ کارنامے انجام دیئے، اُنہوں نے اُنیس سو تہتتر میں ملک کو پہلا متفقہ آئین دیا، یہی نہیں اُنکے دور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کو آج بھی اُنکی بڑی کامیابی قرار دیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا سہرا بھی ذوالفقار علی بھٹو کے سرجاتا ہے۔پیپلزپارٹی کا دورِ حکومت ختم ہونے کے بعد اُنیس سو ستتر کے عام انتخابات میں ملک میں حالات کشیدہ ہوئے، جس کے نتیجے میں پانچ جولائی اُنیس سو ستتر کو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کردیا۔ملک میں ہونیوالے مظاہروں کے نتیجے میں قائدِ عوام کو دوبار نظر بند کرکے رہا کیا گیا، بعدازاں شہید ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک نام نہاد جھوٹے مقدمہ میں گرفتار کرلیا گیا اور 18 مارچ 1977ءکو انہیں موت کی سزا سنادی گئی۔ذوالفقار علی بھٹو نے اس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی، جس میں تین ججوں نے انہیں بری کرنے کا اور تین ججوں نے انہیں سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا۔
پاکستانی سیاست کے اُفق کے اس چمکتے ستارے کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں 4اپریل اُنیس سو اُناسی کو پھانسی دیدی گئی لیکن پاکستان کی سیاست آج بھی اُن کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔ان کا لگایا ھوا پودا ” پیپلز پارٹی”آج ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ اور اس درخت کی آبیاری ان کے اولاد شہید محترمہ بینظیر بھٹو ، شہید میر مرتضیٰ بھٹو ،شہید شاھنواز بھٹو، ان کے سینکڑوں عقیدت مندوں نے اپنے خون سے کی۔ ان کے نواسے چیرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں آج بھی پیپلز پارٹی اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ بلوچستان میں بھی پیپلز پارٹی ایک مضبوط عوامی قوت بن چکی ہے۔ جو صوبائی قائدین اور سرگرم سنئیر کارکنوں کے مرہونِ منت ہے ۔انشااللہ مستقبل ھمارا ہے ۔
شھید ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدہ تاشقند کے بعد ایوب خان سے اختلافات کی وجہ سے وزیر خارجہ کے عہدے سے استعیفیٰ دے دیا اس نے ایوب شاہی کو چیلنج کرنے کے لیئے عملی سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا اس طرح انہوں نے1967 میں پاکستان پیپلز پارٹی کا بنیاد ڈالا شھید بھٹو ایک زیرک اور مدبر سیاستدان تھے انہوں نے اصولوں پر کبھی بھی سودے بازی نہیں کی اور آخری دم تک سامراجی قوتوں سے لڑتے رہے۔آج قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کا 41واں یوم شھادت ہے اس موقعے پر انکی سیاسی زندگی کا جائزہ لینا ضروری ہے جب 1971 میں جنرل یحیٰ خان کی بد اعمالیوں اور غلطیوں کی وجہ سے ملک دو لخت ہوا تو باقی ماندہ پاکستان کا اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کیا گیا جس وقت اقتدار شھید بھٹو کے حوالے کیا گیا اس وقت پاکستان اپنے بد ترین دور سے گذر رہا تھا اور پاکستان کا وجود چکنا چور ہو چکا تھا 1971 کے جنگ کے بعد فوج کا مورال بھی ختم ہو چکا تھا اس لیئے پاکستانی قوم کو ایک مسیحا کی ضرورت تھی اور عوام کی امیدیں فقط ذوالفقار علی بھٹو میں جمیں ہوئی تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک مسیحا کے روپ میں سامنے آگئے انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی خارجہ پالیسی پر زیادہ توجہ دیا انکی ذھانت اور دور اندیشی کی وجہ سے عالمی دنیا کے اندر پاکستان کا کھویا ہوا ساکھ اور وقار دوبارہ بحال ہوا چین اور لبیا کے علاوہ دیگر عرب ممالک بھی پاکستان کے دوست بن گئے. ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے قائدانہ صلاحیتوں اور سیاسی بصیرت کے بدولت شملہ معاہدے کے تحت ھندوستان سے نوے ھزار فوجی جوان اور پانچ ھزار مربع میل زمین آزاد کرواکر اہم کارنامہ سرانجام دیا ہے شہید بھٹو نے اپنے دور حکومت میں مختلف ترقیاتی منوصوبوں پر عمل شروع کیا ان میں 1973 کے متفقہ آئین کے علاوہ پاکستان سٹیل مل کا قیام، ٹیکسیلا میں ہیوی میکینیکل کامپلیکس، میٹرک تک تعلیم مفت، مزدورں کے بھلائی کے لیئے لیبر پالیسی، بے زمین ہاریوں میں مفت زمین کی تقسیم اور لاکھوں لوگوں بیرون ملک میں روزگار دلانے کے علاوہ بھت سارے منصوبے شامل ہیں اس کے علاوہ عالم اسلام کو ایک پلیٹ فارم پر کٹھا کرنے کے لیئے 1974 میں اسلامی سربراہی کانفرس کا انقعاد کروا نا شہید بھٹو کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ 1960 اور 1970 کے دھائی میں دنیا کے اندر بہت سارے اھم سیاسی لیڈر پیدا ہوئے جن میں سعودی عرب کے شاھ فیصل، شام کے صدر حافظ الاسد، ایران کے امام خمینی، مصر کے جمال عبد الناصر،انور سادات، اردن کے شاھ حسین، آمریکا کے صدر جان ایف کینیڈی، جنوبی افریکا کے نیلسن منڈیلا، انڈونیشیا کے سوئیکارنو، پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات، لبیا کے کرنل قذافی، ھندوستان کے مسز اندرا گاندھی، برطانیہ کے مارگریٹ تھیچر، ملائیشیا کے مھاتیر محمد اور الجزائر کے صدر بومدین شامل ہیں۔ لیکن سیاسی تاریخدانوں کا خیال ہے ذوالفقار علی بھٹو دنیا کے دس بڑے ملکوں کے علاوہ ایشیا کے سب سے بڑے لیڈر تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو بیشمار صلاحیتوں کے مالک تھے انکی یاداشت بھت تیز اور حیران کرنے والا تھا انکو تمام پڑھے کتاب یاد رہتے تھے اور ٹیبل ٹاک کے بڑے ماہر تھے اور اپنی مخالفین کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتے تھے اور عوامی جلسوں میں عوام کے دلوں کو جیتنے کا فن بھی رکھتے تھے ذوالفقار علی بھٹو انتہا درجے کے حاضر دماغ تھے انکی حاضر دماغی کے دو مثال پیش کرتا ہوں جب وہ 1963 میں بحیثیت وزیر خارجہ آمریکا کے دورے پر گئے تو انکی اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی سے ملاقت ہوئی صدر کینیڈی بھٹو صاحب کے ذہانت سے بہت متاثر تھے دوران گفتگو صدر کینیڈی نے کہا مسٹر بھٹو اگر آپ امریکی شہری ہوتے تو آپ یقینن امریکا کے وزیر ہوتے اس پر بھٹو صاحب نے جواب دیا مسٹر پریزیڈنٹ اگر میں آمریکا کا شہری ہوتا تو میں منسٹر نہیں آمریکا کا صدر ہوتا صدر کینیڈی پھر کہا مسٹر بھٹو آپ جانتے ہیں آج آپ دنیا کے پاور ھیڈ کوارٹر وائیٹ ھاﺅس میں کھڑے ہوئے ہیں اس پر بھٹو صاحب نے جواب دیا ہاں مجھے پتہ ہے آج وائیٹ ھاﺅس میرے قدموں کے نیچے ہے یہ تھی شہید بھٹو کی ذہانت اور حاضر دماغی کی مثالیں ذوالفقار علی بھٹو ایک بھادر اور بیباک لیڈر تھے انکو اپنے رفقائ مشورہ دیتے تھے کہ آپ امریکا سے مت ٹکرائ کیونکہ امریکن انتقام لینے کے معاملے میں بڑے سنگدل ہوتے ہیں اس کے علاوہ سرمایہ داروں کے خلاف بھی مت بولو کیونکہ تاجر اور سرمایہ دار طبقہ آپ کے خلاف ہو جائینگے اور مذھبی جماعتوں کے خلاف بھی بات نہ کرو اور فوج کو بھی بیرکوں تک محدود نہ کرو ورنہ فوج اور مذھبی جماعتیں آپکا گھیرائ تنگ کرینگے اس لیئے کچھ نرمی کریں تاکہ یہ سسٹم چلتا رہے اس پر بھٹو صاحب اپنے دوستوں کو جواب میں کہتے تھے میرا بھی دل کہتا ہے میں مصلحت سے کام لوں مگر کیا کروں جب میں لاڑکانہ، لاھور، پشاور اور بلوچستان کے شہروں اور پسماندہ علاقوں میں رہنے والے غریب مزدوروں اور بے سہارا لوگوں کی حالت دیکھتا ہوں تو میں اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں کیا ذوالفقار تم بھی مصلحت سے کام لوگے؟ تو پھر غریب اور بے سہارا قوم کا تقدیر کون بدلیگا بھرحال شہید بھٹو کے خلاف سازشوں کا آغاز اس وقت شروع ہوا جب امریکا کے وزیر خارجہ ھینری کسنجر 1976 میں پاکستان کے دورے پر آیے تھے انھوں نے بھٹو صاحب سے اپنے ملاقات کے دوران پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے پر اپنے تحفظات کا اظھار کیا شھید بھٹو نے ھینری کسنجر کا بات ماننے سے انکار کر دیا جب امریکی وزیر خارجہ واپسی کے وقت جھاز پر سوار ہو رہے تھے تو انہوں نے بھٹو صاحب کو مخاطب ہو کر کہا جب ٹرین سامنے سے آئے تو عقلمند انسان پٹڑی سے ہٹ جاتا ہے مگر تم یاد رکھو ہم تمہیں نشان عبرت بنائینگے بھرحال شہید بھٹو اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے جسکی وجہ سے سامراجی قوتوں نے بھٹو صاحب کو ختم کرنے کا اصولی طور فیصلہ کر لیا. جب 1977 میں شہید بھٹو نے عام انتخابات کروائے تو اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی مگر حذب اختلاف کے جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قومی اتحاد نے دھاندلی کے الزام لگا کر نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا اور بھٹو حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز کیا