حضرت شیخ الہندؒ کے خوابوں کی تعبیر
از مفتی عبدالرؤف چوہدری
برصغیر میں انگریز کی آمد سے قبل پاک وہند کے باشندے اپنی مستقل پہچان رکھتے تھے۔ اپنا کلچر اور اپنی تہذیب وثقافت رکھتے تھے۔ تعلیم وتربیت عام تھی۔ نناوے فیصد لوگ پڑھے لکھے تھے۔ بالخصوص مسلمان جہاں جاتے تھے اپنی اسلامی روایات واقدار کا اثر چھوڑتے تھے۔ تمام اقوام اتحاد ویکجہتی کی مالی میں پروئی ہوئی تھی۔ قومیت، لسانیت، عصبیت اور مسلکی اختلافات کا دور دور تک کوئی زرہ نظر نہیں آتا تھا۔
لیکن جب انگریز نے اس زرخیز علاقے میں اپنے پنجے گاڑے تو اس نے سب سے پہلے یہاں میں بسنے والے تمام مذاہب کے افراد کو ذہنی احساس کمتری میں مبتلا کیا۔ باشندگانِ برصغیر کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ تمہارا موجودہ کلچر اور تہذیب وثقافت اتنی اہمیت وطاقت نہیں رکھتی کہ یہ آنے والے جدت کے دور میں تمہارے کام آسکے۔ اگر مستقبل میں کامیابی چاہتے ہو تو تمہیں اس دور کی جدیدیت کو اپنانا ہوگا۔ جب لوگ اس کشمکش میں مبتلا ہوگئے تو انہوں نے مستقبل کی جدت کے پیش نظر اپنی روایات واقدار کا اپنے ہاتھوں گلا گھونٹ دیا۔
انگریز نے دوسرا کام یہ کیا کہ ہندوستان کے باسیوں کو قومیت، لسانیت اور مسلک کی بنیاد پر تقسیم کردیا تاکہ ان کی قوت ٹوٹ جائے اور یہ ہمارا مقابلہ کرنے کی بجائے آپس میں دست و گریبان رہیں اور ہم ان پر قابض ہوکر انہیں ذہنی غلام بنا لیں اور ان پر ایک طویل زمانہ تک حاکم بن جائیں جسے یہ چاہتے ہوئے بھی دور نہ کر سکیں۔
انگریز کی آمد سے قبل ہمارا تعلیمی نظام انتہائی مضبوط اور منظم تھا۔ دینی وعصری علوم کی درسگاہیں یکجا تھیں۔ اگر وہاں سے ہمیں بڑے بڑے مفسر ومحدث، مصنف و تاریخ دان ملتے تھے تو وہیں سے حکماء وادباء اور فلاسفر بھی ملتے تھے۔ انگریز نے ہمیں یہاں پھر احساس کمتری میں مبتلا کیا اور یہ احساس دلایا کہ تمہارا نظام تعلیم ناقص ہے۔ یہ مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ گویا کہ اس نے ہندوستان کے نظام تعلیم کو بھی دینی تعلیم اور عصری تعلیم کے نام پر تقسیم کر دیا۔ اور دو بڑے اور طاقت ور گروہوں کو ”ملا ومسٹر“ کے نام سے آمنے سامنے کر دیا۔ یہیں سے ہماری تعلیمی دینی وعصری درسگاہیں الگ ہوئیں اور ملا ومسٹر ایک دوسرے کو اپنا مخالف سمجھنے لگ گیا۔
ایک وقت آیا کہ یہ خلیج اتنی بڑھ گئی کہ فریقین ایک دوسرے کو اپنے خیالات وافکار کا دشمن سمجھنے لگے۔ ایسے حالات میں ضرورت تھی ایک ایسے مرد جری کی جو ان حقائق کو سمجھتے ہوئے، اپنے اور بیگانوں کے نشتروں کی پرواہ کیے بغیر امت مسلمہ کے ان دو فریقوں کو پھر سے ایک لڑی میں پرونے کے لیے محض باتیں نہیں بلکہ عملی اقدامات کرے۔ چنانچہ بے شمار میدانی کاموں کی طرح اللہ تعالیٰ نے اس عظیم کام کے لیے بھی جس نامور شخصیت کا انتخاب کیا دنیا اسے ”شیخ الہند مولانا محمود حسن“ کے نام سے جانتی ہے۔
حضرت شیخ الہندؒ رحمہ اللہ مالٹا کی قید سے رہائی پاکر جب واپس آئے تو جہاں انہوں نے امت مسلمہ کو قرآن کریم سے جوڑنے کا فریضہ سر انجام دیا، جہاں انہوں مسلمانوں کے آپس کے اختلافات کو ان کے لیے زہر قاتل بتایا وہیں پر انہوں نے ”ملا ومسٹر“ کی اس طبقاتی تفریق کے خاتمے کے لیے باقاعدہ عملی اقدامات کیے۔ آپ رحمہ اللہ باوجود ضعیف العمری اور شدید بیماری کے جامعہ ملیہ اسلامیہ نیشنل یونیورسٹی علی گڑھ کی دعوت پر بنفس نفیس وہاں تشریف لے گئے اور وہاں پر جو خطبہ صدارت ارشاد فرمایا اس کے چند اقتباس یہ ہیں:
آپ نے فرمایا: میں نے اس پیرانہ سالی اور علالت ونقاہت کی حالت میں آپ کی دعوت پر اس لیے لبیک کہا کہ میں اپنی گم شدہ متاع یہاں پانے کا امیدوار ہوں۔ اے نونہالانِ وطن! جب میں دیکھتا ہوں کہ میرے اس درد کے غم خوار (جس سے میری ہڈیاں پگھلی جارہی ہیں) مدرسوں اور خانقاہوں میں کم اور سکولوں وکالجوں میں زیادہ ہیں تو میں نے اور میرے چند مخلص احباب نے ایک قدم علی گڑھ کی طرف بڑھایا اور اس طرح ہم نے ہندوستان کے دو تاریخی مقاموں (دیوبند اور علی گڑھ) کا رشتہ جوڑا۔ کچھ بعید نہیں کہ بہت سے نیک نیت بزرگ میرے اس سفر پر نکتہ چینی کریں اور مجھ کو اپنے مرحوم بزرگوں کے مسلک سے منحرف بتائیں۔ لیکن اہل نظر سمجھتے ہیں کہ جس قدر میں بہ ظاہر علی گڑھ کی طرف آیا ہوں اس سے کہیں زیادہ علی گڑھ میری طرف آیا ہے۔
اور فرمایا ہماری عظیم الشان قومیت کا اب یہ فیصلہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اپنے کالجوں میں بہت سستے داموں کے غلام پیدا کرتے رہیں، بلکہ ہمارے کالج نمونہ ہونا چاہئیں بغداد اور قرطبہ یونیورسٹیوں کے اور ان عظیم الشان مدارس کے جنہوں نے یورپ کو اپنا شاگرد بنایا اس سے پیشتر کہ ہم ان کو اپنا استاد بناتے۔
(علماء ہند کا شاندار ماضی ج 5 ص 375/76)
آج بحمداللہ تعالیٰ مسلم سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان حضرت شیخ الہندؒ کی اس سوچ وفکر کو عملی جامہ پہنانے کے لیے میدان عمل میں کھڑی ہے۔ دینی وعصری تعلیمی اداروں سے نکلنے والے افراد کو یکجا کرنے کے لیے حضرت شیخ الہندؒ نے جو خواب دیکھا تھا آج ایم ایس او پاکستان اس کی عملی تعبیر بن کر اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ حضرت شیخ الہندؒ کی سوچ کے مطابق اگر عصری تعلیم یافتہ طبقے کو اسی سوچ پر لانا چاہتے ہیں جو شیخ الہندؒ چاہتے تھے تو ہمیں ان تعلیمی اداروں کا رخ کرنا پڑے گا جہاں یہ طلبہ تعلیم پذیر ہیں۔ ہمیں اپنے اپنے تعلیمی نظام میں بند ہونے کی بجائے امت کے ان معماروں کا بھی سوچنا ہوگا جو امت مسلمہ کا سرمایہ ہیں۔ جو وطن عزیز کی جغرافیہ سرحدوں کے امین اور پہرے دار ہیں۔ اگر ہم نے یہ سوچ کر ان کو چھوڑ دیا کہ ان کا نظام الگ ہے ہمارا نظام الگ ہے تو پھر کچھ بعید نہیں کہ یہ شیطانی خیالات اور عقائد ونظریات رکھنے والے افراد کے ہتھے چڑھ جائیں اور اپنی صلاحیتوں کو باطل قوتوں کے لیے صرف کریں۔ کیونکہ بکری جب ریوڑ سے الگ ہوجائے وہ بھیڑیے کا لقمہ بن جاتی ہے۔
ایم ایس او پاکستان عصری تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کی ایسی کردار سازی چاہتی ہے تاکہ جب یہ معاشرے کی کسی بھی فیلڈ میں بیٹھ کر اپنے معاملات سرانجام دیں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے جہاں ہم ایک محب وطن ہیں وہیں پر ہم سچے مسلمان بھی ہیں۔ بطور مسلمان ہم پر کون کون سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
اور مسلم سٹوڈنٹس آرگنائزیشن دینی تعلیمی اداروں کے طلبہ میں اس لیے کام کرنا چاہتی ہے تاکہ ملک وملت کے یہ تابندہ ستاروں کا ہاتھ معاشرے کی نبض پر ہو۔ انہیں معلوم ہو کہ ہم نے کس انداز میں اپنی خدمات سرانجام دینی ہیں۔ جب دینی وعصری تعلیم یافتہ طبقات مل کر چلیں گے تو وہ نظام رائج ہوگا جس کی عملی تصویر ہمارے اکابر نے پیش کی تھی اور بانیان پاکستان نے جس کا خواب دیکھا تھا۔