کوئٹہ ماڈل شہر بن سکتا ہے۔۔۔!

0 155

کوئٹہ، جو کسی زمانے میں “باغات کا شہر” کہلاتا تھا، ایک ایسا مقام تھا جہاں قدرت کی فیاضی اور انسانی سادگی آپس میں گھل مل جاتی تھیں۔ زرغون، چلتن اور تختِ سلیمان جیسے پہاڑوں کے دامن میں بسا یہ شہر، اپنے سیب، انار، آڑو، بادام اور انگور کے باغات کی بدولت نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے برصغیر میں ممتاز مقام رکھتا تھا۔
ان باغوں میں صرف پھل ہی نہیں اگتے تھے، بلکہ تہذیب، سکون اور مہمان نوازی کی فصل بھی پروان چڑھتی تھی۔ شہر کی فضا میں خنکی، صاف ستھری ہواؤں میں مٹی کی خوشبو، اور باسیوں کے چہروں پر اپنائیت کا عکس، کوئٹہ کو ایک خاص کشش بخشتے تھے۔
یہ وہ دور تھا جب لوگ کوئٹہ کو صرف ایک جغرافیائی مقام نہیں بلکہ ایک طرزِ زندگی سمجھتے تھے — ایسا طرزِ زندگی جو فطرت سے ہم آہنگ، ثقافت سے جڑا ہوا، اور خالص انسانی رشتوں پر مبنی تھا۔— آج اُس سکون کی سانس کو ترس رہا ہے۔ ماضی کی دھیمی روشنی اب دھوئیں کی دبیز تہہ میں گم ہو چکی ہے۔ ہر طرف شور ہے، جیسے شہر خود اپنے وجود سے بے زار ہو چکا ہو۔ صبح کے اوقات میں اسکولوں، دفاتر اور مارکیٹوں کی طرف رواں ٹریفک کا سیلاب جیسے ہر ذی روح پر ایک نیا امتحان تھوپ دیتا ہے۔ نہ کوئی ٹریفک پلان ہے، نہ کوئی متبادل راستہ — ہر گلی، ہر چوراہا، اور ہر موڑ ایک آزمائش گاہ ہے۔
اب ضروری ہو چکا ہے کہ ہم شکایتوں کے دائرے سے نکل کر، ٹھوس حل اور دیرپا حکمت عملی کی جستجو میں قدم رکھیں۔”۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ موجودہ شہری حدود اپنی گنجائش سے تجاوز کر چکی ہیں، اور جب کوئی برتن لبریز ہو جائے تو اسے کسی اور ظرف میں منتقل کیے بغیر سنبھالنا ممکن نہیں ہوتا۔ کوئٹہ بھی اب ایسا ہی ایک لبریز شہر ہے — جسے بچانے کا واحد راستہ اس کی جسمانی توسیع اور متبادل شہری مرکزوں کی ترقی ہے۔
اس تناظر میں ہمیں اپنی نظریں شہر کے مضافاتی علاقوں کی طرف پھیرنی ہوں گی۔ وہ علاقے جو ابھی تک بے ترتیبی کی لپیٹ میں نہیں آئے، جنہیں سنوارا جا سکتا ہے، جنہیں ایک نئے ماڈرن کوئٹہ کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔ سریاب، درخشاں، سرہ غڑگئی، نوحصار، چشمہ چوزئی، برگ، ناہور، یارو، بوستان، کچلاک۔ یہ صرف جغرافیائی نام نہیں بلکہ شہری ترقی کے لیے خام خزانے ہیں، ایسی زمینیں جو آج بھی ہزاروں ایکڑ پر پھیلی ہوئی، بے ترتیب تو ہیں، مگر بے حد کارآمد ہو سکتی ہیں۔ ان علاقوں میں موجود زمین کی نوعیت ایسی ہے جو نہ صرف رہائشی ترقی کے لیے موزوں ہے بلکہ معاشی، تعلیمی، زرعی اور صنعتی ترقی کے مراکز میں بھی بدلی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر سریاب اور نوحصار شہر سے متصل ہونے کی وجہ سے یہاں کم لاگت ہاؤسنگ اسکیمز، پرائمری اسکولز، اور سستی پبلک ٹرانسپورٹ سہولیات دی جا سکتی ہیں تاکہ کم آمدنی والے طبقے کو بہتر معیارِ زندگی فراہم کیا جا سکے۔ بوستان اور کچلاک: اپنی اسٹریٹجک لوکیشن کی بنیاد پر ان علاقوں کو صنعتی زون، کولڈ اسٹوریج، اور زرعی مارکیٹ کے طور پر ڈیولپ کیا جا سکتا ہے، تاکہ نہ صرف روزگار کے مواقع بڑھیں بلکہ شہر میں موجود تجارتی دباؤ بھی کم ہو۔چشمہ اچوزئی، یارو، اعبرگ: یہاں قدرتی ماحول اور نسبتاً کھلا علاقہ موجود ہے۔ ان علاقوں میں ماڈرن طرز کی سوسائٹیز، گرین پارکس، تعلیمی ادارے، اور ماحول دوست سڑکوں کا جال بچھایا جا سکتا ہے۔درخشاں اور سرہ غڑگئی: ان علاقوں کو ٹیکنالوجی پارکس، ووکیشنل انسٹیٹیوٹس، اور میڈیکل زونز کے لیے مخصوص کیا جا سکتا ہے تاکہ شہری ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی سرمایہ بھی پروان چڑھے۔ مگر بدقسمتی سے ان تمام علاقوں کی موجودہ حالت ایک جمود کا شکار ہے۔ بیشتر جگہوں پر نہ تو کوئی باضابطہ زمین کا ریکارڈ موجود ہے، نہ زوننگ کی پالیسی، نہ ماسٹر پلان، اور نہ ہی کسی ادارے کی واضح دلچسپی۔ پرانی اور غیر منصوبہ بند کیلی آبادیاں، کچے راستے، نالیوں کی عدم موجودگی، اور انفراسٹرکچر کا شدید فقدان ان علاقوں کو ماضی کے کسی بھولے بسرے قصبے کی مانند بناتا ہے۔ مگر یہی پسپائی، سب سے بڑی قوت بھی بن سکتی ہے۔ کیونکہ یہ ایک خالی کینوس ہے، جہاں رنگ بھرنے کا اختیار ابھی بھی ہمارے پاس ہے۔ اگر حکومت، مقامی ادارے، نجی شعبہ، اور عوام مشترکہ طور پر ان علاقوں میں ماسٹر پلاننگ، سروسز کی فراہمی، اور قانونی تحفظات کے ساتھ ترقیاتی عمل کا آغاز کریں تو نہ صرف کوئٹہ کا بوجھ کم ہو گا، بلکہ یہ علاقے خود ایک مکمل متبادل شہری شناخت بن سکتے ہیں۔ اس وقت شہر کی آبادی بیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، مگر زمین کا دائرہ وہی ہے جو کئی دہائیاں پہلے تھا۔ جہاں ایک وقت میں سو خاندان بستے تھے، وہاں اب ہزاروں افراد رہ رہے ہیں۔ وہ بھی بغیر کسی منصوبہ بندی، بغیر کسی انفراسٹرکچر کے۔ سڑکیں وہی پرانی ہیں، مگر گاڑیاں اب ہزار گنا بڑھ چکی ہیں۔ نہ پیدل چلنے والوں کی گزرگاہیں محفوظ ہیں، نہ ڈرائیوروں کے لیے واضح رہنمائی موجود ہے۔
گلیاں بے ڈھنگی ہیں۔کچھ اس قدر تنگ کہ وہاں دو افراد ایک ساتھ نہیں گزر سکتے، کچھ ایسی کہ نالیاں اُبل کر گزرنے والوں کے قدم چومتی ہیں۔ غیر قانونی تعمیرات نے ہوا کے راستے بند کر دیے ہیں۔ عمارتیں ایسے اُگی ہیں جیسے کسی نے بغیر کسی منصوبے کے، بغیر کسی اصول کے، بس اینٹ پر اینٹ رکھ دی ہو۔ شہر کے چوراہے اب ترقی کی علامت نہیں رہے، بلکہ ٹریفک جام، ہارنوں کی چیخ، اور ایک دوسرے پر برستی نظروں کے تھپیڑوں کے عکاس بن چکے ہیں۔
کوئٹہ ایک گنجان، بے قابو، اور دم گھونٹنے والا شہر بنتا جا رہا ہے۔ ایک ایسا شہر جہاں زندگی گزارنا نہیں، بلکہ ہر روز اسے سر کرنا ایک معرکہ بن چکا ہے۔ بچے اسکول پہنچنے سے پہلے تھک جاتے ہیں، مریض اسپتالوں تک پہنچنے سے پہلے وقت سے ہار مان لیتے ہیں، اور بزرگ گھروں سے باہر قدم نکالنے سے گھبراتے ہیں۔
یہ وہی کوئٹہ ہے جس کے بارے میں بزرگ کہتے تھے کہ یہاں “سانس لینا عبادت کی طرح تھا” مگر آج ہر سانس میں گرد، شور، اور مایوسی شامل ہے۔ شہر جیسے اپنے ہی وزن تلے دب چکا ہو۔ ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ ہم نے اس شہر کے ساتھ بدسلوکی کی ہے۔ اور اب وقت ہے دنیا بھر میں درجنوں ممالک نے شہری بحران کے حل کے لیے متبادل شہر بسائے، اور وہ بھی ایک مکمل قانونی و مالیاتی نظام کے تحت۔ ان میں کچھ ماڈلز بین الحکومتی معاہدوں (G2G Agreements) پر مبنی تھے، کچھ بین الاقوامی کمپنیوں کی سرمایہ کاری (FDI) سے بنے، اور کچھ بین الاقوامی مالیاتی اداروں جیسے ورلڈ بینک، ADB، یا IMF کی معاونت سے وجود میں آئے۔ قانونی طور پر زیادہ تر ممالک نے شہری ترقی کے لیے مخصوص قوانین اور ایکٹ منظور کیے، جو زمین کے حصول، زوننگ، ماحولیاتی منظوری، ٹیکس استثنیٰ، اور سرمایہ کار کو تحفظ فراہم کرتے تھے۔ مثال کے طور پر، ملائشیا کے پُتراجایا شہر کو “Putrajaya Corporation Act 1995” کے تحت ایک خودمختار ادارہ بنا کر چلایا گیا۔ اس شہر کے ماسٹر پلان میں تمام سرکاری دفاتر کو کوالالمپور سے منتقل کیا گیا، جس کے لیے جاپان، کوریا اور چین کی کمپنیوں نے Hybrid PPP-BOT ماڈل کے تحت اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ انفراسٹرکچر کی ذمہ داری Japanese firm Mitsubishi Heavy Industries اور South Korean firm POSCO E\&C نے لی، جنہوں نے شہر میں سمارٹ انفراسٹرکچر بچھایا، اور مقررہ مدت کے بعد یہ سسٹمز حکومت ملائشیا کے حوالے کیے۔
مصر میں نیو کیپیٹل سٹی 2015 میں “Presidential Decree No. 57” کے تحت شروع کیا گیا، جس کے بعد مصر کی حکومت نے China State Construction Engineering Corporation (CSCEC) کے ساتھ 45 بلین ڈالر کا معاہدہ کیا۔ اس میں شہر کی ماسٹر پلاننگ، سڑکیں، بجلی، اور حتیٰ کہ گورنمنٹ زون کی عمارات تک شامل تھیں۔ چینی کمپنی نے اسے EPC+F ماڈل کے تحت بنایا — یعنی Engineering, Procurement, Construction + Financing — اور یہ معاہدہ تھا کہ مخصوص مدت کے بعد ملکیتی حقوق حکومت مصر کو واپس دیے جائیں گے۔
برازیلیا، برازیل 1956 میں “Plano Piloto” کے تحت بسا، جسے آئینی ترمیم کے ذریعے ملک کا نیا دارالحکومت قرار دیا گیا۔ اس کی تعمیر میں Lucio Costa اور Oscar Niemeyer جیسے معماروں نے حصہ لیا، اور ورلڈ بینک و امریکی اداروں نے ابتدائی انفراسٹرکچر کے لیے قرضے فراہم کیے۔
کازاخستان کے آستانہ (نور سلطان) کو 1997 میں دارالحکومت بنانے کے لیے ملک نے “Presidential Resolution No. 406” منظور کی۔ یہاں کوریا اور ترکی کی کمپنیوں نے Design-Build-Transfer ماڈل کے تحت بڑے پروجیکٹ کیے — خاص طور پر KOLON Global Corporation نے یہاں ٹرانسپورٹ اور ہاؤسنگ سسٹمز تعمیر کیے۔
کینیا کا کونزا سٹی “Konza Technopolis Development Authority Act 2012” کے تحت ایک آزاد ادارہ بنا، جس نے امریکی، جرمن، جنوبی افریقی اور چینی کمپنیوں کو سرمایہ کاری کی کھلی دعوت دی۔ IBM، Oracle، Huawei، اور Samsung نے یہاں R\&D سینٹرز کے ساتھ ساتھ سڑکیں، انٹرنیٹ گرڈ، اور سرکاری دفاتر بنانے میں شراکت کی۔
شینژین، چین کو 1980 میں “Special Economic Zone Act” کے تحت اعلان کیا گیا۔ وہاں ہانگ کانگ، جاپان، اور یورپی کمپنیوں نے ٹیکس چھوٹ، زمینی سبسڈی اور مکمل خودمختار پلاننگ اتھارٹی کے ساتھ سرمایہ کاری کی۔ یہ ماڈل government-driven + investor-secured infrastructure کہلاتا ہے۔
نیوم، سعودی عرب کو “Vision 2030 Act” اور Royal Decree کے تحت پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کے ذریعے فنڈ کیا گیا، مگر اس میں شراکت دار بین الاقوامی کمپنیوں جیسے AECOM, McKinsey, Boston Dynamics شامل ہیں۔ یہاں ہر چیز — پانی، بجلی، پولیسنگ، ٹریفک کنٹرول ٹیکنالوجی سے کنٹرول کی جائے گی، اور کئی کمپنیوں کو “Operate and Exit” ماڈلز پر اجازت دی گئی ہے۔
یہ تمام شہر اس لیے کامیاب ہوئے کیونکہ وہاں ایک واضح قانون، شفاف اتھارٹی، زمین کی کلیئرنس، عوامی و نجی شعبے میں ہم آہنگی، اور طویل مدتی وژن موجود تھا۔ کسی شہر کی منصوبہ بندی صرف انجینئرز یا معماروں کا کام نہیں ۔ یہ پالیسی ساز، قانون ساز، معیشت دان، سرمایہ کار، اور سب سے بڑھ کر عوام کا اجتماعی پراجیکٹ ہوتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کوئٹہ کے لیے ہمارا وژن کیا ہے؟ کیا ہم بھی Quetta Region Development Authority Act، یا Greater Quetta City Act جیسا قانون لا سکتے ہیں؟ کیا ہم QDA کو ایک خودمختار ماسٹر پلاننگ اتھارٹی بنا سکتے ہیں جو زمین کی تقسیم، زوننگ، ماحولیاتی منظوری، سرمایہ کاری کی منظوری، اور قانونی تحفظ کا مکمل اختیار رکھتی ہو؟ کیا ہم بین الاقوامی کمپنیوں کو ماحول دوست ہاؤسنگ، جدید پبلک ٹرانسپورٹ، سولر انرجی سسٹمز، اور صنعتی زون بنانے کی دعوت دے سکتے ہیں؟ اگر ہم اس مجوزہ حکمتِ عملی پر سنجیدگی سے عملدرآمد کریں تو کوئٹہ نہ صرف اپنے بکھرتے ہوئے سانسوں کو پھر سے مجتمع کر سکے گا، بلکہ ایک متوازن، مربوط اور پائیدار ترقی کی مثال بھی بن سکتا ہے۔ شہر کا موجودہ مرکز جو آج گنجان، آلودہ، اور مسائل کا گڑھ بن چکا ہے ۔ آہستہ آہستہ دباؤ سے آزاد ہوگا، اور ایک ثقافتی، تاریخی اور ادارتی مرکز کے طور پر اپنی اصل حیثیت میں واپس آئے گا۔
مضافاتی علاقوں میں نئی منصوبہ بندی کے تحت آباد ہونے والی بستیاں شہری سہولیات، بنیادی ڈھانچے اور جدید ضروریات سے آراستہ ہوں گی۔ اس سے لوگوں کا معیارِ زندگی بلند ہوگا، روزگار کے مواقع بڑھیں گے، تعلیم و صحت تک رسائی بہتر ہوگی، اور لوگوں کو اپنے ہی شہر میں ترقی محسوس ہوگی۔ کوئٹہ ایک بار پھر سانس لینے کے قابل شہر بنے گا، نہ کہ ایک بوجھ تلے دبا ہوا میدانِ جنگ۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب شہر کا دباؤ نئے زونز میں منتقل ہوگا، اور اندرونِ شہر کو heritage zoning کے ذریعے تحفظ دیا جائے گا، تو تاریخی عمارتیں، پرانی گلیاں، باغات، مساجد، کوئٹہ کلب، سنڈمن ہسپتال، اور دیگر یادگاریں محض ماضی کا عکس بننے کے بجائے ہماری اجتماعی شناخت کی صورت محفوظ رہیں گی۔
شہر کو وسعت دینے اور متبادل مراکزِ زندگی بنانے کا فائدہ صرف انفراسٹرکچر تک محدود نہیں ہوگا، بلکہ یہ ایک نفسیاتی تبدیلی بھی لائے گا — شہری اعتماد بحال ہوگا، نوجوانوں کو امید ملے گی، اور ایک ایسی فضا جنم لے گی جو امن، تہذیب، اور ترقی سے ہم آہنگ ہوگی۔
اگر ہم نے اب بھی غفلت کی، تو کوئٹہ صرف ایک یادگار نہیں، ایک ناقابلِ رہائش شہر بن جائے گا۔ لیکن اگر ہم نے تاریخ سے سیکھا، تو کوئٹہ ایک بار پھر وہی “باغوں کا شہر” بن سکتا ہے۔ صرف درختوں اور پھولوں کے نہیں، بلکہ امیدوں، خوابوں، اور زندگی کے باغوں کا شہر بن سکتا ہے۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.