عکسِ ذات
تحریر ۔
امجد اقبال امجد
ایک ایسی کتاب ہے جو صرف حروف کا مجموعہ نہیں بلکہ روح کی گہرائیوں کو جھنجھوڑ دینے والی روشنی کی کرن ہے۔ زوبیہ انور کی یہ تحریر محض لفظوں کی ترتیب نہیں بلکہ ایک داخلی سفر، ایک فکری مکاشفہ اور ایک روحانی تجربہ ہے جو قاری کے دل کی پرتیں کھول دیتا ہے۔
جس انداز سے مصنفہ نے فطرت، عقل، غرور، تکبر، سچ، جھوٹ، روشنی، اندھیرے، اور انسانی رویّوں کو ایک لڑی میں پرویا ہے، وہ کسی عام قلم کا کام نہیں۔ ان کا قلم گویا روشنی سے بھی زیادہ لطیف ہے جو دلوں کے تاریک گوشوں کو چراغاں کر دیتا ہے۔ زوبیہ انور کی سوچ کی شفافیت، مشاہدے کی گہرائی اور احساس کی نزاکت ہر صفحے سے جھلکتی ہے۔
وہ جب لکھتی ہیں کہ “میرے دل کے کونے میں ایک دیا ہمیشہ روشن رہتا ہے” تو ایسا لگتا ہے کہ ہر حساس دل میں کوئی ایسا ہی دیا سلگ رہا ہوتا ہے جو صرف الفاظ کی حد تک نہیں بلکہ روح کی تھکن کو بھی جلا بخشتا ہے۔ اس دیئے کی روشنی، جیسے ہر اس انسان کو راستہ دکھاتی ہے جو زندگی کی تاریکیوں میں اپنا آپ کھو چکا ہو۔
کتاب کے اوراق صرف پڑھنے کے لیے نہیں بلکہ محسوس کرنے کے لیے ہیں۔ ہر پیراگراف میں قاری کو اپنے اندر جھانکنے، اپنی غلطیوں کا سامنا کرنے، اور اپنی ذات کے گمشدہ آئینے کو پھر سے صاف کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ زوبیہ انور کی تحریر سچائی کی طرح کڑوی بھی ہے اور چراغ کی لو کی طرح گرم بھی، جو بظاہر جلتی ہے مگر اندھیرے کو مٹا دیتی ہے۔
ان کا فلسفہ یہی ہے کہ انسان کی اصل شناخت اُس کا اندر ہے، اور اندر کو سمجھنا ہی عکسِ ذات ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ ہر شخص کے اندر ایک چھوٹا سا جگنو ضرور ہوتا ہے، جو اندھیروں میں امید کی کرن بن کر چمکتا ہے۔
کتاب “عکسِ ذات” گویا آئینۂ صداقت ہے جس میں ہر قاری کو اپنا عکس بھی دکھائی دیتا ہے، اور اُس عکس کی خوبصورتی یا بدنمائی کا فیصلہ خود قاری کی نیت کرتی ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ زوبیہ انور نے اس کتاب کے ذریعے لفظوں سے ایک شفاف آئینہ تراشا ہے، تو بے جا نہ ہو گا۔ یہ آئینہ نہ صرف چہرے دکھاتا ہے بلکہ روح کی گرد کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔
عکسِ ذات ایک کتاب نہیں، ایک دعوت ہے — خود کو جاننے، خود کو سنوارنے اور خود کو روشن کرنے کی۔
اور یقین جانیے، اس روشنی سے نہ صرف آنکھیں بلکہ دل بھی منور ہو جاتا ہے۔
دل سے دعا ہے کہ یہ عکس، ہر دل کی ذات میں اترے اور وہاں روشنی بکھیر دے…
اور زوبیہ انور کا قلم یونہی چراغاں کرتا رہے، بے نیازی کی راتوں میں، رہنمائی کے خواب دکھاتا رہے… منشاقاضی نے بالکل درست لکھا ہے کہ عکس ذات میرے نصاب دل کی کتاب کا دیباچہ ہے