جذبہ انسانیت حکومتوں میں کیوں نییں ہوتا؟
جب سے پاکستان نے افغانوں کوڈی پورٹ کرنے اورڈیورنڈلائن کے پاران کی نقل وحرکت کومحدود کرنے کے لئے اپنے اقدامت سخت کیئے ہیں بہت سے افغان مریض علاج کے کیلئے کوئٹہ اورپشاورجانے سے قاصرہیں لیکن جب کسی اجنبی شخص کے دل میں کسی اجنبی مریض کا انسانیت کے خاطرانسانی خدمت کاجذبہ موجود ہو تودنیا کی کوئی سرحد بھی انہیں علاج کرنے اورانہیں جذبہ انسانیت کی۔خدمت کرنے سے نہیں روکھ سکتا کسی اجنبی شخص کا کسی اجنبی مریض کاعلاج کرانے کاجذبہ اس وقت پیداہوا جب گزشتہ دنوں افغان صوبہ ننگرہارکے ضلع مومنددرہ کے رہائشی صباون اپنا ایک ماہ کا بچہ مدثرخان جوکہ دل کاعارضہ ہیے کوپشاورمیں مذیدعلاج کے لئے بیوی کے ساتھ جلال آباد سے پاکستان کے باڈرطورخم پرپہنچے تو پاکستانی حکام نے دونوں میاں بیوی سے پشاورجانے کے لئے پاکستان کاویزا مانگا گیا مگرمیاں بیوی کے پاس پاکستان کاویزا نہیں تھا اس موقع پر باڈرپر پاکستانی حکام اوربیماربچے کے والدین کے درمیان پاکستان جانے یانہ جانے کامنظرطورخم کے دروازے پر موجود ایک اجنبی شخص عظمت اللہ نے اپنے آنکھوں سے دیکھا اوربچہ دل کی مریض ہونے کی وجہ سے بھی رورہا تھا اورجب باڈرپر موجودپاکستانی حکام نے انہیں بیماربچے کو پشاورلے جانے کی اجازت دینے سے انکارکیا توعظمت اللہ نے دونوں میاں بیوی کو انسانیت کی خاطر یہ کہاگیا کہ ایک ماہ کا بیماربچے کوان کے حوالے کیاجائے کیونکہ اس کے پاس پاکستان کاویزا موجود ہے عظمت اللہ نے بتایا کہ انہوں نے مدثرخان بیماربچے کو حکومت کے زیرانتظام حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں علاج کے لئے لے گئے اور نامعلوم شخص عظمت اللہ اورمریض چھوٹابچہ دونوں دس دن حیات آبادمیڈیکل کمپلیکس میں رہیے اورزیرعلاج تھے انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ایک ماہ کے بچے کوپاکستان لانا ان کے لئے آسان نہیں تھا انہوں پیچھلی عیدحیات آبادہسپتال میں بچے کے ساتھ گزاری میں نے انسانیت کے لئے سب کچھ کیا تاکہ یہ بچہ صحت یاب ہوسکے اللہ مجھ سے راضی ہواوراللہ مجھے اس کاآجردے
لیکن عیدکی چھٹیوں کے باعث ہسپتال میں ماہرڈاکٹرنہیں تھے اس لئے انہیں بچے کوپشاورمیں اپنے گھرلے جانا پڑاایک دن بچے کی حالت اچانک بگڑ گئی تواسے دوسرے پرائیوٹ ہسپتال لے گئے جہاں اس کاعلاج کیاگیا اوربچے کی حالت میں ایک بارقدرے بہتری آئی انہوں نے بتایا کہ غیرملکی بچے علاج کے لئے انہوں قرض بھی لیاگیا کیونکہ پشاورہسپتال کے پرائیوٹ ہسپتالوں میں علاج پربہت خرچ آتاہیے انہوں نے مذیدکہا جب مدثرخان کے والدین نے اسے میرے حوالے کیاتوانہوں اس کے علاج کے لئے 55ہزارروپے دیئے لیکن یہ رقم تین دن میں نجی ہسپتال میں اس کے علاج پرخرچ ہوگئی پھرمیں نے مدثرخان کے والدسے مذیدرقم مانگی لیکن میں نے اپنے دوستوں سے پیسے ادھار لیئے تاکہ مدثرخان کاعلاج ممکن ہوسکے اوروہ خدا سے دعاکرتے ہیں کہ مدثرصحت یاب ہوجائے اورمیں بیماری سے پاک حالت بچے کواس کے والدین کے حوالے کرنا چاہتاہو علاج کے دوران ایک ڈاکٹرنے بتایا کہ اس کاجسم کیلشیم نہیں بنارہا جب ایک ماہ کا بیماربچہ ؟عظمت اللہ کے پاس تھا توبقول عظمت اللہ بیماربچے کی ماہ انہیں ہروقت مجھے افغانستان سے فون کرتی اورپوچھتی کہ اسکابیٹا کیساہیے ؟کیا وہ رورہا ہیے یانہیں ؟کیااسے دودھ پلایاجائے؟ مجھے اپنے بچے کی ایک ویڈیوبھجیں جب وہ جلال آباد میں اپنے گھرگئی توواپس طورخم باڈرجانے سے ہچکچارہی تھی ادھرسوشل میڈیا پر ایک اجنبی شخص ایک اجنبی بچے کی علاج کہانی باجوڑ سے قومی اسمبلی کے رکن مبارک زیب نے جب سنی اوردیکھی توپھرانہیں دیکھنے کیلئے خودہسپتال گئے اورانہوں نے وزیرداخلہ طلال چوہدری سے رابطہ کیا اوراپنے زرائع سے مدثرکو اس کی والدہ سے دوبارہ ملانے کی کوشش کی انہوں نے گزشتہ روز مدثرخان کی والدہ کوپاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی تھی اوربچے کے علاج کامکمل خیال رکھا جارہا ہے اگرچہ افغان پاکستانی صحت کی سہولیات پرانحصارکرتے ہیں مگرکئی دہائیوں کے تنازعات نے افغانستان کوصحت کی دیکھ بھال کی ناقص سہولیات کے ساتھ چھوڑ دیا ہیے جس کی وجہ سے بہت سے افغان پیچیدہ علاج کے لئے پشاوریااسلام آبادجانے پرمجبور ہیں بہت سے افغان مریض پاکستان کے پرائیوٹ ہسپتالوں میں جاتے ہیں لیکن انہیں ویزے کی پابندیوں اوران کوحاصل کرنے کی مشکلات کی وجہ سے مشکلات کاسامنا کرنا پڑتاہیےڈاکٹروں کاکہنا ہیے کہ افغان مریض پشاوریااسلام آباد میں علاج کراونے کوترجیح دیتے ہیں کیونکہ سفری اخراجات کم ہیں اورلوگ ایک ہی زبان اورثقافت میں ہوتے ہیں لیکن اجنبی انسان اجنبی بچے کے علاج کے بارے میں اہم سوال یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سرحد پرکسی انسان کی جان بچانا ضروری ہے یاویزا لینا بہت ضروری ہے ؟ کہاں گئی دونوں طرف کے انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے لوگ ؟ کہاں گئی وہ انسانیت جواس خطے میں انسانیت کے لئے کام کرتے ہیں ؟کیا پاکستان اورافغانستان کے درمیان سرحد ترکی اوریونان والی سرحدہیے جہاں ایک طرف ترک قوم رہتے ہیں دوسری طرف یونانی قوم رہیتے ہیں کیا پاکستان اورافغانستان کے درمیان سرحد امریکہ اورمیکسیکووالی سرحد ہیے جہاں صدرٹرمپ نے میکسیکوسے امریکہ آنے والوں کے خلاف ایک بڑادیوار بنایاگیا ہیے جب ایک انسان انسانیت کی خاطر انسانی جذبہ دیکھاتا ہیے توپھردوممالک کی حکومتیں یہ۔انسانی جذبہ کیوں نہیں دیکھاتے؟ مریض کے لئے انسانیت کے خاطرآسانی پیداکرنا چاہیے ہم دونوں طرف مسلمان بھائی رہتے ہیں فکرکرنے کی یہ بات نہیں کہ اس بیماربچے کے علاج کے دوران پہلی بار اس کے ساتھ ماں نہیں تھی فکرکی بات یہ ہیے کہ اس 20سال اورتین سالہ دورمیں طالبان حکومت نے کرزئی اشرف غنی اورامریکہ نیٹونے افغانستان کے اندربے وس اورلاچارافغانوں کی علاج کے لئے ایک مکمل ہسپتال کیوں نہیں بنائی گئی ؟ اس وقت طالبان امارت اسلامی کو امریکہ ہرہفتے میں 40ملین ڈالر دیتے ہیں اس سے افغانستان کے اندرایک ہسپتال کیوں نہیں بنائے جاتے ؟امریکہ نیٹو طالبان حکومت اورسابق افغان حکومتوں نے افغانوں کی یہ اساسی مسلہ صحت کو ابھی تک کیوں حل نہیں کیا ؟دوسری بات یہ ہیے کہ طالبان حکومت کا کیا فائدہ کہ کابل میں پاکستان کے سفارت خانے سے عام افغان علاج کے لئے ویزاحاصل نہیں کرسکتے؟ تیسری بات یہ ہیے کہ جب طالبان کی حکومت تعلیم کو مباح کہے گے توپھرایسے مسائل ضرور پیداہوں گے کہ عام افغان کے لئے اپنے ملک میں ایک اچھا ڈاکٹراورایک اچھی ہسپتال موجودنہ ہونے کی وجہ سے ویزاکے لینے کیلئے درپہ درہوں گے اسی طرح چمن باڈرپر اسی طرح کے بےشمارمسائل موجودہیں چمن سرحدپر 10دس گاوں ایسے ہیں کہ ان کے شناختی کارڈ پر اسی گاوں اورچمن کا ایڈرس موجود ہیں اوران دس گاوں والوں کو اپنے گاوں اورچمن بازارضروری کام جانے کے لئے انہیں شناختی کارڈ پرجانا چاہیے مگر اس دس گاوں کے باشندوں کوایک طرف دوسری طرف جانے کے لئے بے شمارمشکلات پیدا ہوئے ہیں ابھی حال ہی میں باڈرپرموجود ایک گاوں کے باشندہ حاجی محمدافضل خان کے لئے اپنے گاوں جانے کے لئے ایک مشکل اس وقت پیدا ہوئی جب اس کے بھائی باڈرکے نزدیک گاوں میں ہلاک ہوا توانہیں تدفین کے لئے پاکستان کے سیکورٹی والوں نے اجازت نہیں دی گئی میرے خیال میں افغانستان اورپاکستان کے درمیان سرحدکے دونوں جانب آباد قبائل کے لئے سفرکے مشکل حالات پرنظرثانی کی سخت ضرورت ہے اورانسانیت کے خاطردونوں حکومتوں کو چاہیے کہ وہ سرحدکے دونوں طرف ایک زبان ایک مذہب ایک کلچر کے لوگوں کے لئے ایک طرف دوسری طرف جانے کے لئے آنے جانے میں آسانی دی جائیں اوردونوں حکومتوں کویہ عمل کرنا چاہئے کہ وہ عظمت اللہ کی طرح اجنبی مریض کا انسانیت کے خاطر انہوں نے اجنبی ایک ماہ کے بچے کا دس دن تک علاج کروایا