سختی کے بعد آسانیاں
تحریر: ایم شہروز
انسان کی کہانی کا آغاز ایک بھول یعنی خطا سے ہوا۔ تمام انسانوں کے والد حضرت آدم علیہ السلام نے گندم کا دانہ کھایا جس کے نتیجے میں انہیں جنت سے دنیا میں بھیج دیا گیا۔ لہٰذا یہ طے ہے۔ کہ کوئی بھی انسان سو فیصد سے صحیح نہیں ہو سکتا ماسوائے انبیائ کرام علیہ السلام کے، عام انسان غلطیوں کا پتلا ہے۔ غلطی کے دوسرے پہلو کو دیکھا جائے تو انسان نے آج تک جتنی بھی ترقی کی ہے یہ غلطی کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی ہے۔
اگر انسان غلطی نہ کرتا ہر چیز اسی طرح ہوتی جس طرح وہ چاہتا تو پھر شائد اتنا برا نظام نہ بن پاتا۔ دنیا کی کسی مخلوق نے ترقی نہیں کی۔ ماسوائے انسان کے، انسان غلطی کرتا ہے اس سے سیکھتا ہے جس کی وجہ سے اس کے ذہن میں نئے نئے آئیڈیاز جنم لیتے ہیں پھر وہ ان آئیڈیاز پر کام کرتے ہوئے ترقی کرتا ہے۔
غلطی ہونے کی بہت بڑی وجہ لاعلمی ہے۔ جب بندہ کسی چیز کے علم سے ناواقف ہوتا ہے تو وہ غلطی کرتا ہے۔ چھوٹی عمر میں غلطی ہونے کے چانس زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ چھوٹی عمر میں لاعلمی زیادہ ہوتی ہے۔ غلطی کی ایک وجہ فیصلہ ہے بعض اوقات فیصلہ کرتے ہوئے بندہ انجام سے واقف نہیں ہوتا جس کی وجہ سے فیصلہ غلط بن جاتا ہے۔
امیرالمومنین حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”کبھی غصے اور خوشی کی حالت میں فیصلہ نہ کرنا۔”
ایک واقعہ مشہور ہے کہ چار مائیں ایک دانشور کے پاس گئیں اور اپنے اپنے مسئلے بیان کرنے لگیں۔ پہلی کہنے لگی کہ ”میرا بچہ جس کی عمر چھ سال ہے وہ بہت زیادہ شرارتی ہے ،اس کا کوئی علاج بتائیں۔ ”۔دوسری نے کہا : ”۔ میرا بچہ جس کی عمر اٹھارہ سال ہے اسے محبت ہوگئی ہے اس کا کوئی علاج بتا دیں۔ ” تیسری نے کہا : ”۔ میرے بچے کی عمر 29 سال ہے وہ بار بار شادی کا کہتا ہے مجھے اس کا علاج بتائیں۔” چوتھی نے کہا : ”۔ میرے بچے کی عمر 35 سال ہے وہ اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ مجھ سے دور ہونے لگا ہے مجھے اس کا حل بتائیں۔”۔
اگر ان چاروں سوالوں کو دیکھا جائے تو چھ سال کی عمر میں بچہ شرارت نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا؟ اٹھارہ سال کا بچہ محبت کرنے کی غلطی نہیں کرے گا تو کیا کرے گا؟ 29 سال کا بچہ شادی کے بارے میں نہیں سوچے گا تو کیا کرے گا ؟ 35 سال کا شخص اگر خوشگوار زندگی گزارتا ہے تو اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔
آج کا بچہ آئی فون کے دور میں پیدا ہوا ہے۔ وہ چیزوں کی طرف جانے سے پہلے ان کی تصاویر دیکھتا ہے۔ ان پر تحقیق کرتا ہے۔ آج بچے اپنی زندگی کو آسان بنانا جانتے ہیں۔ اس لیے بزرگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں پر اعتماد کریں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ پہلے زمانے والے اچھے تھیں۔ حالانکہ ہر زمانے والے بہت اچھے ہوتیں ہیں۔ جس کا حال اچھا نہیں ہوتا اس کو ماضی بہت زیادہ یاد آتا ہے۔ ہم عقلی غلطیاں کرتے ہیں تو پھر عقل آتی ہے۔
ہر شعبے میں انسان غلطیاں کرتا ہے جب وہ ان کو درست کر لیتا ہے تو بہتری آنے لگتی ہے۔ زندگی آسان نہیں ہے، سب چیزیں پلیٹ میں بنی بنائی نہیں ملتی، ہر جگہ دروازے کھلے ہوئے نہیں ملتے ، ہر جگہ ریڈ کارپیٹ بچھائے ہوئے نہیں ملتے بلکہ مشکلات، پریشانیوں اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب اس چیز کا ادراک ہو جائے تو پھر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ زندگی میں سمجھوتا کرنا ضروری ہے۔ جو بندہ مناسب وقت میں مناسب سمجھوتا کر جاتا ہے وہ سکون میں رہتا ہے۔
غلطیاں دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی غلطیوں کی ایک فہرست بنائیں، ان سے جو سبق ملے ان کی فہرست بنائیں۔ممکن ہے ایک غلطی سے دس سبق ملے ہوں۔ ان غلطیوں سے جو سیکھا ہے اس سے اصول بنا لیں جب اصول بن جائیں تو ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں اس سے آئندہ زندگی بڑی آسان ہو جائے گی۔