جہاں آراءتبسم سے انٹرویو
محترمہ جہاں آراءتبسم ناصرف ہمارے صوبہ بلوچستان کا ایک معروف ادبی نام ہیں بلکہ پاکستان اور پاکستان سے باہر بھی ہمارے صوبہ کی شناخت سمجھی جاتی ہیں وہ ادب کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی بھی علمبردار ہیں اور انسانیت کے لئے خدمات سرانجام دے رہی ہیں وہ مزاجن بہت ہنس مکھ اور زندہ دل ہیںلیکن جب کوئی ان کے ساتھ اُن کے بارے میں گفتگو کرتا ہے تو اُن کی شخصیت کاایک ایک پہلو سامنے آتا جاتا ہے اور پھر احساس ہوتا ہے کہ وہ کتنے حساس دل کی مالک ہیں اور اُن کی اس ہنسی کے پیچھے کتنے دکھ چھپے ہوئے ہیں اور انہوں نے اس منزل تک پہنچنے کے لئے کتنی تکالیف برداشت کی ہیں ہم نے ماہنامہ جہاں نما کوئٹہ کے لئے ان کا انٹرویو ریکارڈ کیا ہے جو نذرِ قارئین ہے۔س٭ سب سے پہلے تو آپ ہمارے قارئین کو اپنے بارے میں تفصیل سے کچھ بتائیں اپنی زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ کریں؟ج٭ بہت شکریہ رشید آزاد صاحب ‘ آپ کے ماہنامہ جہاں نما کوئٹہ نے مجھے اس قابل سمجھا اور مجھے خصوصی ٹائم دیا گیایہ وہ سوال ہے جو میں نے آج تک جتنے بھی انٹرویو دئیے ہیں اُن میں اولین سوال یہی ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے ‘جب ہم زمانہ طالب علمی میں تھے کورس کی کتابوں پڑھتے تھے توشعراءکرام کی شاعری پڑھتے تھے تو ٹیچرز اُن کے حالات زندگی پڑھانے پر زور دیاکرتے تھے خاص طور پر مجھے بہت چیڑ آتی تھی کہ ہمیں شاعری سے مطلب ہے ہمیں کیاہے کہ وہ کہاں پیدا ہوئے تھے اور کیوں ہوئے تھے اب جب میں وہ باتیں یاد کرتی ہوں تومجھے خود پربڑی ہنسی بھی آتی ہے اور خود کو نہ سمجھ سمجھ کر معاف کردیتی ہوں کیونکہ ان مجھے جاکر کہیں لگتاہے کہ جب تک ہم اُس شاعر کی شاعری کوسمجھ ہی نہیں سکتے جب تک اُس کی ذات سے ہمیں واقفیت حاصل نہ ہو یہ تو اللہ کاشکر ہے کہ آج کل سوشل میڈیا نے سہولت کردی ہے کہ پڑھنے والے جوقارئین ہیں وہ شاعری کے ساتھ ساتھ شاعروں کوبھی سمجھ رہے ہیں اُن کو دیکھ بھی رہے ہیں اُن کی شخصیت سے بھی آگاہ ہیں میری جائے پیدائش کوئٹہ ہے یہی پلی بڑھی پڑھائی کے بعد سندھ کے ایک گاﺅں میں میری شادی ہوگئی وہ میرا سسرال ہے آٹھ دس سال گذارنے کے بعد میں واپس کوئٹہ آئی اور کوئٹہ میرا میکا ہے ابتدائی تعلیم گھر کے قریب ایک ٹاٹ والے اسکول سے حاصل کی بڑے شوق سے پڑھا اپنے اسکول کی بہت ذہین طالبہ سمجھی جاتی تھی اُردو میڈیم کے ہم پڑھے ہوئے ہیں حالانکہ ہماری جوزبان ہے وہ سندھی اور براہوئی ہے یہ دونوں زبانیں ہمارے گھروں میں بولی جاتی ہیں اُردو دور دور تک نہیں تھی لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے لگتا تھاکہ جیسے میں غلط گھر میں پیدا ہوگئی ہوں کیونکہ میں اُردو میں سوچتی تھی اُردو سے مجھے پیار تھا اُردو زبان میری پسندیدہ زبان رہی ہے یہ ہمیشہ سے۔توشاید یہی سوچ ‘یہی پیاراُردو زبان کے ساتھ تھاکہ مجھے پانچویں جماعت میں اندازہ ہوگیاتھا کہ میں شعر کہہ سکتی ہوں کیونکہ میں نے شعر کہے اکثر میں نے شاید اپنی کتابوں کے آغاز میں لکھا ہوکہ اپنے تعارف کے حوالے سے ان باتوں میں نے یہ بات ضرور شامل کی ہے کہ تنہائی وہ پہلا عنصر تھا جس نے مجھے شعر کہنے پر مجبور کیا شاعر چونکہ حساس طبقہ ہوتا ہے اور حساسیت کے اندر محسوس کرنے کی حس کوتیز کردیتی ہے یہ نہیں کہ ہمارے ساتھ بہت مظالم ہوتے ہیں ایسا نہیں ہے لیکن ہم دُکھ کواور سکھ کو دونوں کوبہت زیادہ محسوس کرتے ہیں کیونکہ ہم بہت ہنستے بھی ہیں اور بہت زیادہ روتے بھی ہیں یعنی ہر جذبہ لکھاری کے اندر شدت پسند ہوتا ہے ۔توجب میں جماعت پنجم کی طالبہ تھی تو اُسوقت میری ماں کی مجھے بہت ضرورت تھی اُس وقت میری ماں زندہ تھی لیکن گھر کے بکھیڑوں میں ایسی گم تھی کہ اُن کو اتنی مہلت نہیں مل پاتی تھی کہ میری طرف بار بار آ سکے آج کل کے دور کی طرح کچن ساتھ ساتھ تونہیں تھے وہ کمرہ اُدھر ہے تو کچن کمرے سے بہت دور ہوتا تھا اب تو ہم بڑی سہولیات میں ہیں جب مجھے لگاکہ میری ماں میرے پاس ہو کوئی میری دیکھ بھال کرنے والا ہوتو میں نے دوچار شعر کہے بہرحال تومجھے اندازہ ہواکہ میں شعر کہہ سکتی ہوں پھر تعلیم کاسلسلہ بڑھتا رہا جب میں کلاس ہشتم میں آئی تواخبار میں میری نظر پڑی تو اُس میں لکھا تھا کہ ”خوب“ پرکوئی نظم کہے گاتو ہم اُسے شائع کریں گے میں نے فوراً خواب پر نظم کہی اور بجھوا دی مجھے وہاں سے سرٹیفکیٹ موصول ہوا یہ میرے بچپن کی کامیابیاں ہیں جس پر میں نازاں بھی ہوں خوش بھی ہوں لیکن گھر پر میرے بابا بیشک ادب سے منسلک رہے وہ براہوئی میں لکھتے تھے اکا دوکا شاعری بھی کرتے تھے لیکن وہ اپنی ملازمت کے حوالے سے اکثر شہر سے باہر ہی رہتے تھے اور دوسرے اُنہوں نے ایسی طبیعت پائی تھی کہ ہم بچوں کے ساتھ اُن کی بے تکلفی نہیں تھی ہم اُن سے کوئی بات شیئر نہیں کرسکتے تھے وہ جب بھی گھر میں آتے تھے تو سناٹا چھا جاتا تھا ہم کونوں کھدروں میں چھپتے رہتے تھے کہ اُن کی طبیعت اس طرح کی تھی ‘تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتاتھا کہ میں اُن سے شیئر کروں کہ میں بھی کچھ کچھ شعر کہنے لگی ہوں ۔اُن دنوں مڈل کاامتحان بورڈ کاہوا کرتاتھا جس کے لئے آپ کاسینٹر جہاں بھی آتا آپ کو جانا ہوتاتھا میں چونکہ بروری روڈ پر رہتی تھی اور میرا امتحانی ہال گورنمنٹ ہائی سکول ریلوے کالونی آیا اب یہ ہمارے خاندان میں بڑی بات تھی کہ ایک لڑکی باہر روڈ تک جا کر سکول میں امتحان دے وہ تو پاس کے سکول میں ہم پڑھ رہے تھے تواس لئے کوئی کچھ نہیں کہتا تھا اب گھر میں ہنگامہ تھا کیونکہ جائنٹ فیملی سسٹم تھاجس میں بڑے بزرگ بھی ہوتے ہیں میری دادی مرحومہ وہ کبھی بھی پسند نہ کرتی تھی کہ میں روز سکول جاتی ہوں بقول اُن کے کہ ” مردوں کی طرح تیار ہوکے نکل جاتی ہے“ اُن کا خیال تھا کہ لڑکیوں کوصرف گھر داری کرنی چاہیے گھر کے کام کرنے چاہیے ہمارے ہاں مہمانوں کاآناجانا بہت زیادہ ہوتاتھا سندھ سے بہت سے لوگ آتے تھے اب ظاہر ہے کہ مجھے صبح سکول جانا ہوتا تھا اور میں صبح رو کر ہی نکلتی تھی یہ تمام باتیں سن کر۔اب جب یہ باتیں نکلیں تومیرا گھر سے باہر نکل کے امتحان دینا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا جب مڈل کے امتحان قریب آئے تومیں نے سکول جانا چھوڑ دیا کہ جب میں نے امتحان ہی نہیں دینا تو پھر سکول جانے کافائدہ ‘بہرحال سکول میں یہ مشہور ہوگیا کہ جہاں آرا نے سکول چھوڑ دیاہے اُنہوں نے ایک خط لکھا میرے بابا کے نام کہ اگر آپ اس پر دستخط کرتے ہیں تو ہم سمجھیں گے کہ آپ کی بچی نے سکول چھوڑ دیاہے ورنہ ہم نہیں مانیں گے کیونکہ آپ نے بورڈ کاامتحان دیناہے اور ہمیں آپ سے بہے سی اُمیدیں ہیں میں نے وہ خط بابا کے آگے رکھا کہ میں اسکول نہیں جا رہی ہوں میں نے اسکول چھوڑ دیا ہے پلیز آپ اس پر دستخط کردیں میرے ”بابا “ اللہ اُن کو جنت نصیب کرئے بہت اچھے تھے لیکن اکادکا بات گلے میں پھانس کی طرح اٹک جاتی ہے میں نے اُن کو معاف بھی کردیالیکن مجھے دکھ ہمیشہ رہے گا کہ اُنہوں نے وہ خط دیکھا اور پوچھا ”اچھا کیوں نہیں جارہی ہوسکول“ اور میرا جواب آنے سے پہلے ہی اس کاغذ پر دستخط کر دئیے کہ بس ٹھیک ہے نہیں جا رہی مجھے اس بات کادکھ رہا کہ میرا جواب توسن لیتے کہ میں کیوں سکول نہیں جارہی ‘جب سوال کیاتھا تو اُس کا جواب توسنتے ۔مجھے بہت دکھ ہوا کہ میرے پڑھے لکھے بابا اور اُن کایہ رویہ ہے اُس وقت میرے اندر کی جہاں آرا جاگی اور اُس نے ایک فیصلہ کیا کہ جہاں آرا آنے والا وقت تمہارا ہوگا یہ آج کی سختیاں ختم ہوجائیں گی تم نے مقابلہ کرناہے ڈٹ کے اور وہ خط پھاڑ کے میں نے پھینک دیا اور میں سکول جانے لگی۔ بہرحال میں سکول گئی اور میں نے امتحان دیا وہ کس طرح دیا وہ میں جانتی ہوں اُس کے بعد میٹرک کامسئلہ تھاکہ وہ بھی دور جانا تھا پھر وہ بھونچال تھاگھر پرلیکن جیسے تیسے کرکے پڑوس میں ایک لڑکی تھی اُس کی بدولت میرا بھی داخلہ ہوگیا میں نے میٹرک کیا ‘میں بہت خوش تھی کہ میں نے اپنی خاندانی روایات کو توڑتے ہوئے میٹرک تک اپنی تعلیم مکمل کی جب کہ ہمارے ہاں ایسا کوئی تصور نہیں تھا لڑکی کے لئے ‘جب میںمیٹرک کرلیا توپھر وہ سوال تھاکہ میںنے کالج بھی جانا ہے مجھے شدت کی حد تک پڑھائی کا شوق تھا جب فسٹ ائیر میں مےرا داخلہ ہوگیا توپھر گھر والوں کے موڈ آف تھے میں کالج جاتی تھی لیکن پھر اُنہوں نے ایک اور حربہ کھیلا میرے ساتھ ایک دم میرا رشتہ ہوگیا اور میری شادی کر دی لیکن اُس وقت شادی سے پہلے پہلے میں نے کالج میں آل پاکستان مشاعرہ پڑھا انٹر گرلزکالجزکا مقابلہ تھاتما م پاکستان سے کالجز کی طالبات آئیں تھیں اور تمام طالبات کو طرحی مصرعہ دیا گیا تھا جواس پر لکھ کر لائے اگلے ہی دن ظاہر ہے کہ مجھے اور کیا چاہیے تھاکہ میری غزل تیار تھی بعض نے بہانے کئے کہ ہماری خالہ نہیں آئیں ہمارے ماموں نہیں آئے اس وجہ سے ہم نے نہیں لکھا پہلے ایک مصرعہ دیا گیا کہ احمد فراز کاشعر تھاکہ…. صحرا میں خدا کوئی دیوار بھی نہیں میں نے وہی بیٹھے بیٹھے گرا لگائی جائیں کہاں کہ دوسرا سنسار نہیں ہماری سارہ خان ٹیچرتھیں جوہماری آج کی بہت اچھی شاعرہ بھی ہیں لیکن پھر وہ مصرعہ بدل گیا ‘میں خوش ہوئی کہ چلو اسی بہانے دوسری غزل ہوجائے گی پھر ہمیں دوسرطرحی مصرعہ دیا گیا ۔اب کے تجدید وفا کا نہیں امکاں جاناں پھر میں نے اُس پر غزل کہی اور اللہ کا شکر ہے کہ پوزیشن لی اور ٹرافی لی فاظمہ ثریا بجیا سے یہ میری وہ کامیابیاں ہیں جو کہ مجھے نہیں بھولتیں اب چاہیے خدا جتنی بھی کامیابیوں سے نوازے لیکن وہ کامیابیاں ہمیشہ یاد رہیں گی۔بہرحال شادی ہوئی گاﺅں سدھارئے سندھ کے ‘اللہ کاشکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری شخصیت میں یہ بہت بڑی خوبی رکھی ہے کہ مجھے جس بھی ماحول میں بھیج دیا جائے میں ایڈجسٹ ہوجاتی ہوں اور میں جنگل میں منگل کرنے پر ایمان رکھتی ہوں میں کہیں ناخود بور ہوتی ہوں اور ناکسی کوبور ہونے دیتی ہوں اور میری کوشش ہمیشہ کامیاب رہتی ہے تواللہ کاشکر ہے وہ شادی کے دس سال جو میں نے گاﺅں میں گذارے مجھے وہ بے حد عزیز ہیں اس لئے بھی کہ یہ وہ وقت تھا جب میں عورت ہونے کے کی حیثیت سے تخلیق کار تھی ‘ قدرت کی شاہکار تھی تین بچوں کومیں نے جنم دیا اور ظاہر ہے یہ وہ وقت تھا جب اُن کو میری ضرورت تھی میں نے اُن کی بھر پور طریقے سے تربیت کی اپنے طور پر بہت کوشش کی کہ کسی قسم کی کوئی کمی نہ ہو اُس کے ساتھ ساتھ قدرت نے جومیرے لئے ایک کام رکھا ہوا تھا وہاں بہت بڑا کام تھاوہاں کہ شادی کے بعد میری ساس کی وفات ہوگئی تھی تو ظاہر ہے کہ میرے شوہر سب سے بڑے تھے جواُن کے دوبھائی اور دوبہنیں تھیں اُن کی بھی میں ماں بن گئی اور چھوٹی سی عمر میں جوان بچوں کی ماں بن گئی اُن سب کی ذمہ داری تھی حالانکہ معاشی مسائل تھے بہت زیادہ تھے لیکن اُس کے ساتھ ساتھ میں نے بڑی خوش دلی کے ساتھ فرائض نبھائے اُن تمام بچوں کوجو بڑے تھے دیور میری نندیں اُن کی میں نے شادیاں کرائیں وہ کیسے کرائیں وہ میں جانتی ہوں میں ایک اچھے گھر سے گئی تھی ماشااللہ اچھا سامان جہیز‘سونا وغیرہ سب کچھ دے دلا کر ایک تسکین مل رہی تھی کہ میں کسی کے کام آئی اس طرح چھوٹی سی عمر میں میں نے بڑے بڑے فرائض نبھائے شروع ہی سے مجھے عادت تھی کہ محتاجی نہ ہو کسی کی شوہر کاایک معمولی سا کاروبار تھا مسلے مسائل جومیں دیکھتی تھی مجھے پتہ تھاکہ جوسفر میں نے صفر سے شروع کیا ہے مجھے نہیں لگتاتھا کہ اُس میں ایک یادو کاہندسہ آئے گا یہ صفر ہی رہے گا کیونکہ میں نے دس سال دیکھے اس دوران میں اللہ کاشکر ہے کہ ڈپلومہ کیاہوا تھا سلائی کا میں سلائیاں کرتی رہی ‘مزدوری کرتی رہی ‘پڑوس کے کپڑے سیتی رہی بابا اچھی پوزیشن پرتھے اُنہوں نے مجھے مکمل سپورٹ کیا کبھی مجھے محسوس نہیں ہونے دیا کہ کس حال میں بھی میں پھنس جاﺅں اللہ کا شکر ہے کہ وقت اچھا گذرا مجھے اس بات کی زیادہ خوشی ہے کہ میں نے اپنے لئے خود راستے تلاش کئے ہیں دس سال کی بے لوث خدمت کے بعد مجھے لگا کہ اب میرے بچے سکول جانے کے لائق ہوگئے ہیں وہاں پر چندابتدائی کلاسز تھیں انگلش میڈیم کی لیکن آگے میری بچی کے لئے مسائل پیدا ہوسکتے تھے اُن تمام باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں نے ارادی باند ھ لیا کہ اب مجھے شہر کارخ کرناہوگا ظاہر ہے کہ میرا میکا کوئٹہ ہے یہاں میری جان پہچان ہے بابا ہیں سہارا دینے کے لئے میں نے اپنے سسر سے اجازت لی اُنہوں نے باخوشی مجھے اجازت دے دی کہ آپ کی جوخدمات ہیں آپ کی جو محبت ہے وہ ہمیں یاد رہے گی آپ جاسکتی ہیں بے شک اپنے بچوں کے لئے کچھ کریں توکوئٹہ آ کر تین بچے تھے دوسکول جاتے تھے ایک ابھی بہت چھوٹا تھا اُن کو سکول میں داخل کرانے گئی تو ظاہر ہے کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا شوہر میرے سندھ میں رہ گئے تھے تو جس سکول میں میں گئی بچوں کوداخل کرایا وہاں کی فیس مجھے لگاکہ زیادہ ہے حالانکہ وہ بہت زیادہ نہیں ہوگی لیکن مجھے اپنی بسات سے بہت زیادہ لگی توجیسے ہی میں نے کہا کہ فیس بہت زیادہ ہے شاید میں افورڈ نہ کرسکوں تو جس طرح میں اپنائیت سے بولتی ہوں چہکتی ہوں مہکتی ہوں تووہ کپل تھا ڈائریکٹر اُن کی مسز تھیں اُن کو پسند آیاتواُنہوں نے مجھے کہاکہ آپ ہمارے ہاں جاب کرو آپ کے بچوں کی فیس بھی فری ہوجائے گی اور اس جاب کے ذریعہ آپ کی آمدنی بھی ہوجائے گی میں نے کہا کہ بالکل میں کروں گی اور اس طرح میری جاب ہوگئی وہ دن مجھے بہت اچھا لگا کہ میں اپنے بچوں کی کفالت خود کر سکتی ہوں میں کسی کی محتاج نہیں ہوں۔بچوں کے ساتھ میں بھی سکول جاتی اُن کے ساتھ ہی واپس آتی اس سے بڑھ کر مجھے کیا چاہیے تھاکہ میرے بچے میری نظروں کے سامنے تھے میں نے ہمیشہ سے کوشش کی کہ میں یہ جوبڑا حساس وقت ہوتا ہے بچوں کااُن کودور نہ کروں خود سے اور اللہ کاشکر ہے کہ میں اس میں کامیاب بھی رہی اس کے بعد ناگزیر وجوہات کی بنا پر مجھے وہ نوکری چھوڑنی پڑی اب میرے سامنے پھر اک مسئلہ تھاکہ اب میں کیا کروں مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں بالکل ہی مجبور ہوکے لاچار تھی اور مجھے نوکری کی ضرورت تھی تو کہیں سے مجھے اُڑتی ہوئی خبر ملی کہ اسپیکیا میں رسیپشن کی کوئی جاب ہے مجھے بہت خوشی ہوئی اچھا شروع ہی سے یہ میری طبیعت اور عادت رہی ہے کہ کچھ سن لوں تومجھے لگتاہے کہ اور یقین ہوجاتا ہے کہ یہ میرے لئے ہے ناامید ی میری زندگی میں نہیں ہے کبھی نہیں آئی‘ ہمیشہ اُمید کادامن رہا میں اس یقین کے ساتھ نکلی کہ یہ جاب میری ہے۔رشید صاحب یہ وہ وقت تھا جب میرے پاس بس کاکرایہ بھی نہیں تھا کہ میں بروری روڈ ابراہیم زئی سے بو جاکرایہ کرکے یونیورسٹی تک جاﺅں میں پیدل جارہی تھی اور روتے ہوئے جارہی تھی روتے ہوئے گڑ گڑارہی تھی اے اللہ میری سنیے گا مجھے اس جاب کی بہت سخت ضرورت ہے اپنے لئے نہیں اپنے بچوں کے لئے کہ میں نے اُن کوپڑھانا ہے ‘معاشرے کاکار آمد شہری بنانا ہے ویسے توجب بھی میرے دل سے اللہ کے لئے کوئی بھی دعا نکلتی ہے میرے آنسو بے اختیار بہنے لگتے ہیں جیسے ہی میں پہنچی توباہر ریسپشن پر وہاںکٹنگ لگی ہوئی تھی حالانکہ میں نے ابھی کٹنگ نہیں دیکھی تھی اُس کٹنگ میں سات گریڈ کی ریسپشن کی نوکری بھی تھی اورگریڈ 14کی کیفے ٹیریا منیجر کی جاب بھی تھی سب سے بڑا سکیل 14ہی تھا تو میں نے کہا کہ میں نے14 اسکیل والی نوکری کرنی ہے کیونکہ میری ضرورت زیادہ ہے ابھی میں اس پر سوچ ہی رہی تھی کہ یہ 2004ءکی بات ہے توہاں کی وائس چانسلر وہاں سے گزریں شاہدہ جعفری صاحبہ بہت دبنگ لیڈی میں اُن سے بہت زیادہ متاثر ہوں اُنہوں نے مجھے دیکھا اور کہا جی آپ نے کس سے ملنا ہے ؟ میں نے کہا میڈم آپ سے ملنا ہے تو اُنہوں نے کہا آجائیں ‘ اُنہوں نے مجھے اپنے آفس میں بلوایا ۔2004ءمیں جہاں آرا تبسم پھر اور بلاچیز تھی سمارٹ سی اور بال کٹے ہوئے چادر پہنتی تھی وہ اتار کرمیں نے دوپٹہ لے لیا میچنگ کاوہ مجھے دیکھ کرٹھٹک گئیں کہ یہ کون ہے انہوں نے بلوایا تومیں نے اُن کوبتایا کہ میڈم میں آئی تو اسکیل 7کے لئے تھی لیکن میں نے کٹنگ میں دیکھا کہاسکیل14کی پوسٹ بھی ہے تو مجھے وہ والی جاب چاہیے بیٹھے بیٹھے میرا انٹرویو ہوگیا تواُنہوں نے کہاکہ اُس دن ہفتہ تھا کہ آپ پیر سے آ جائیں آپ کی نوکری ہوگئی ہے ۔شکر ادا کیاکہ نوکری ہوگئی اُس وقت ہمارے ماحول کابیک گراونڈ ہے وہ اس طرح نہیں تھا بہت پردے والا خاندان ہے اُس وقت میں بھی پردہ کرتی تھی منہ چھپایا گلی میں سے نکلی حالانکہ مجھے شروع ہی سے پردہ کرنا قطعی پسند نہیں تھا میرا دم گھٹتا ہے لیکن وہ مجبوری تھی کہ پیدل جانا لوگ جاننے والے وغیرہ وغیرہ اور یہ بھی اچھا ہواکہ مجھے نہیں پتہ تھاکہ نوکری کیاہوتی ہے بس صرف پتہ تھا کہ نوکری ہے اور سکیل 14کی ہے اُن کا بہت ہی خوبصورت کیفے ٹیریا تھا بہت ہی پیارا تھا وہاں مجھے سمجھ لیجیے بطور دکاندار کھڑا ہوناہوتا تھا یہ الگ بات ہے کہ میرا کام صرف پیسوں کاحساب کتاب تھاکلرک کوپیسے جمع کراکے دینے تھے جو سامان آ رہاہے اُس کا حساب کتاب رکھنا تھا بچت پر نظر رکھنی تھی اخراجات کودیکھنا تھا بووقت ضرورت کوئی چیز اُٹھا کر پکڑانی بھی تھی گاہک کو ۔خیر ! مجھے کیا پتہ تھاکہ 14اسکیل کی نوکری اس طرح کی ہوتی ہے میرے مزاج سے بالکل نہیں ملتی تھی ‘میڈم آ رہی ہیں وائس چانسلر آ رہی ہیں مہمانوں کوخوشی خوشی ملارہی ہیں یہ ہماری کیفے ٹیریا منیجر ہیں اُن کوایک خوبصورت سجی سجائی ملی تو وہ بہت خوش تھیں اس بات پر اور بڑے فخر سے میرا تعارف ہوتا لیکن پاس ہی ایک کانفرنس ہال تھا جہاں پر تقریریں ہوتی تھیں جہاں پر تالیاں بجائی جاتیں تھیں مائیک ہوتا ‘جہاں باتیں ہوتیں‘ میرا سارا دھیان وہی پر اٹکا ہوا ہوتا اور مجھے لگاکہ میرا مقام تووہ ہے وہاں اسٹیج پرجانا ہے میں کہاں آ کر دکانداروں میں پھنس گئی ہوں ایک ہفتہ بمشکل میں نے وہاں کام کیا ایک تو یہ والا تھا اور دوسرا ایمان کاچکر تھا ایمان کاسودا تھااےنے سارے پیسے ملتے تھے کوئی پوچھنے والا نہیں کتنے پرس میں رکھوں کتنے جمع کراﺅں کتنے لے جاﺅں اُس وقت لڑائی میرے لئے بہت مشکل ثابت ہوئی۔ مجھے لگا کہ کتنے دناپنے ایمان سے لڑسکوں گی بہتر یہی ہے کہ میںیہ جاب چھوڑ دوں اور اس طرح وہ جو آخری دن تھا میری جاب کا وہ دسواں دن تھا اور میں نے کلرک کوسارا حساب کتاب دیا اور کہاکہ خدا حافظ مجھ سے یہ نوکری نہیں ہوسکتی میڈم کوبتا دیجیے گا پھر ظاہر ہے کہ چھوڑنے کے بعد میرا خواب تھا یونیورسٹی جانے کا مقصد بھی یہی تھاکہ میں وہاں پڑھوں میں نے اُن سے کہا تھاکہ مجھے داخلہ چاہیے میں نے ماسٹر کرناہے اُردو میں ‘ لیکن چونکہ نیانیا سلسلہ تھا ابھی اُردو شروع نہیں ہوا تھا اور کو ایجوکیشن کی مجھے اجازت نہیں تھی تو وہاں تعلیم کی تو بات نہیں بنی لیکن نوکری ہوگئی تھی۔بہرحال جب میں نے وہ نوکری چھوڑی تومیرا پہلا حدف یہی تھا کہ میں نے پڑھنا ہے ہمارے ذہن میں یہ بات بیٹھا دی گئی تھی کہ لڑکیوں کو یا تو ٹیچر بننا ہوتا ہے یاڈاکٹر توبہت بڑی بات ہے ٹیچر ہی تھا میں نے کہاکہ چلو ٹھیک ہے مجھے اسکول کی کبھی نوکری پسند نہیں رہی تھی میرا خواب تھاکہ میں کالج یا یونیورسٹی میں پڑھاﺅں ‘خواب تو بڑے بڑے تھے نا۔خیر وہ چھوڑ کے میں نے کہا کہ میں پڑھوں گی یہ بھی میری خوش بختی کہ مجھے پتہ چلا کہ گورنمنٹ گرلز کالج کوئٹہ کینٹ میں انگلش اور اُردو کی کلاسز ہوتی ہیں میں کیسے ماسٹر ز کرتی میں دوڑی دوڑی گئی اور آخری بیج تھا وہ اللہ کا شکر ہے کہ میرا داخلہ ہوگیااور میںنے وہاں سے اُردو میں ماسٹر کی کلاسز لینا شروع کیں اور یہ بھی میری خوش بختی تھی کہ راستے میں میرے ریڈیو اسٹیشن آتاتھا بس پر جاتی تھی پیدل گذرنا ہوتا تھا توآتے جاتے ریڈیو کے چکر لگاتی ریڈیو پر پروگرام کرتی رہی جس سے میرا تھوڑا ہاتھ کھلا ہونے لگا کہ چیک شیک ملتے اور پروگرام بھی زیادہ کرتی تھی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پروگرام سارے چھپ کرکرتی تھی ریڈیو‘ڑی وی کانام بھی لینا ہمارے ہاں کفر تھا ہمارے خاندان میں لیکن میں نے ریڈیو پروگرام کئے ‘ٹی وی کے مشاعرے پڑھے اور جب مشاعرہ آن ائیر ہوتا تھاتو میں گھر کافیوز اُڑا دیتی تھی کہ شوہر نہ دیکھ لیں کہ مشاعرے پڑھ رہی ہوں اور ٹی وی پر آ رہی ہوں بہرحال میرا ماسٹر ہوا اب ظاہر ہے کہ پہلا یہ ےھاکہ مجھے جاب کی بھی ضرورت تھی تو میں اس کے ساتھ ساتھ این جی او میں جاب بھی کرتی رہی پڑھائی کے ساتھ ساتھ کہ بچوں کو تو دیکھنا تھا‘ سیکنڈ ٹائم اُن کورپورٹنگ کرتی‘ ماسٹر ہونے کے بعد آرمی کا ایک اسکول تھا اُس میں میٹرک کو پڑھانے کے لئے اُردو کی ٹیچر چاہیے تھی وہاں گئی وہ بھی مجھے وارہ نہیں کھاتا تھااتنی کاپیاں چیک کرنا ہر کاپی پر رپورٹ لکھنا میں نے وہ جاب بھی چھوڑ دی پرنسپل کہتی آپ کی سیلری بڑھا دیتے ہیں میں نے کہاکہ میں نے نوکری نہیں کرنی پھر ایک کالج میں جاب آئی پرائیویٹ کالج تھا اُس میں گئی وہاں کاغذات جمع کرائے مجھے لیکچرار کے لئے بلوایا گیا مجھے مکمل کرنے والی ایک پی ایچ ڈی کی خاتون وہ اُردومیں ٹاپر تھی اور میری ہائی سیکنڈ ڈویژن تھی وہاں میرا ڈیمو لیکچر بہت پسند کیاگیا اور مجھے جاب مل گئی یوں تو ساری نوکریاں ہی باعزت ہوتی ہیں لیکن یہ قدرت کی طرف سے آپ کے لئے علیحدہ سے انتظام یاانعام ہوتاہے کہ کوئی ایسی نوکری ملے جو آپ کو بہت پرسکون بھی رکھے اور آپ کو عزت بھی دے اور آپ کو وہ مقام بھی دے اور اُستاد کادرجہ بلاشعبہ خود بڑا درجہ ہے تنخواہ بہت پرکشش تھی یہ بھی ہے کہ پیسہ توہر کسی کو چاہیے ہوتا ہے بچوں کوسنبھالنے کے لئے اُس وقت میں خود پربہت نازاں تھی کہ میں نے جو سوچا وہ میںنے پالیا اور کالج میں لیکچرار ہوگئی ‘کالج میں پڑھانے لگی بچے بڑے ہوتے گئے اُس وقت میں دو دو نوکریاں کرتی تھی ایک کالج سے پڑھا کر بچوں کو کھلاپلا کر وہ جواین جی او کی نوکری وہ کرتی تھی وہ نوکری کرتی رہی ‘سکرپٹ لکھتی رہی ‘ایف ایم پہ ” میرے شوہر کونہیں پتہ تھا کہ میں ریڈیو پر پروگرام کرتی ہوں “ لیکن جب مجھے پیسوں کی ضرورت ہوئی تووہ ایک زمانے سے میں چیک جمع کرائے ہوئے تھے وہ جب میں نے نکلوائے توکہا کہ میرے پاس پیسے ہیں تووہ حیران رہ گیا اُس کے بعد اُنہوں نے مجھے کبھی منع نہیں کیا وہ خود پھر مجھے چھوڑنے جاتے ریڈیو اسٹیشن یاٹی وی اسٹیشن بہرحال یہ وقت گذرتا گیا پھر مجھے الاسلامی یونیورسٹی سے آفر ہوئی اُنہوں نے مجھے بہت اچھا پیکیج دیا میں وہاں چلی گئی چونکہ پرائیویٹ نوکری تھی پھر میں نے پاکستان پیپلز پارٹی جوائن کر لی غزالہ گولہ ہماری منسٹر تھیں اُن کے ہاں پارٹی تھی وہ پہلی وزیر منتخب ہوئی تھیں اُس پارٹی میں میں گئی اُنہوں نے مجھے باقاعدہ متعارف کرایا کہ یہ ہماری پارٹی کی ممبر ہیں اُن کے ساتھ رہی اور اتفاق سے وہ وویمن ڈیپارٹمنٹ کی منسٹر بھی آ گئیں اور پھر اتفاق سے بس صرف خوش بختیاں ہیں ناں میں ہمیشہ جب پازیٹو لیتی ہوں شروع ہی سے تواللہ بڑا مہربان رہاہے وویمن ڈیپارٹمنٹ میں منیجر کی نوکری تھی اُس کاانٹرویو تھا اُس کاٹیسٹ اسلام آباد سے پوری ٹیم آئی تھی اُس میں میں نے اپلائی کیا میں گھبرا رہی تھی ڈر رہی تھی لیکن یہ اچھی بات تھی کہ جیسے ہی میں سندھ سے آئی تھی دس سال کے اپنے تعلیمی گیپ کے بعد میں نے آتے ہی لینگویج سینٹر جوائن کر لیے تھے میں نے بی اے کاامتحان دیا اور پہلی ہی کوشش میں میں پاس کرلیاتھا پھر میں نے بی ایڈ ‘کرلیاتھا پھر میں نے ماسٹر کیا لیٹریری میں یعنی میرا رابطہ رہا تعلیمی حوالے سے اور اللہ کا شکر ہے کہ میں نے ٹیسٹ دیا جوکوالیفائیڈ کیا وہ سب سے زیادہ ٹاپ آف دی لسٹ پر میرا نام تھا پھر انٹرویو کے لئے جو باہر سے ٹیم نے آ کر کیاتھا اور میرا اعتماد دیکھتے ہوئے اللہ کا شکر ہے کہ میں کوئی بڑا بول نہیں دے رہی کہ شاید اُن کو میری شخصیت میں کوئی بات اچھی لگی ہو یاوہ سمجھ گئے ہوں کہ یہ سنبھال سکتی ہے اس طرح وہ کنٹریکٹ کی نوکری تھی جو گریڈ اٹھارہ کی تھی لیکن اُس سے پہلے میں نے گریڈ سترہ میں ڈائریکٹو ریٹ کلچرل میں بھی نوکری کی تھی اُسوقت میں پاکستان پیپلز پارٹی میں تھی اور میں بہت تھک گئی تھی پرائیویٹ نوکریاں کرکرکے غیر محفوظ تصور کرتی تھی خود کو تب کسی مہربانی سے کیونکہ میں لکھتی لکھاتی بھی تھی شاید حق دار بھی تھی اور جو سفارش میرٹ پرہو اُس کومیں سفارش نہیں کہتی وہ میرا حق تھا اس طرح گریڈ سترہ میں وہاں نوکری ہوئی تھی پھر وہاں سے استعفیٰ دے کر میں اٹھارہ میں وویمن ڈیپارٹمنٹ میں آئی تھی۔2010¾ ءمیں میری وویمن ڈیپارٹمنٹ میں میری نوکری ہوئی تھی اور2010ءتا2013ءتک میں کنٹریکٹ پرتھی اُس کے بعد شاید اللہ پاک نے مجھے وسیلہ بناناتھا 36ملازمین تھے جو کنٹریکٹ پرتھے اور اُس وقت تک میں نے اپنا مقام بنالیاتھا علم وادب کے میدان میں اللہ نے مجھے عزت دی جہاں بھی جاتی تھی مجھے پہچانا جاتا تھا جانا جاتا تھا وہ فائل لیکر میں گئی کہ ان تمام کومیں نے مستقل کرانا ہے اور اُس فائل کوہمیشہ جہاں آرا تبسم کے نام سے سیو کیاجاتا تھا چاہیے وہ سی ایس کا آفس ہوچاہے ایس اینڈ جے اے ڈی کا آفس ہومیں یہ بات فخر یہ کہوں گی کہ ایک وقت ہوتاہے جب ہم میں بہت عاجزی اور انکساری ہوتی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ابھی ابتدائی دور میں ہیں یاخود کوثابت نہیں کر پا تے لیکن آج کی جہاں آرا بہت زیادہ پراعتماد ہے وہ سمجھتی ہے کہ اُس نے اپنا حق ادا کردیاہے اُس نے خود کوثابت کر دیاہے اور آج اس سیٹ پر بیٹھ کرمجھے کچھ دعوے کرنا چاہیے کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ میں اُس کوپورا کرسکتی ہوں اس لئے میں وہ دعویٰ کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی کے بعد شاید وسیلہ تھی ان 36ملازمین کاجتنے بھی سرکار ملازم تھے میں نے سب کو انہی کے گریڈ میں پکا کروایا اُس میں 16,17, 18گریڈ کے افسر بھی تھے اور لوئراسٹاف بھی تھا۔بہرحال سب کی دعائیں میرے ساتھ ہیں جو آج بھی ‘پھر وویمن رائٹس پربات کرتے کرتے مجھے لگا کہ اب تھوڑا فاسٹ کیاجائے تب مجھے لگا کہ اب انسانیت پرکام ہونا چاہیے اور جب میں جاب کے حوالے سے میں آگے بڑھتی ہوں تواُس میں میری بجائے سامنے والے کی دلچسپی زیادہ ہوتو تب میرا دل کرتا ہے پھر ایک ٹیم آئی تھی ہیومن رائٹس کی ڈی جی صاحب تھے‘ڈائریکٹرصاحب تھے ‘دوسرے تیسرے تھے اُنہوں نے میرے لئے سیشن رکھا شاعری کااتنے متاثر ہوئے کہ کہاکہ ہمارا دل کرتا ہے کہ آپ کو سیکرٹری لگادیں اُنہوں نے کہا کہ پہلے ڈائریکٹر تو آﺅ تو اللہ کا شکر ہے کہ آج میں بطور ڈائریکٹر ہیومن رائٹس اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہوں ۔س٭ آپ بلوچستان کے کس شاعر سے متاثر ہوئیں؟ج٭ میں نے اپنی طویل گفتگو میں یہی ذکر کیاتھا کہ شاعری میں نے کسی سے متاثر ہوکے نہیں کی کلاس ففتھ میں مجھے ردیف کافیہ کاپتہ نہیں تھا لیکن میں نے ردیف کافیہ کے ساتھ شاعری کی ہے کلاس ہشتم میں مجھے نظم کاپتہ نہیں تھا لیکن میں نے نظم باقاعدہ کہی اور اُسے پسند کیا گیا اور مجھے سرٹیفکیٹ بھی ملا ‘فسٹ ائیر میں مجھے غزل کاپورا پتہ نہیں تھا لیکن میں نے باقاعدہ غزل کہی اور اُس میں ایک غلطی بھی میرے اُستاد نہیں نکال سکے ‘میں یہ نہیں کہتی کہ میں بہت اُستادانہ شاعر ہوں لیکن میں اپنی اُس وقت کی سمجھ کی بات کررہی ہوں میرے خیال میں ایک دم سے کوئی شاعر نہیں ہوتا کسی سے متاثر ہوکے شاعری نہیں ہوتی‘ سوچ سمجھ کر شاعر نہیں ہوتا‘ اور اچانک سے شاعر نہیں ہوتا ‘شاعر یا تو شاعر ہوتا ہے یا پھر نہیں ہوتا‘وہ پیدائشی ہوتا ہے۔س٭ کیا آپ اصلاح پر یقین نہیں رکھتیں؟ج٭ نہیں میں نے یہ نہیں کہا آپ کاسوال تھاکہ بلوچستان کے کس شاعر سے متاثر ہیں اور میں اُس زمانے کی جہاں آرا کی نالائقی کا اعتراف بھی کروں گی کہ اُس کی چونکہ چھوٹی عمر میں شادی ہوگئی تووہ مطالعہ نہیں کر سکی کہ کون ساشاعر کیاہے وہ دس سال تووہ گمنامی میں رہی ناں شاعری سے ادب سے کتابوں سے دور یہ وہ علاقہ تھاکہ اگر میں کچھ لکھتی تووہ لائٹ آف کرکے لکھتی کہ کوئی لکھتے ہوئے ناں دیکھے ۔وہ دس سال کاپیریڈ غائب ہوگیا پھر جب میں واپس آئی توہاں اب سوال آتاہے کہ میں نے اپنا ادبی سفر کیسے شروع کیا جب کوئٹہ واپس آئی ۔2000ءمیں جب میں واپس آئی تو ظاہر ہے کہ میرے اندر کی شاعرہ جاگ اُٹھی میری میریڈ لائف تھی پہلی غزل جب میں نے چھپوانے کے لئے ایک مشرق اخبار کوبھیجی تومجھے سمجھ نہیں آئی کہ میں جہاں آرا تبسم لکھوں یا جہاں آرا گل ‘اُس کنفیوژن میں تھی مجھے اپنا جہاں آرا تبسم نام بہت عزیزتھا اُسے چھوڑنا نہیں چاہ رہی تھی لیکن مجھے رشتہ بھی نبھانا تھا وہ بھی میں کھونا نہیں چاہتی تھی میں نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ میں کس نام سے غزل چھپواﺅں جہاں آرا گل لکھوں یاجہاں آرا تبسم لکھوں اُنہوں نے کہا کہ آپ خود کومشہور کریں مجھے نہ کریں یعنی کہ مجھے اجازت مل گئی مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں نے وہ غزل جہاں آرا تبسم کے نام سے بجھوا دی اس طرح آہستہ آہستہ ادب کی طرف میری واپسی ہوگئی اور جب بھی ادب کی بات ہوتی ہے تو لوگ کہتے ہیں اکادمی ادبیات جائیں وہاں افضل مراد صاحب بیٹھے ہیں بطور ڈائریکٹر تواُن سے ملیں جب تک میں اُن تک پہنچتی میرا بہت سا کلام جمع ہوچکاتھا اور میں اس بات کا اقرار کرتی ہوں کہ وہ کلام ایسا تھاکہ وہ کتاب میں چھپنے کے لائق نہیں تھا وہ آپ کا وہ کلام ہوتا ہے جوآپ کسی کو بھی نہیں دکھا رہے ہوتے بس لکھ رہے ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ جب بھی آپ نے وصف ہوتا ہے اُس کو پالش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔جیسے اگر اللہ تعالیٰ نے عورت کو حسن عطا کیا ہے تو وہ بھی سج سنور کے نکلتی ہے ہر حسن کوچاہیے ہوتا ہے ہروصف کوچاہیے ہوتا ہے کہ اُسے پالش کرو وہ کلام چونکہ پالش نہیں تھا جب میں اُن سے ملی تو اُنہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ عرفان الحق صائم سے ملوں اُن کو بلوایا گیا عرفان الحق صائم ( مرحوم) وہ پہلی ہستی ہیں جن کو میں نے بطور اُستاد سامنا کیا اُنہوں نے میرا پورا کلام دیکھا اور کہا کہ ابھی توتم ذہن سے نکال دو کہ آپ کی کتاب چھپے گی ابھی آپ کواس پر کام کرنا ہے بہرحال وہ جنگ میں کام کرتے تھے اُنہوں نے مجھے ایک دن وہاں بلوایا جب میں وہاں گئی تو اُنہوں نے مجھے ایک مصرعہ دیا کہ دور منزل سے کارواں ہے ابھی ۔ اور مجھے کہا کہ اس پر غزل کہوں اپنے سامنے بیٹھا کے‘ میں نے کہا ٹھیک ہے اور میں نے پانچ یا چھ منٹ میں پوری غزل لکھ کے اُن کو دکھا دی سخت مشکل میں جسم وجاں ہے ابھی دور منزل سے کارواں ہے ابھی اتنا خوش ہوئے اور حیران ہوئے مجھے تھپکی دی اور دس روپے کانوٹ نکال کر دیا کہ اس کو سنبھال کے رکھنا شاباش تم شاعرہ ہو۔اور یہ اچھا ہے ضروری بھی ہوتا ہے کیونکہ اللہ کا شکر ہے ہمارے صوبہ بلوچستان میں شاید ایسا نہیں ہے لیکن جب باہر دیکھتی ہوں خالی صفحے پرجو اصلاح ملتی ہے راتوں رات کوشاعرات پیدا ہوتی ہیں اللہ معافی دے اُس سے یہ میرا امتحان تھاجس میں اُستاد نے مجھے پاس کیا بہرحال پھر میں کلام لکھتی رہی اُن سے مشورہ لیتی رہی اور وہ اوکے کرتے چلے گئے اس طرح میری پہلی کتاب 2008ءمیں آئی ”اُداسی رقص کرتی ہے“ اس دوران سعید گوہر صاحب ‘اچھا میرا پھر یہ ہے کہ میرا کوئی ایک اُستاد نہیں رہا یہ مجھ میں بہت بڑی خامی ہے میں اس کواپنی خرابی کہوں گی کیونکہ میں متفق نہیں ہوتی مجھے پتہ ہوتاہے کہ غلط کر رہی ہوں مجھے اپنی غلطیوں کا احساس بھی ہوتاہے اور وہ کیوں کررہی ہوتی ہوں وہ ایک الگ بات ہے پتہ نہیں شاید میں ہی مس فٹ ہوں‘ مجھے اتنا عجیب لگتاہے اور میں کسی اُستاد کانام نہیں لوں گی اگر میں اُس کو کوئی غزل دکھاﺅں اور وہ کہے اس کو رہنے دو تم پہلے یہ پڑھ کرآﺅ اس سے پھر میرا جی اُچاٹ ہوجاتا ہے اور میں انکار کرکے اس بات کاعہد کرتی ہوں کہ یا تو میں نہیں پڑھوں گی یا پھر یہی ٹوٹی پھوٹی پڑھوں گی۔ کیونکہ مجھے عادت پڑجائے گی اور یہ عادت میرے اندر کی شاعری کومار دے گی (جاری)
اور میں سہل پسند ہوجاﺅں گی اگر مجھے یہ یقین ہوکہ مجھے اُستاد ہی سب کچھ ٹھیک کر کے دے گا تومیں محنت کرناچھوڑ دوں گی چلو کہ کمی وپیشی وہ دیکھ لے گا اس سے میرے ذہن کوزنگ لگتا چلاجائے گا اس لئے کسی بھی اُستاد سے میری بنی نہیں کسی نے بھی مجھے اگر دو لفظ بھی سکھائے ہیں تو وہ میرا اُستاد ہے سعید گوہر‘ دانیال طریر ‘بھی میرے اُستاد ہیں ‘صدف چنگیزی صاحب کومیں نے نعت دکھائی تھی ہوسکتاہے کہ اُنہوں نے اُس میں کوئی ایک آدھ نقطہ بڑھایا یاگھٹایا ہومیں اُن کو بھی اُستاد مانتی ہوں ۔جوآپ کے ساتھ مخلص ہے اُستاد کے معنی رہنما ہیں رہنما وہ آپ کا رہنما ہے دانیال طریر کے ساتھ بہت اچھا ساتھ رہا ‘اچھا میں سمجھتی ہوں کہ جب آپ کوشعر کہنا آتاہو جب آپ بات سمجھ سکتے ہوں شاعری کے اُتار وچڑھاﺅ پھر آپ مشورہ کرو دوستوں سے آپ نے غزل کہی کسی بھی دوست کوسنا دی اُس میں ضروری نہیں کہ مخصوص ہوپتہ ہے مخصوص اُستاد کون رکھتا ہے جواپنی خامیوں پر پردہ چایتے ہیں جبکہ میں یہ سمجھتی ہوں کہ کوئی بھی پرفیکٹ نہیں ہوتا اُس میں خامیاں ہوتی ہیں چھپانے کی کیاضرورت ہے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے اوپن بات کرو میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کسی کواُستاد پکڑتے ہیں آخر تک ساتھ رہتا ہے اُس کی خوشامد کرتے ہیں ‘عزت ایک الگ بات ہے لیکن خوشامد کرتے ہیں شاید ایسا لگتاہے کہ بلیک میل ہورہے ہوں اُستاد کے آگے۔ یہ مجھے کبھی بھی قبول نہیں سیکرٹری باس ہوتا ہے وہ بلاچیز ہوتا ہے میں نے سیکرٹری کی بات کوغلط کہا صحیح کوصحیح کہاغلط کوغلط کہا اور دوسال خضدار میں رہی سزا کے طور پر رہی اور رہ کے آئی غلط توغلط ہی ہے ناں مجھ سے منافقت نہیں ہوتی ‘میں حق بات کہوں گی چاہے کوئی بھی ہوآسمان سے کوئی سرخاب کے پرلگے ہوں حق بات حق بات ہے مجھ سے منافقت نہیں ہوتی۔س٭ موجودہ دور کی شاعری کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ج٭ دیکھئے میں یہ بات برملا کہوں گی کہ مجھے آج کے دور کی شاعری جوپچھلے دور کی شاعری ہے اُس کی نسبت موجودہ شاعری زیادہ پسند ہے ٹھیک ہے میر‘ غالب‘ آتش ‘ داغ‘ یہ سارے بہت معتبر ہیں ہمارے لئے لیکن ان کی معتبری کاایک حوالہ ہے وہ یہ ہے کہ اُس زمانے میں صرف شاعری ہوتی تھی اُس زمانے میں کوئی سوشل میڈیا نہیں تھا اُس زمانے میں مشاعرے ہوتے تھے لوگ اُن کو سنتے تھے وہ مشہور ہوتے چلے گئے اُن کی اور کوئی سرگرمیاں نہیں تھیں اس وجہ سے اُن کی شہرت ہے یہ نہیں کہ اُن کاکلام کچھ نہیں ہے بہت عمدہ کلام ہے لیکن اُن کو ماحول بھی تو ایسا ملا اُن کی شاعری اُن کی جاب تھی ہمیں کوئی دے اس طرح کی جاب پھر دیکھو ہماری شاعری یہ غالب‘ میر اُدھر رہ جائیں گے ہمارے اُوپر اتنے سارے مسائل ہیں اس کے باوجود اگر ہم شعر کہہ رہے ہیں تو میرے خیال میں شاعری سونا ہے جوآج کے شاعر کہہ رہے ہیں۔س٭ بلوچستان کے نسائی ادب کو آپ کیسا دیکھتی ہیں؟ج٭ بلوچستان میں اول توشاعرات کوڈھونڈنا ہوگا پہلا کام تو یہ ہے ہمارے ہاں شاعرات کی اتنی بھرمار نہیں ہے کہ اُس کو سلیکٹ کرکے نسائی ادب کہیں ہمیں توصرف ادب پر بات کرنا ہو گی اس وقت گنتی کی چند شاعرات ہیں اور جن میں سے بھی شاید بہت کم ہیں جو مشاعروں میں شرکت کرتی ہیں لیکن مشاعروں میں شرکت نہ کرنے کامطلب یہ نہیں ہے کہ وہ شعر نہیں کہہ رہی ہیں وہ اپنی جگہ کام کر رہی ہیں ادب کی خدمت کررہی ہیں ۔میں نے جہاں تلک دیکھا ہے براہوئی میں حمیرا صدف اور نیلم مومل اُنہوں نے فوکس کیاہوا ہے نسائی ادب کو میں اپنا نام اس لئے نہیں لوں گی کہ میرا نام آپ لیں گے۔میں اپنی تعریف خود سے کیا کروں آپ کے سامنے ہے کہ میری پوری کتاب ” مجھے خطبہ نہیں آتا“ ضرورت یہ ہے کہ یہاں خواتین ادب میں آگے آئیں جب وہ ادب میں پیش پیش ہوں گی تو سلیکٹ کریں گی کہ ادب کی کون سی صنف اُنہوں نے اپنانی ہے یہ الگ بات ہے کہ ادب ادب ہی ہوتا ہے لیکن چونکہ فی میل وہ محسوسات جو خواتین کے احساسات وجذبات کوبہتر طور پرسمجھتی ہیں تو اُس کوآشکارہوجاتی ہیں لیکن ہمیں ضرورت نہیں ہے کہ اُس کالیبل لگاناچاہیے ذہن کوکھلا رکھنا چاہیے ہر موضوع پربات کرنی چاہیے لیکن چونکہ پاکستان میں بالخصوص بلوچستان میں نسائی ادب پریا خواتین کے حقوق پربات کرنے کی بہت زیادہ ضرورت تھی اس لئے کہ نسائی ادب کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے اس لئے اس پر بات ہونی چاہیے اس پر مزید کام ہونا چاہیے اب جتنی بھی شاعرات ہیں بلوچستان کی وہ ادب سے الگ نہیں ہیں جیسے میں نے حمیرا صدف ‘نیلم مومل کانام لیا یا تسلیم صنم بھی اپنا کام کر رہی ہیں ‘صدف غوری ہیں جن کی کتنی کتابیں آچکی ہیں ‘زیب النساءہیں اور فہمیدہ گل ہیں غزالہ تبسم‘غزالہ بٹ‘ یا آج کل دانیال طریر کی بہنیں ہیں قندیل ہے ‘انجیل ہے‘تمثل ہے بہت اچھا کہہ رہی ہیںجاوید سرور کی بیٹی ہے اُن کی جو میں نے نظمیں سنیں ہیں میں تو حیران ہی رہ گئی ہوں یہ اچھا اضافہ ہیں جوآج کل بچیاں جس تیزی سے آ رہی ہیں اور آج کل کی بچیاں کچھ زیادہ ہی محسوس کر رہی ہیں اور زیادہ ہی پریکٹیکل ہورہی ہیں یہ خوش آئند پہلوہے۔س٭ آپ بلوچستان کے ماضی اور حال کے ادب کو کیسا محسوس کرتی ہیں؟ج٭ ادب کی بات کروں یاادبی ماحول کی بات کروں دونوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے جہاں تک ماضی کاتعلق ہے توماضی میں میں اتنی پریکٹیکل نہیں تھی ادبی دُنیا میں ہاں میں 2000ءکے بعد کے حالات کوجانتی ہوں ‘ لیکن ظاہر ہے کہ 2000ءسے پہلے کے واقعات ہم نے کتابوں میں پڑھے ہیں جوہم نے وہاں پر نقشہ دیکھا ہے مجھے توحیرت ہوتی ہے اور میرا دل کرتاہے کہ کاش میں اُس زمانے میں ہوتی جس طرح کے مشاعرے ہوتے تھے‘جس طرح کی ادیبوں کی بیٹھک ہوتی تھی جس طرح کی ادبی محفلیں ہوتی تھیں اور یہ بھی سننے میں آیاہے کہ جناح روڈ پرفٹ پاتھ پر بیٹھ کر شاعر تبادلہ خیال کرتے تھے اور جس طرح امن ہوتاتھا ‘سکون ہوتا تھا اتنارش کش نہیں ہوتا تھا تومیرے خیال میں آئیڈیل ماحول تھاادب پر بہت کام ہوا اور بلوچستان کوبھی یہ خصوصیت ہے کہ صرف اُردو نہیں ہے یہاں پر براہوئی‘ بلوچی ‘پشتو‘فارسی بھی ہے اور یہاں بہت کام ہورہاہے براہوئی چونکہ میں براہوئی میں بھی شاعری کرتی ہوں مجھے اُس کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات ہے کہ میرا تعلق اس زبان سے ہے اس حوالے سے میں نے بہت کام دیکھا ہے ناولوں کے ترجمے ہورہے ہیں براہوئی سے اُردو میں ہورہے ہیں اُردو سے براہوئی میں ہورہے ہیں باہر کی زبانوں میں کہے اور دوسرا یہ کہ اس کا ترجمہ کریں یہ بہت بڑی خدمت ہے آپ لوگوں کومتعارف کرارہے ہیں اپنی زبان سے‘بلوچستان سے باہر چلے جائیں براہوئی کوکوئی نہیں پڑھے گا پشتو کوکوئی نہیں پڑھے گا ‘بلوچی کوکوئی نہیں پڑھے گا اس کاحل یہی ہے کہ اُس کے تراجم ہوں اور باہر نکالیں جائیں اور آج بھی بہت اچھا کام ہورہاہے جیسا کہ میں نے کہا کہ اتنی ساری خواتین شاعرات سامنے آ رہی ہیں۔س٭ ادب کے فروغ میں بلوچستان کی ادبی تنظیموں کاکردار کیسا ہے؟ج٭اچھا ہم جب ادب کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں صرف شاعری ہوتی ہے حالانکہ ادب میں ناول بھی ہے‘افسانہ بھی ہے‘تکلیف اس بات سے ہوتی ہے کہ بلوچستان میں شاعری پرتو بہت کام ہورہاہے شاعر تو سامنے آ رہے ہیں لیکن نثر نگاری کی طرف کم لوگ مائل ہیں اور خصوصا ً خواتین میں سے توکوئی بھی نہیں ہے ۔خواتین کوافسانوں کی طرف بھی آناچاہیے ‘ناول کی طرف بھی آناچاہیے۔براہوئی زبان میں نثر پر ایک کتاب نیلم مومل کی ہے۔غیر سرکاری ادبی تنظیمیں اپنی مدد آپ کے تحت اپنا بھرپور کردار ادا کررہی ہیں۔س٭ نثر کی طرف آپ کااپنا دھیان کیوں نہیں جاتا جب کہ آپ کالم نگار بھی رہی ہیں ۔ج٭ اپنی مصروفیات کے باعث‘جہاں آرا بہت سے ٹکڑوں میں بٹی ہوئے ہے یہ آج جوآپ کوسجی سنوری نظر آ رہی ہے اس کے پیچھے بہت داستانیں ہیں میں کیسے خود کو مینج رکھتی ہوں میں کیسے زندگی کامقابلہ کرتی ہوں یہ صرف میں ہی جانتی ہوں اور دوسرا میری زندگی میں المیہ یہ بھی رہا ہے کہ میں شروع سے بچوں کی ماں کے ساتھ ساتھ باپ بھی رہی ہوں ۔2000¾ ءمیں جب کوئٹہ شفٹ ہوئی تو تب میں نے باپ کاکردار بھی ادا کیا اور ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ مکمل علیحدگی کے بعد تو میں ٹوٹل ہی باپ بن گئی ۔س٭ ترقی پسند تحریک کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ج٭ جتنی بھی ادبی تحاریک ہوتی ہیں ناں اُن کا مین مقصد ظاہر ہے کہ ادب کی ترویج ہوتاہے ‘ادب کی بہتری ہی ہوتاہے اُس میں کوئی منفی بات شامل نہیں ہوتی لیکن ادبی تحریکوں کی آڑ میں کوئی ذاتی فائدہ سامنے نہ رکھا جائے ادب کی ترویج کامقصد ہی سامنے رکھنا چاہیے یہاں پربہت سی ادبی تنظیمیں ہیں سب سے پہلے توہمارا گورنمنٹ کاادبی ادارہ ہے اکادمی ادبیات جس کی طرف سے لوگوں کوبہت سے تحفظات ہیں جن میں اب میں بھی شامل ہوں اس ادارے کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے اس کواپنی کارکردگی بہتر بنانا ہوگی۔سب کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا اور دوسری تنظیمیں وہ اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہی ہیں انجمن دبستان بولان ہے صدف چنگیزی صاحب کی سرکردگی میں کام کررہی ہے‘ نوید حیدر ہاشمی صاحب کی کوئٹہ رائٹرز فورم ہے‘ تسنیم صنم صاحبہ کی انجمن ادب بلوچستان ہے‘ سجاد حیدر صاحب کی گہوارہ¿ فن ہے اور آپ کی تنظیم ادبی دیوان بلوچستان (ادب ) ہے انجمن ترقی پسند مصنفین بلوچستان کاابھی تک جھگڑا چل رہا ہے اُن کاپتہ نہیں چل رہا کہ کون ہے کون نہیں ہے۔انشاءاللہ اگر تقدیر نے ساتھ دیا توکچھ پرپوزل گئے ہیں اور انشاءاللہ ان کا اپروول آئے گا آرمی ادبی فیسٹیول کرا رہی ہے اُس میں میں نے آل پاکستان مشاعرہ کرانا ہے ‘ایک آل پاکستان مشاعرہ ہے ‘دوسرا یوتھ کامشاعرہ ہے اور تیسرا شام غزل ہے یہ تین کام میں نے کرنے ہیں۔س٭ آپ نے اپنی کتاب ”محبت “ کی تقریب رونمائی میں کہا تھا کہ یہ کتاب میری ایک رات کے جگراتے کاثمر ہے توکیا آپ سمجھتی ہیں کہ ایک رات میں کتاب لکھی جاسکتی ہے ج٭ اُس کوہم کتاب کا نام اس لئے دے رہے ہیں کہ اُس کوہم نے بائنڈ کرادیا ہے ایک ٹائٹل کے ساتھ حالانکہ وہ کتاب ‘کتاب کے سارے لوازمات پر پورا نہیں اُترتی ‘کتاب میں اوراق کی پابندی ہوتی ہے کہ اتنے صفحات کی ہوگی تواُس میں اتنے اوراق نہیں ہیں اُس کی نظمیں بہت مختصر ہیں یعنی یہ کہ اُس کوکتاب بنانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ جب رات کو ایک آمد تھی میںنظمیں کہہ رہی تھی کہے جارہی تھی صبح جب میں نے دیکھا کہ کتنا ڈھیر پڑا ہوا ہے فروری ہی کا مہینہ تھامجھے اچانک خیال آیا کہ ”ویلن ٹائن ڈے“ آ رہاہے لوگ اس کو جتنا بھی برا کہیں میں اس کو غلط نہیں سمجھتی کیونکہ لوگوں نے اس کو نیگٹو لے لیاہے ”ویلن ٹائن ڈے“ لفظ محبت سے شروع ہوتاہے وہ خدا نخواستہ ”ہوس“ سے شروع نہیں ہوتا یہ ہمارا نگٹیو مائنڈ ہے کہ ہم باتوں کوغلط لے لیتے ہیں اگر ہم اس بات کی مذمت کرتے ہیں جوکہ میں آج کل دیکھ رہی ہوں ”ویلن ٹائن ڈے“ کی آپ اس کو مثبت طریقے سے بھی توپیش کرسکتے ہو مذمت کرنے سے نئی نسل بدل توجائے گی نہیں ہاں اُس کو سمجھاﺅ تووہ سمجھ ضرور جائے گی کہ ہاں اس کو اس طرح نہیں اس طرح لینا ہے ‘بہرحال جب مجھے اندازہ ہواکہ ایک ہفتہ رہتاہے ”ویلن ٹائن ڈے “ میں تووہ نظمیں مکمل کتاب کے طور پر نہیں تھیں لیکن اتنی تھیں کہ ایک ”گفٹ پیک“ اُس سے بن سکتاتھا۔اُن نظموں کومیں نے یکجا کیا اور ایک ہفتہ کے اندر وہ پبلش ہوئی ہے وہ کتاب آپ بھی اُس پروگرام میں موجود تھے 14فروری کواس کتاب کی تقریب تھی ایک دن پہلے کوئٹہ میں برف باری ہوئی تھی اور اتنا ٹھنڈا موسم تھا اور ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور اس کی ایک اور اچھی بات یہ ہوئی تھی کہ صادق عمرانی جوکہ پیپلز پارٹی کے وزیر تھے اُنہوں نے وہ تمام کتابیں خرید کر سب کو گفٹ کردیں تھیں جتنے بھی لوگ ہال میں موجود تھے یہ ایک انوکھا پروگتام تھا بلوچستان کی ادبی تاریخ کا ۔
اُس رات کومجھے جتنا ٹائم ملا میں نے صبح کردی اس سے مزید ٹائم میں رات کونہیں کرسکتی تھی وہ ایک رات میں جتنا مجھ سے ہوسکا میں نے نظمیں کہیں پھر اُن کونیٹ کیا پھر پبلشر کوبجھوا دیا وہ چھپ کرآ گیا اُس کوچونکہ میں مکمل کتاب نہیںمانتی پھر جومیری کتاب ” محبت شاعری ہے“ آئی اُس میں میںنے وہ تمام نظموں کو ان کلوڈ کیا۔وہ ایک وقت کی ضرورت تھی جس کو کتابی شکل دی گئی تھی۔
س٭ تخلیقی معیار کے بارے میں آپ کی کیارائے ہے؟
ج٭ اگر ہم پاکستان بھر کی بات کرتے ہیں نا تو ہرقسم کے آپ کو ادیب اور شاعر ملیں گے ماٹھے بھی ہوںگے ‘اچھے بھی ہوںگے‘ بہتر بھی ہوںگے‘ کمتر بھی ہوںگے‘ اور بہت زیادہ اچھے بھی ہوںگے۔ اب بات یہ ہے کہ جو ادیب ہے ناں وہ اتنا کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ چاہیے اس میں کمال فن ہے یا نہیں لیکن وہ بات کررہا ہے کام کررہا ہے محسوس کررہا ہے ایکسپریس کررہاہے اب یہ الگ بات ہے کہ ہم نے یہ دیکھنا ہوگا کہ ادیب کے ادب سے سوسائٹی کوکیا فائدہ پہنچ رہاہے ‘پہنچ بھی رہاہے کہ نہیں پہنچ رہا ۔اس بات پرکام کرنے کی ضرورت ہے ہم نے کوپیغام عام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہماری زندگیوں پر اس کااثر کیاپڑ رہاہے اور ہماری سوسائٹی پر اس بات پر دھیان دینے کی ضرورت ہے کیونکہ دیکھئے عام بول چال کی نسبت آپ اس سے بہتر سمجھتے ہیں کہ شاعری میں اثر ہے ہم بات ڈائریکٹ نہیں کہہ پاتے وہ شعر کی صورت میں کہہ دیتے ہیں اگلے کوسمجھ آ گئی تو بہت اچھی بات ہے نہیں سمجھ آئی تو ایک شعر ہی تو تھا۔
س٭ تنقید کوآپ کس نگاہ سے دیکھتی ہیں ؟
ج٭ ایک تو گروہ بندی سے بہت عاجز ہوں اور اور ایک ادبی گروہ ہے وہ دوسرے گتوہ میں جو شاعر موجود ہیں اُن پر تنقید کرتا ہے تنقید برائے تنقید ‘تنقید برائے تعمیر کاتو کہیں تصور ہی نہیں ہے اس جملے کوایک رسمی جملہ نہ سمجھیں یہ ہمارے معاشرے کاناسور ہوگیاہے ۔آج کل چونکہ سوشل میڈیا بہت زیادہ ایکٹو ہوگیاہے اور ٹاپ پر جارہاہے تنقید آپ پس پردہ نہیں کر رہے ہوتے ہر تنقید کاہر لفظ لوگوں کے سامنے ہے حالانکہ آپ کا دوست وہ ہے ”حضرت علیؓ کاقوم ہے کہ آپ کادوست وہ ہے جوخوبیاں آپ کی پیٹھ پیچھے بیان کرے اور آپ کی خامیاں درہ پردہ بتائے سب کے سامنے نہ بتائے تنقید کولوگوں نے بلیک میلنگ بنالیا ہے اُس کو بلیک میل نہیں کرنا چاہیے آپ تنقید کرو جوآپ اختلاف کاحق رکھتے ہو اور آپ میں وہ مادہ بھی ہونا چاہیے کہ برداشت کرنے کا‘ تنقید برداشت کرو کیونکہ آپ کو بہت آگے لے جائے گی آپ اُس میں بہتری لاﺅ گے لیکن کچھ لوگوں کایہ مزاج ہوتا ہے کہ تنقید اُن کو مایوس بھی کر سکتی ہے تولوگوں کے احساسات کاخیال بھی رکھنا ہے تاکہ وہ لوگ ادب سے پرئے نہ ہٹیں۔
س٭ آپ تین زبانوں اُردو‘ براہوئی‘ سندھی میں اظہار کرتی ہیں توکیا آپ سمجھتی ہیں کہ آپ نے بطور جہاں آرا اپناکردار احسن طور پر سرانجام دیا ہے؟
ج٭ نہیں ! میں نہیں سمجھتی کہ کیونکہ میں نے اُردو میں بہت سارا کام کیاہے ‘براہوئی میں میں نے ترجمے کاکام کیاہے نظمیں کا منظوم کام کیاہے‘سندھی میںنے کچھ غزلیں کہیں ہیں اب براہوئی والوں کی ڈیمانڈ ہے اور ہونی بھی چاہیے بلوچستان کامجھ پر قرض ہے اور میرا فرض ہے کہ میں یہاں کی زبان پرکام کروں اُردو کے ساتھ ساتھ مجھے براہوئی زبان میں بہت کام کرنا ہے اس زبان کے مجموے پرکام کرناہے مجھے غزلوں پرکام کرنا ہے ‘شاعری پر کام کرنا ہے جوکہ مجھ دے نہیں ہورہا وجہ پھر وہی ہے کہ مصروفیات ہیں ‘میں مطمئن نہیں ہوں لیکن اگر اللہ نے زندگی دی توکام ضرور کروں گی۔
س٭ اخبارات وسوشل میڈیا بلوچستان کے ادب پر احسن کام کررہاہے یا نہیں ؟
ج٭ بڑی معذرت کے ساتھ جتنا کرنا چاہیے تھا اتنا نہیں کر رہا خصوصاً اخبارات میں ‘میں جنگ کے بارے میں کہوں گی کہ کتنا بڑا نام ہے جنگ اخبار کا کہاں کہاں نہیں پڑھا جاتا اور سب اُس کوترجیح دیتے ہیں اُس کاادبی صفحہ دیکھا ہے آپ نے ‘کیا ہے اُس میں ؟وہی گھسی پٹی باتیں ‘ یہی پرانے کالم ہوسکتا ہے کہ وہی کالم دوبارہ بھی دہرائے گئے ہوں اُن کو پڑھتا کون ہے؟ کردار ادا کرو نئے شاعر لاﺅ ‘ادیب لاﺅ جوپہلے چھپتے تھے وہ بھی دل برداشتہ ہوکے بیٹھ گئے ہیں ظاہر ہے کہ رویہ ایسا ہوگا ‘سلوک ایسا ہوگا کہ لوگ اس سے دل برداشتہ ہوگئے ہیں پھر سوشل میڈیا اب بڑا سکوپ آ گیاہے لوگ وہاں متوجہ ہوگئے ہیں ۔اخباروں کوجو رول ہے ‘پرنٹ میڈیا ہے وہ کسی حد تک کم ہوتا جارہاہے البتہ ادبی رسالے وغیرہ اپناکام آج بھی احسن طور پر سرانجام دے رہے ہیں ‘ماہنامہ معلم ہے‘ ماہنامہ جہاں نما کوئٹہ ہے اور دوسرے ادبی رسائل ہیں ان پر کام ہورہاہے لیکن اخبارات کے ادبی صفحے کوپڑھنے کادل ہی نہیں کرتا۔
….٭….
خواتین کے حوالے سے عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریریں‘پیغامات ‘سیمینارز اور تصاویر
بلوچستان کامستقبل ‘ہماری خواتین صلاحیتوں میں کسی سی کم نہیں ‘جام
معاشرے کی بہتری کے لئے خواتین کو عملی سیاست میںآگے آنا ہوگا۔ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ
پاکستانی خواتین کسی بھی شعبہ میں مردوں سے کم نہیں ‘چیرمین سینٹ صادق سنجرانی۔تقاریب سے مختلف شخصیات کا خطاب
کوئٹہ ( رپورٹ ڈاکٹر عبدالرشید آزاد) وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہاہے کہ معاشرے میں خواتین کابہت بڑا ہاتھ ہے اگر وہ چاہیے تو سماجی شعبہ میںا نقلابی تبدیلیاں لاسکتی ہیں ہماری خواتین صلاحیتیوں میںکسی طرح کم نہیں ہیں خاص طور پر پارلیمنٹرینز خواتین کے روزگار اور ان کی فنی تربیت میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر وویمن پارلیمنٹریز کاکس کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا خواتین اور اراکین اسمبلی اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین نے تقریب میں شرکت کی ۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ بلوچستان کا مستقبل تابناک ہے جورقبے میں بہت بڑا اور آبادی میں بہت کم ہے اور عوام کودرپیش مسائل کاحل بہت زیادہ مشکل نہیں انہوںنے کہاکہ ہمارا معاشرہ ایسا ہے کہ صیحح منصوبہ بندی کی جائے تو نہ صرف بے روزگاری ختم ہوسکتی ہے بلکہ عوام کوایک معیاری طرز زندگی بھی فراہم کی جاسکتی ہے اور اگر عزائم اور ارادہ ہوتو یہ سب کچھ ممکن ہے‘وزیر اعلیٰ نے خواتین اراکین اسمبلی پر زور دیا کہ وہ اپنے اس پلیٹ فارم کو سیاست ‘حکومتاور حزب اختلاف کے لئے استعمال نہ کریں بلکہ اسے سوبے کی خواتین کی رہنمائی اور ان کی صلاحیتیوں کااجاگر کرنے کے لئے استعمال کریں ۔وزیراعلیٰ نے خواتین کی کشیدہ کاری اور دیگر مصنوعات کے اسٹالوں کامعاینہ کیا اور وہاں رکھی گئی اشیاءمیں گہری دلچسپی کااظہار کیا اور بالخصوص تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ان کی کارکردگی انتہائی اہم قرار دی انہوں نے وویمن ڈوہلپمنٹ کے زیراہتمام اقوام متحدہ کے اشتراک سے منعقدہ سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پارلیمانی سیکرٹری برائے وویمن ڈویلپمنٹ محترمہ ماہ جبیں بلوچ‘ سیکرٹری برائے ڈویلپمنٹ ساحرہ عطا اور دیگر متعلقہ حکام بھی اس موقع پر موجود تھے۔
٭ نیشنل پارٹی بلوچستان کے ساحل ووسائل کی جنگ لڑ رہی ہے خواتین کی شمولیت کے بغیر یہ جنگ جیتنا ممکن نہیں ہے بلوچستان کی خواتین جاگ چکی ہیں اور اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرسکتی ہیں وہ معاشرے کی بہتری کے لئے گھروں سے باہر نکل آئیں ان خیالات کا اظہار نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر وسابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ‘پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل جان محمد بلیدی ‘خواتین وونگ کی سیکرٹری وسابق صوبائی اسمبلی یاسمین لہڑی ‘صوبائی صدر عبدالخالق بلوچ‘ رحمت اللہ بلوچ ‘اور دیگر پارٹی رہنماﺅں نے کوئٹہ پریس کلب میں عالمی یوم خواتین کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہاکہ معاشرے کی بہتری کے لئے خواتین کو گھروں سے نکل کر عملی سیاست میں آگے آناہوگا نیشنل پارٹی کوپڑھے لکھے لوگوں کی ضرورت ہے نیشنل پارٹی وہ واحد تنظیم ہے جوکارکنوں پرمشتمل جماعت ہے آج خواتین کے حقوق کے حوالے سے دنیابھر میں منایا جارہاہے جب تک اپنے گھروں سے ہی شروعات کرنا ہوں گی
خواتین کومعاشرے کی بہتری کے لئے انہیں باہر نکالیں آج خواتین کے حوالے سے ہونے والے پروگراموں میں نیشنل پارٹی کی خواتین حقوق کی جنگ لڑنا جانتی ہیں نیشنل پارٹی خواتین کے حقوق کے حوالے کے لئے ہرفورم پر جدوجہد کرتی آ رہی ہے اور اب تک اس پارٹی نے خواتین کے حقوق کے لئے جتنے کام کئے ہیں کسی بھی پارٹی نے نہیں کئے۔پارٹی کاخواتین وونگ ایک فعال اور متحرک ونگ ہے انہوںنے کہا کہ ہماری پارٹی ایک لبرل پارٹی ہے اور اس میں مرد اور خواتین کے حقوق برابری کی بنیاد پرہیں ۔
چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے کہاہے کہ پاکستانی خواتین کسی بھی شعبہ میں مردوںسے کم نہیں ہیں ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ ہم ایسا ماحول جوخواتین کے آگے بڑھنے میں رکاوٹ نہ بنے۔خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ایوان بالا کے اجلاس کے دوران پیغام میں چیئرمین سینٹ نے کہاکہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر میںپاکستانی خواتین کی ملک وقوم کی ترقی میں گراں قدر خدمات کوخراج تحسین پیش کرتاہوں چیئرمیں سینٹ نے کہاکہ خواتین مردوں سے کم نہیں ہیں صادق سنجرانی نے کہاکہ اس اہم موقع پر ہمیں یہ عہد بھی کرنا ہوگا کہ ہم ایسا ماحول بنائیں کہ جو خواتین کے آگے بڑھنے میں رکاوٹ نہ بنے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما وصوبائی وزیر زراعت انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہاہے کہ عوامی نیشنل پارٹی نے ہمیشہ خواتین کے حقوق کے لئے جدوجہد کی باچا خان سے لیکر آج تک تعلیم کے شعبہ میں خواتین کوبھرپور نماےندگی دی ہے کیونکہ باچا خان نے اپنی تحریک شروع کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین کی تعلیم پر خصوصی توجہ دینے کی جدوجہد کی جس کی وجہ سے آج اگر پشتون معاشرے میں خواتین کواگر مقام حاصل ہے تو وہ تعلیم کی بدولت ہے کیونکہ تعلیم کے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا عوامی نیشنل پارٹی نےت ہر فورم پر خواتین کے حقوق کے لئے جدوجہد کی ہے انہوں نے کہاکہ صوبائی حکومت صحیح سمت پرچل رہی ہے اور حکومت اور اتحادی جماعتیں ملکر صوبہ کی ترقی وخوشحالی کے لئے اقدامات اٹھائیں گے کیونکہ ماضی میں جس طرح عوام کے ساتھ مذاق کیاگیا اب ان کودوبارہ نہیںدہرایا جائے گا ۔
….٭….
عالمی یوم خواتین آصف صمیم
٭ 8مارچ تمام عالم میں ” عالمی یوم خواتین “ کے طور پر منایا جاتاہے جسکا مقصد خواتین کوخراج تحسین ‘عزت ومان پیش کرنا ہوتا ہے اس دن عہد ِوفا کیاجاتاہے کہ حضرت انسان ماضی کی تمام تر لخزشیں اور انسان سوز سلوک سے پرہیز کرنے کے ساتھ ساتھ عورت کاوہ مان ومرتبہ اور منصب عطا کرے گا جس کی وہ اصل حقدار ہیں یقینناً ہم بھی کسی نہ کسی خاتون کے بطن سے ہی اس جہاںِ گل فشانی میں آئے تو اس لحاظ سے خواتین مردوں سے بہتر ہیں کیونکہ وہ کارخانہ قدرت کورواں دواں رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کررہی ہیں جس میں ان کی مثل یا ثانی کوئی اور نہیں انہی کی بدولت مناظر قدرت دلکش اور کائنات حسیں وجمیل نظر آتی ہے ان ہی کی بدولت کائنات میں دل سوز نغمے وجود میں آئے اور شاعر وادیب نے بے تحاشا موضوعات قلم بند کئے۔
خواتین ایک ہی وقت میں کئی کئی روپ بھی لئے ہوئے ہیں جس سبب ان کے اندر کئی طرح کی صلاحیتیں بھی ہیں جیست سریلی آواز کہ جس کو سن کر بچوں کے ساتھ بڑوں کے چہرے بھی کھل اُٹھتے ہیں ۔ماں کی صورت میں ان کے چہرے پرنظر ڈالنے سے ایک مقبول حج کاثواب ملتاہے ‘بیوی کی صورت میں راحت وسکون کاخزینہ ہیں اور بیٹی کی صورت میں رحمت الہیٰ کامظہر ہیں۔خواتین ہرلحاظ سے قدرت کاشاہکار ہیں جس ک نظیر ومثال کہیں نہیں ملتی خواتین اپنی ممتا ‘ادا‘وفا اور نرم دلی کے سبب تمام عالم میں قابل تحسین وصد افتخار بھی ہیں مردوں کے ساتھ ہرشعبہ ہائے زندگی میں شانہ بشانہ کھڑی ہیں کہیں پائلٹ‘ڈاکٹر‘نرس‘ انجیئنر ‘فوجی‘اور اُستانی کی صورت ملک وقوم کے لئے اپنے فرائض احسن طور پر سرانجام دے رہی ہیں توکہیں ماں ‘بیٹی ‘بہن اور بیوی کی صورت میں گھریلوانتظامات کے ساتھ بچوں کی تعلیم وتربیت میں جٹی ہوئی ہیں الغرض ہرجگہ خواتین اپنی صلاحیتوں کالوہا منوایا ہوا ہے۔ جیسا کہ درج بالا ذکر کیاگیاہے کہ خواتین ایک لحاظ سے مردوں سے بہتر ہیں لیکن اگر دیکھاجائے تو اس میں بھی مرد کااوج ِ کمال عروج پرہے اور اگر ذرا دور ماضی بعید میں دیکھا جائے تونظر آتاہے کہ حوا کی پسلی سے نکلی ہے یعنی وہ جز ہے کل نہیں اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ عورت کادرجہ ثانویت کادرجہ ہے اولیت کانہیں ۔
توفیس بک پرعورت نمامردوں کا”خواتین کومردوں سے بہتر“ بنانے کاشوشہ اور عورتوں کواس حوالے سے ذہن سازی کرنے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے کہ خواتین مردوں سے بہتر ہیں ۔آج کے دن پوسٹ مرد وعورت کے مقابلے یانمبر بڑھانے کی نہیں ہونی چاہیے آج خواتین کے وجود کااہم جز پیش کرنا چاہیے انہیں عقیدتیں پیش کیں جانی چاہیے ان کی ناموس وحفاظت کاعہد کرنا چاہیے انہیں ترقی کی راہ میں دعاﺅں سے نوازنا چاہیے نہ کہ مردوں سے بہتر پیش کرنے کی ناکام کوشش میں انہیں مردوں کے مدمقابل لاناچاہیے اگر آپ کے ہاں کوئی دلیل ہے کہ خواتین مردوں سے بہتر ہیں تو بتائیں ؟ ورنہ اپنی بات کی تصیح ضرور کریں ۔
….٭….
گھریلو عورت 8مارچ
شفقت عاصمی
مجھے آج کہااِک ناری نے
تم مجھ کو گنو‘ میرے کام گنو
اور کام کے سارے دام گنو
اس دام میں اُلجھے سانس گنو
اور سانس میں بہتا درد سنو
یہ درد مرا ہے بے بسی نہیں
یہ درد مرا سرمایہ ہے
مقروض ہیں سارے لوگ مرے
میں ساہو کار ہوں چاہت کی
میں دھرتی ماں کی بیٹی ہوں
میں تہذیبوں کاآنچل ہوں
میں پالن ہار تمہاری ہوں
تم مجھ سے ہو‘ میں تم سے ہوں
میں سچ ہوں اور حقیقت ہوں
بابا کی پیاری بیٹی ہوں
اماں کی راج دلاری ہوں
میں تیرے برابر ہوں بھیا
تومیرے جیسا ‘بیٹا ہے
تم میری حقیقت سے لوگو
اب آنکھ چراﺅ گے کیسے؟
میں سچ ہوں اور حقیقت ہوں
میں ساہو کار ہوں چاہت کی
مقروض ہیں سارے لوگ مرے
….٭….
عورتوں کے عالمی دن کے حوالے سے
عورت
افضال بیلا
کتاب زیست کی لوحِ بیاں بھی عورت ہے
سرورق بھی یہی ‘داستاں بھی عورت ہے
یہی ہے باعث ِ لطف وسرور امکانی
یہی ہے وجہِ بقائے حیات انسانی
اسی سے حرکت ِ دوراں ‘اسی سے رنگ ِ جہاں
اسی میں رونق ِ دُنیاکے رازہیں پنہاں
اسی میں الفت وشفقت ‘اسی میںممتا ہے
یہی وہ جذبہ ایثار ہے‘جویکتا ہے
کبھی متاع ِ دل وجاں بھی وار دیتی ہے
جبھی یہ حسن وادا سے بھی مار دیتی ہے
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
غزل
شاہدہ عروج
پھر نئے سورج کی کرنیں دے رہی ہیں یہ پیام
اے مری بہنوں ! اُٹھو محنت کرو صبح وشام
صبح راحت ہونے والی ہے کوئی دم میں طلوع
کوچ کرنے ہی کو ہے ارض ِ وطن سے غم کی شام
جہد کی راہوں میں سر پرتاج محنت کارکھے
ہاں یونہی بڑھتی رہو بااتحاد واحترام
تم مصائب کواگر ہنس ہنس کے سہنا سیکھ لو
زندگی میں ایک دن مل جائے گااعلیٰ مقام
ساقیِ میخانہ ملت بنو‘ محنت کرو
تب عوام الناس تک آئے گا بے شک دور جام
ہرقدم پرساتھ دینا ہے ہمیں اُن کا عروج
جوچمن میں کررہے ہیں فصلِ گل کااہتمام
نظم
حمیرا راحت
چوتھی سمت
بچپن میں اماں مجھ کو
ایک کہانی روز سنایا کرتی تھیں
شہزادے کواک یہی تاکید
ہمیشہ کی جاتی تھی
تین طرف بے شک وہ جائے
لیکن چوتھی سمت نہ جائے
اللہ جانے شہزادے پرکیا گذری
میں تو کہانی کے اس موڑ پر
سوجاتی تھی
بڑی ہوئی تو میں نے جانا
شہزادہ توتین طرف بھی جا سکتا تھا
لیکن میں
صرف اک سمت میں جاسکتی ہوں
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
جنگل
صدف غوری
کچھ سانپ تھے میرے رستے میں
ان سانپوں سے بچ کر نکلی
تب بھیڑیے میرے سامنے آئے
ان سے بھی چھڑالی جان مگر
انسانوں کے اس جنگل میں
میں کتنے بھیڑیوںسانپوں سے
بچ کر نکلوں؟
اک عورت ہونے کے ناطے
کیاجنگل کے بہروپ سبھی
انساں نے بھرے ہیں میرے لئے؟
یہ ظلم ہے کیا میری خاطر؟
یہ جبر ہے کیا میری خاطر؟
اے نکتہ ورو! انصاف کرو
مجھے ظلم وستم سے نکالو تم
مجھے اس دوذخ سے بچالو تم !
میں عورت ہوں
میں ماں بھی ہوںاور بیٹی بھی !