اک مسخ شدہ معاشرتی نظام

0 209

معاشرتی نظام کو سائنسی سوشلسٹوں نے تین حصوں (کمیونزم، سوشلزم، فاشزم) میں تقسیم کرکے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہیں کہ کس نظام میں کون کونسی خرابیاں پائی جاتی ہیں اور کونسی نظام میں معاشرتی، سماجی، اقتصادی، علمی اور شعوری ترقی ممکن ہے۔ شاید یہی وہ واحد وجہ ہے کہ آج دنیا نظریاتی جنگوں میں اس قدر گر چکا ہے کہ انسانوں نے انسان کی اپنی اہمیت کو پرے رکھ کر ہر شخص، گروہ اور ہر ریاست یا مفکر اپنی نظریات دوسروں پر توپنے کی بھر کوشش کر رہی ہے۔ ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہوگا کہ انسان کی سوچ تو کیا انسان خود بھی کوئی حیرانکن، تخلیق کار مخلوق نہیں سمجھا جاتا تھا جیسے کہ اللہ پاک انسان کو مخاطب کرکے قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ “اے انسان یاد کر جب تم کوئی قابلِ ذکر شے نہیں تھے” اور حقیقت بھی یہی ہے کہ انسان دماغی اعتبار سے ارتقاء پذیر ہوکر آج اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ وہ شاید اپنے خالق کو پہچاننے سے بھی انکاری ہے اور مخلوق سے بھی عیاری و مکاری میں بازی لے جانے میں پہل پہل۔ نظریہ ارتقاء اور اسلامی نقطہ نظر کو نہ چھیڑتے ہوئے بس یہاں چھوڑ دیتے ہیں کہ اسکی تمام تر صحیح اور معقول جوابات قرآن ہی سے مل سکتے ہے بشرطیہ کہ اسکی طرف توجہ دی جائے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانی دماغ میں روز نئے اور انوکھے خیالات و نظریات نے کب جنم لیا؟ انسان نے سوچنا کب سے شروع کیا؟ اور تو اور اپنے تخلیق سے خالق تک سب پر اعتراضات کا بوچھاڑ کرنے والا بھی کوئی اور نہیں انسان ہی ہے مگر شاید جہاں سے انسان نے سوچنے کا عمل شروع کیا اللہ تعالیٰ نے اس سے کہی زیادہ اور بہت پہلے یہ طے کرلیا کہ ایک مخلوق سوچنے اور سمجنھے والا ہی کیوں نہ بن جائے بس دیر تھی تو کُن٘ فَیَکُون کی جو میرے اللہ نے کہا ہو جا تو وہ ہو چکا۔ اور آج وہی انسان اپنے سوچنے کی صلاحیت کی خالق (جس نے سوچنے کی صلاحیت بخشی) کو بھی اپنے نظریات سے پرے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے تو کیوں؟ کیوں ہم انسان مختلف نظریات کو لے کر معاشرے کو اپنے تعصبانہ خیالات سے بگاڑنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہے جیسے جیسے ہم نے اپنے طفلانہ حرکات سے دنیا کو گلوبل وارمنگ، اوزون ہول اور ان جیسے کہی مشکلات میں مبتلا کر چکا ہے۔
پہلا معاشرتی نظام کمیونزم یا اشتراکیت جس کو رائج کرنے اور لوگوں کو اپنے ہم خیال بنانے میں خیالی سوشلسٹوں سے لے کر مارکس اینگلز اور دوسرے سائنسی یا حقیقی اشتراکی مفکروں نے کوئی کسر نہیں چھوڑا مگر بےسود! کمیونزم کے تحت انقلاب لانا بجا ہے مگر مزہب اور اخلاقیات کو ایک طرف رکھ کر کسی نظرئیے پر کام کرنا شاید انسانی زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہے کیونکہ انسان اور مزہب دو الگ الگ چیزیں کبھی نہیں ہو سکتے اور ناہی انسان مزہب کے بغیر خود کو مکمل اور متوازن محسوس کرتاہے۔ کمیونسٹ اور سیکولر حضرات کا مزہب بھی تو ہے! سائنس، جی ہاں سائنس! فرق اتنا ہے کہ ہمارا خدا (اللہ) سائنس کو پیدا کرنے والوں کا بھی خالق ہے مگر سائنس ہم انسانوں کی خالق نہیں ہوسکتی بلکہ ہم انسان اور ہماری سوچ ہی سیکولرزم کی خدا اور پیدا کنندہ ہے
لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اس دور جدید میں جہاں دنیا سیکولرزم، کمیونزم، سوشلزم، کیپیٹلزم یعنی سرمایہ دارانہ نظام اور نیشنلزم کی باتیں کر کر کے لوگوں کو بیوقوف سمجھ رہی ہے تو وہی ہم ابھی تک جاگیردارانہ نظام کے الجھنوں میں پھنسے سردار، میر اور نوابوں کے زیر سایہ روزی روٹی کو بھی ترس رہے ہیں۔ جہاں لوگ اسپیس شپ پر عید منانے کیلے پیسے (پاکٹ منی) بچا رہیں ہیں تو وہی ہم تعلیمی اداروں، معیاری تعلیمی نظام، قلم اور سر اٹھا کر زندگی کی بھیک مانگ رہیں ہیں۔ شاید اشتراکی مفکرین کی طرح ہم بھی مساوات، برابری اور انصاف پسندی کی گیت گاتے ہیں مگر وہ مزہب کو نکال کر کرتے ہیں تو ہم مزہب کو ساتھ لے کر کیونکہ مزاہب عالم اور بالخصوص اسلام سے بڑھ کر انصاف، برابری کی بات اور کون کرےگا؟ دنیا کے تمام مزاہب رواداری، میانہ روی، مخلصی محبت اور برابری کا درس دیتے ہیں تو مزاہب عالم سے ہمیں مسئلہ ہو تو کیوں؟
ہمارے ملک بالخصوص اس خطے (بلوچستان) کو سب سے زیادہ پیچھے دھکیلنے والے ہاتھ سرداروں، نوابوں اور جاگیر داروں کی ہیں جو عوام کو سولی پہ چڑھا کر اپنی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ جن کے لئے عام لوگوں کا روشن خیال بن جانا اور ترقی کرکے آگے جانا ایک درد سر سے کم نہیں ہوتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے 35 اضلاع میں سوائے چند کے باقیوں میں ہائیر ایجوکیشن نہیں بلکہ کسی اسکول کا صحیح اور منظم ہونا بھی سونے پہ سہاگہ سمجھا جائے گا کہ جہاں لوگ اعلی تعلیم حاصل کرنے اور مینڈک کی طرح کنویں سے باہر نکلنے کو اپنے لئے باعث فخر گردانتے ہیں۔
ہمیشہ ایک ہی واحد اور طے شدہ رستے پہ چلنے والے بھٹکنے سے ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جو کہ شاید پوری دنیا پر راج کرنے کا حقدار قرار دیئے گئے ہیں انکی منزل اور راستہ دونوں چنے ہوئے اور طے ہیں شاید اشتراکیت جہاں مساوات اور برابری ہی راج کرتی ہے یا کیپیٹلزم جہاں کاروباری شخصیات کا طوطا بولتا ہے مگر وہ روزگار بھی تو فراہم کرتے ہیں! شاید وہ نہتے عوام پر ظالم حمکرانوں سے کم ظلم کرتے ہونگے! ایک ہمارا نظام ہے کہ شاید مفکرین بھی حیران ہو کہ ہم کس نظام کے تحت اس ملک کو چلا رہیں ہیں؟ اسلام کے نام پہ بننے والا ایک ریاست ابھی تک اپنی سمت کا تعین نہیں کر پاتا تو کیوں؟ بمصداق اسکے کہ
“کبھی اس کے در
کبھی اسکے در
کبھی دربدر”
کہ ہم نے جاگیرداری نظام میں سرمایہ داری نظام کو ملاکر کچڑی بنا دیا تو کبھی اس میں اشتراکیت کی رنگ بھر دی تو کبھی سوشلزم کی بوں اس پر چھڑک کر اسکو بس دھکا دیکر چلانے کی کوششیں کی۔ یوں ہی راست گوہی سے کام لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ شاید ہماری حکومتی نظام بھی جمہوریت کے نام پہ ایک دھبہ ہے جہاں آمریت کی رنگ صاف دِکھنے لگتی ہیں اور کبھی اشرافیہ تو کبھی تموکریسی (دولت مند حضرات کا حکومت) اور جاگیرداری نظام کا عنصر تو شاید ہمارے نظام میں اس قدر زیادہ ہے کہ عوام روڈ پر نکل کر اپنے حقوق کے بجائے سردار اور نوابوں کو زندہ باد مردہ باد زیادہ کہتے ہیں۔
کبھی سرمایہ داروں کی حکومت ہے جو اپنے ملوں اور فیکٹریوں کو ملکی ساک سے زیادہ ترجیح دیتے ہیں تو کبھی ایک مخصوص کاروباری گروہ کی حکومت ہے جہاں عوام کو چور اور ڈاکہ زنی سے بچانے والے پولیس اور لیویز چیک پوسٹوں کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں! شاید ہماری سیاست کی بنیاد ہی ہمارے اپنے مفاد کے اوپر قائم ہے جو ملک و قوم اور عوامی حقوق سے بڑھ کر ہمیں عزیز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام اس مفاد پرست سیاست کی بھینٹ چڑھ رہی ہے اور سیاست دان بس اپنے ہی من کے بجائے مفاد میں ڈوبے ہوئے ہیں! شاید یہ نا ممکن ہو کہ اس ملک کو مفاد پرستوں کے چنگل سے آزاد کیا جائے مگر کوشش بھی تو کسی نے نہیں کی کیونکہ عوام بھی تو مفاد پرستی کے اعلی درجے پر فائز ہیں کہ آج مجھے صرف میں ہی نظر آتا ہوں نا کہ سامنے پڑے مجبور لاچار اور بے بس لوگ۔ حتی کہ شہ رگ سے نزدیک خدا کو بھی انسان نے فراموش کرنا شروع کردیا ہے جس نے انسان کو زمین پر اپنا نائب بناکے صرف اس لئے بھیج دیا کہ وہ ہر خیر و شر کی پہچان کرکے اسکو سنبھال پائے گی۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.