کینسر اب لاعلاج مرض نہیں رہا، ڈاکٹر فیروز خان اچکزئی

0 126

کینسر ایک سنگین اور مہلک بیماری ہے۔ جو اس وقت پیدا ہوتی ہے۔ جب جسم کے خلیے غیر معمولی طور پر بڑھنے اور تقسیم ہونے لگتے ہیں۔ یہ بے قابو خلیاتی تقسیم جسم کے کسی بھی حصے میں ہو سکتی ہے اور اکثر ایک گانٹ یا ٹیومر کی شکل اختیار کر لیتی ہے، تاہم خون کے کینسر (لیوکیمیا) میں یہ گانٹھ کی صورت میں ظاہر نہیں ہوتا۔ کینسر کی کئی اقسام ہیں جیسے کہ پھیپھڑوں کا کینسر، بریسٹ کینسر، پروسٹیٹ کینسر، کولوریکٹل کینسر، اور لیوکیمیا وغیرہ۔ ہر قسم کے کینسر کی علامات اور علاج مختلف ہو سکتے ہیں۔ عام علامات میں وزن میں کمی، تھکن، درد، جلد پر غیر معمولی تبدیلیاں، لمف نوڈز کا سوج جانا، یا غیر معمولی خون بہنا شامل ہو سکتے ہیں۔ کینسر کے پیدا ہونے کی وجوہات میں جینیاتی عوامل، تمباکو نوشی، الکوحل کا استعمال، غیر صحت بخش غذائیں، جسمانی سرگرمی کی کمی، موٹاپا، بعض وائرل انفیکشنز (جیسے ہیپاٹائٹس اور ایچ پی وی) اور ماحولیات میں موجود نقصان دہ مادے شامل ہو سکتے ہیں۔ کینسر کی تشخیص کے لیے مختلف ٹیسٹ کیے جاتے ہیں جیسے کہ بایوپسی، ایم آر آئی، سی ٹی اسکین، ایکسرے اور خون کے ٹیسٹ۔ علاج کی صورتیں بھی مختلف ہو سکتی ہیں جن میں سرجری، کیموتھراپی، ریڈیوتھراپی، اور امیونوتھراپی شامل ہیں۔ اگرچہ کینسر ایک مہلک بیماری ہو سکتی ہے، لیکن ابتدائی مرحلے میں اس کی تشخیص اور بروقت علاج کے ذریعے مریض کے صحت یاب ہونے کے امکانات بڑھائے جا سکتے ہیں۔ کینسر سے بچاؤ کے لیے صحت مند طرزِ زندگی اپنانا، متوازن غذا کھانا، ورزش کرنا، تمباکو نوشی سے پرہیز، اور باقاعدگی سے طبی معائنہ کروانا بہت اہم ہے۔ سمینار ہسپتال کوئٹہ کے معروف معالج ” ڈاکٹر فیروز خان اچکزئی ” جو کینسر کے علاج کے حوالے سے اب بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر فیروز خان اچکزئی ممتاز اور تجربہ کار ماہرِ کینسر (Oncologist) ہیں، جنہوں نے کینسر کے علاج اور تحقیق کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ وہ کینسر کے مریضوں کے تشخیص، علاج، اور نگہداشت میں مہارت رکھتے ہیں اور اپنی پیشہ ورانہ قابلیت، علم، اور مریضوں سے ہمدردی کے باعث ایک معتبر نام کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر فیروز خان اچکزئی نے طب کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر کینسر کے علاج میں تخصص (Specialization) حاصل کیا۔ انہوں نے جدید طبی تکنیکوں اور طریقہ علاج پر مہارت حاصل کی ہے، جن میں کیموتھراپی، ریڈیوتھراپی، امیونوتھراپی، اور جدید ادویات شامل ہیں۔ وہ مختلف اقسام کے کینسر جیسے بریسٹ کینسر، پھیپھڑوں کے کینسر، کولوریکٹل کینسر، اور خون کے کینسر (لیوکیمیا) کے علاج میں خصوصی تجربہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر اچکزئی کا مقصد نہ صرف مریضوں کو معیاری علاج فراہم کرنا ہے بلکہ انہیں ذہنی طور پر مضبوط بنانا اور بیماری کے خلاف حوصلہ افزائی کرنا بھی ہے۔ وہ مریضوں اور ان کے خاندانوں کو کینسر کی بیماری، اس کے علاج کے مراحل، اور ممکنہ نتائج کے بارے میں آگاہی دینے پر بھی خاص توجہ دیتے ہیں۔ ان کی تحقیق اور علمی مضامین نے کینسر کے علاج میں نئی راہیں ہموار کی ہیں، اور وہ مختلف قومی و بین الاقوامی کانفرنسز میں اپنے تحقیقی کام پیش کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر فیروز خان اچکزئی اپنے مریضوں کے لیے امید کی کرن اور کینسر کے خلاف جنگ میں ایک موثر اور سرکردہ معالج کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کا سینار ہسپتال کینسر کے مریضوں کے علاج کے لیے بہترین مثال بن چکا ہے گزشتہ کچھ عرصے میں سینار ہسپتال نے کینسر کے مریضوں کے علاج میں میں اس قدر کامیابی حاصل کرلی کہ اب ملک کے دوسرے شہروں سے بھی کینسر کے مریض سینار ہسپتال کوئٹہ علاج کی غرض سے لائے جاتے ہیں اور بلاشبہ اس کامیابی اور کامرانی کا سہرا نہ سینار ہسپتال کے سربراہ حافظ خوش نصیب جناب ڈاکٹر فیروز خان اچکزئی اور سینار ہسپتال کے دیگر ٹیم کے سر جاتا ہے ڈاکٹر فیروز خان اچکزئی کینسر کے مریضوں کے لئے نہ صرف امید کی کرن بلکہ ان کے لیے مسیحا کا درجہ رکھتے ہیں بلوچستان اور عوام کو اپنے اس محالج ڈاکٹر فیروز خان اچکزئی پر بجا طور پر فخر ہے سینار ہسپتال کینسر کے علاج کے حوالے سے اس قدر مشہور ہوچکا ہے کہ ہمسایہ ممالک ایران افغانستان سے بھی کینسر کے مریض یہاں لائے جا رہے ہیں اور مریضوں کے ورثا کے زبان پر ڈاکٹر فیروز خان اچکزئی کا نام ہوتا ہے وہ سینار ہسپتال کوئٹہ میں کینسر کے لاتعداد مریضوں کا علاج کرکے انہیں دوبارہ صحت مند انسان بنا چکے ہیں انتہائی خوش گفتار نرم مزاج انسان دوست مزاج کے مالک خصوصا غریب مریضوں اور ان کے خاندانوں کے لئے مسیحا ثابت ہونے والے یہ ماہرین اکثر و بیشتر غریب مریضوں کے مہنگے ادویات کی خرید میں بھی مدد کرتے ہیں اور حکومتی امداد کے علاوہ مخیر حضرات سے بھی ان کے علاج معالجے کے لئے مدد حاصل کرتے ہیں۔ ہم نے ان سے خصوصی ملاقات کا اہتمام کیا اور اس مہلک مرض اس کے ممکنہ علاج کے حوالے سے تفصیلی نشست کا اہتمام کیا۔ ان سے ہو نے والی گفتگو پیش خدمت ہے۔
سوال ۔ ڈاکٹر صاحب ۔۔۔ ہمیں وقت دینے کا شکریہ کینسر کے مرض پر اب تک کتنا کام ہوا ہے اور اس کے علامات اور علاج کے بارے میں ہمارے قارئین کو بتائیں۔۔؟
جواب ۔ جس طرح آپ کے علم میں ہیں کہ کینسر قدیم ترین بیماری کسی زمانے میں اس مرض کو لاءعلاج کہا جاتا تھا اور اس میں مبتلا انسان کو انسان کی موت کو یقینا سمجھا جاتا تھا موت تو برحق ہے یہ کینسر کے بغیر بھی آ سکتی ہے لیکن کینسر کے مریض کونیم مردہ تصور کیا جاتا تھا مگر وقت گزرنے اور اس مرض پر ریسرچ طریقہ علاج کے بعد آج طب اس پر قابو پانے میں کامیاب ہوچکا ہے سب سے پہلے مرض کی تشخیص ہوتی ہے اور ہمیں پتہ چل جائے کہ کینسر ہے اور مریض کنفرم ہو جائے تو پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اس مرض کا انسانی جسم میں اس کا پھیلاو کس قدر
ہے اس لیے مریض کے مختلف ٹیسٹ کیے جاتے ہیں جس میں سی ٹی سکین سب سے اہم ہے جو مکمل جسم کی تصویر کھینچتا ہے جس میں نظر آتا ہے کہ کینسر کے سیل کے جراثیم کہاں پڑے ہوئے ہیں اور اس کے اردگرد کے اعضاءپر کتنا اثر پڑا ہے پھر پیڈ سکین کیا جاتا ہے جس میں مریض کو گلو کوس کا ایک ٹیکہ لگایا جاتا ہے جو جسم کے اندر جاکر پھیلتا ہے ۔ جسے کینسر سیل استعمال کرتے ہیں جس سے ہمیں یہ پتہ چل جاتا ہے کہ یہ جراثیم کہاں کہاں پر موجود ہے اس کے بعد مریض کا الٹراساو¿نڈ کرایا جاتا ہے جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ کینسر کا پہلا مریض کے جسم میں کتنا ہے اس کے بعد پھر مریض کا ایم ار آئی کرایا جاتا ہے جس میں ہم دماغ پیٹ اور جسم کے دوسرے حصوں میں کینسر جراثیم کا پتہ چلاتے ہیں کہ کہاں کہاں پر اثرانداز ہوئے ہیں کینسر کا پتہ چلانے کے لیے دماغ کا ایم آر آئی ضروری ہے جس کے بعد ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہم نے کینسر کا علاج کس طرح کرنا ہے کہاں سے شروع کرنا ہے۔
سوال ۔۔۔؟ ڈاکٹر صاحب کینسر کے علاج کے لئے کیا طریقہ خاص ہوتا ہے۔
جواب ۔ مختلف ٹیسٹوں کے ذریعے ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ مرض کیا ہے اور اس کی ابتدا جسم کے کس حصے سے ہے اس کے بعد علاج کی طرف جاتے ہیں اگر کینسر جسم کے کسی ایک جگہ پر موجود ہو تو پھر ہم آپریشن کرتے ہیں جسے سرجیکل ٹریٹمنٹ کہا جاتا ہے اس جگہ کا آپریشن کیا جاتا ہے جہاں گھلٹی موجود ہے جسم سے وہ حصہ آپریشن کے ذریعے نکال دیا جاتا ہے،جس طرح بریسٹ کینسرمیں جراثم ایک ہی جگہ پر ہے تو اسے جس قدر جلدی آپریشن کر کے نکال دیا جائے اتنا ہی بہتر ہے لیکن آپریشن میں ہم وہ گھلٹی نکال سکتے ہیں جو ہمیں نظر آرہی ہے جسم میں جو کینسر کے چھوٹے چھوٹے سیل ہوتے ہیں وہ ہمیں نظر نہیں آتے جو وہاں سے نکل کر اردگرد غدودوں میں چلے جاتے ہیں اس لئے آپریشن کے بعد بھی بہت سی بیماریوں میں کمیو تراپی یا ایمنو تھراپی یا ریڈ یشن دینی پڑتی ہے کیونکہ وہ بیماری جو ہم نے نکالی ہے وہ ایک جگہ کے علاوہ جسم کے ارد گرد تھوڑے سیل موجود ہوتے تھے انھیں آپریشن کے فورا بعد ہنڈل کر نا پڑتا ہے اسی طرح ریڈیشن بھی ایک جگہ پر کی جا سکتی ہے بہت سی جگہوں پر نہیںجہاں کینسرایک جگہ فوکسڈ ہے اس کو جلا کر بان کر سکتے ہیں اس میں آج کل بڑے جدید طریقے بھی آ چکے ہیں ایسی مشین ہیں جن سے شعائیں ایک جگہ پر فو کس کی جاتی ہے تاکہ جسم کے باقی حصے متاثر نہ ہو ںایک نئی قسم کی ریڈیشن ہے جسے ” کیمانایف ” کہتے ہیں. سائبرنائف بھی پاکستان میں آچکی ہے جس سے کینسر سیل کو بہت بہتر طریقے سے جلا کر ختم کیا جا سکتا ہے خاص طور پر برین کینسر کو اس طریقہ علاج کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے تاہم اب زیادہ ٹارگیٹ طریقہ علاج پر توجہ دی جا رہی ہے کیمو تھراپی جب خون میں جاتی ہے تو کینسر کے سیلز کے علاوہ نارمل سیلز کو بھی متاثر کرتی ہے جس کی وجہ سے سر کے بال گر جاتے ہیں کمزوری ہوتی ہے الٹیاں آتی ہیں منہ میں چھالے بن سکتے ہے اس طریقہ علاج سے کینسر سیلز تو ختم ہو جاتے ہیں مگر مریض کو دیگر جسمانی مسائل آگھیرتے ہیں اس لئے یہ طریقہ علاج اب آستہ آستہ کم ہوتا جارہا ہے ہم وہ طریقہ علاج اختیار کرتے ہیں جو صرف کینسر کے جراثیم کا خاتمہ کریں اور باقی جسم متاثر نہ ہو کینسر کے علاج میں اب نئی چیز ٹارگیڈڈ تھراپیز ہے۔ یہ وہ خاص طریقہ ہے جو صرف کینسر سیل کو ٹارگٹ کرکے ایسی دوائیاں دی جاتی ہے جو جسم میں جاکر کینسر سیل کے ساتھ چپک جاتے ہیں اور انہیں نقل و حرکت کرنے نہیں دیتے اور جسم کے دوسرے حصوں میں نہیں جا پاتے اس طریقہ
علاج سے علاج میں انجکشنز بھی ہیں اور ٹیبلٹس بھی ٹیبلٹ جسم میں جاکر خون میں شامل ہو جاتے ہیں جو کہ کینسر جراثیم کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں دنیا بھر میں یہی طریقہ علاج اختیار کیا جا رہا ہے اور کینسر کے علاج پر تحقیق ابھی جاری ہے اور لگتا یہ ہے کہ آنے والے وقت میں کینسر کا علاج انجکشنزاور ٹیبلٹس کے ذریعے ہی ممکن ہو جائے گا اور کینسر کے علاج کے بعد سب سے اہم ایشو مریض کی خوراک ہے کیونکہ بعض مرتبہ خوراک سے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں اکثر یہ سناجاتا ہے کہ میٹھا کھانے سے کینسر ہو جاتا ہے ایسا ہرگز نہیں ہے اگر کینسر نے دوبارہ پھلناہے تو وہ میٹھا کھانے کے بغیر بھی اور بے احتیاطیوں کی وجہ سے بھی پھیل سکتا ہے البتہ کچھ ایسے کھا نے ہیں سے کینسر بڑھتا ہے جن میں پرانے بوسیدہ کھانا ٹین میں پیک کھانے و غیرہ شامل ہیں علاج کے بعد مریض کو موسم کے مطابق تازہ پھل کھانے چاہیے کینسر کے علاج کے بعد ورزش پر توجہ دینی چاہیے جو کینسرکو دوبارہ پیدا ہونے اور اسے پھیلنے سے روکتا ہے۔
سوال۔۔۔ بریسٹ کینسرسے کیسے بچا جاسکتا ہے۔۔؟
جواب ۔۔ پاکستان میں اس وقت 9 میں سے 1 خاتون میں بریسٹ کینسر کا شکار ہوتی ہے. بریسٹ کینسر کی گلٹیاں پہلی سٹٰیجز میں بغیر درد کے ہوتی ہیں لیکن لیکن آخری سٹٰیجز میں درد اور تکلیف میں شدت آ جاتی ہے خود کار بریسٹ ایگزمنشن ، اور میموگرام کے زریعے بھی تشخیص ہوجاتی ہے بریسٹ کینسر خواتین کو تو ہوتاہی ہے یہ مردوں کو بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ قابل علاج ہے اگر پہلی سٹیجز میں اس کی تشخیص ہو جاے. ہمت سے علاج کروانا چایئے۔ نہ کہ ڈپریس ہو کر اپنی رہی سہی قوت مدافعت کو ضایع کریں رب نے ہربیماری کی شفا نازل کر رکھی ہے ابتداءسٹیجز میں کینسر کے ادویات انتہاء موثر ہیں جب ہسٹری اور علامات کے مطابق درست پوٹٰینسی میں اک ماہرکینسر اسپیشلسٹ کے زیر نگرانی استعمال کروائی جائیں۔ عہد کریں، اپنے لیے 5 منٹ نکالیں.چھاتی کا کینسر دنیا بھر میں خواتین میں سب سے عام کینسر ہے۔ پاکستان ایشیا میں چھاتی کے کینسر کے سب سے زیادہ واقعات میں سے ایک ہے. باقاعدگی سے خود معائنہ کروا کر اور سالانہ میموگرافی کروا کر، آپ بروقت چھاتی کے کینسر کا پتہ لگا سکتے ہیں اور مناسب علاج شروع کر سکتے ہیں. روک تھام آپ کے ہاتھ میں نہیں ہو سکتی. ابتدائی پتہ ہے.پاکستان میں، ہر آٹھ میں سے ایک عورت اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر چھاتی کا کینسر پیدا کرتی ہے۔ ہر سال ہزاروں خواتین آگاہی کی کمی کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں، کئی خواتین اپنے صحت کے مسائل دوسروں کے ساتھ شیئر نہیں کرتیں اور کسی بھی قسم کے چھاتی کے معائنے کے لیے جانے سے شرماتی ہیں. یہ ایک سنگین بیماری ہے جو ہر سال لاکھوں افراد اور ان کے چاہنے والوں کو متاثر کرتی ہے، آئیے ان کے لیے امید بن جائیں کیونکہ اپنے دل میں تھوڑی سی امید رکھیں آپ کی زندگی بہت بہتر ہو جائے۔ مردوں کو بھی چھاتی کا کینسر ہو سکتا ہے.لیکن یہ اتنا عام نہیں ہے جتنا کہ خواتین میں ہوتا ہے. چھاتی کے کینسر کی تشخیص ہونے والے صرف 1 فیصد کی نمائندگی کرتا ہے. تمام لوگوں کو جن کے چھاتی ہیں انہیں چھاتی کی خود آگاہی میں حصہ لینا چاہیے۔اس کا مطلب ہے.اگر چھاتی میں تبدیلیاں ہیں، تو آپ کو اپنے ڈاکٹر کو بتانا چاہیے کوئی بھی چیز جیسے کہ گانٹ، جلد میں تبدیلی، نپل کا خارج ہونا یا نپل کا الٹا ہونا کینسر کی علامت ہو سکتی ہے۔اپنی خاندانی تسلسل کو جاننا قیمتی معلومات ہے۔ بریسٹ کینسر کا خاندانی تسلسل کے بارے میں سوالات پوچھنا ضروری ہے کیونکہ چھاتی کے کینسر اور کچھ دوسرے کینسروں کی خاندانی تاریخ ہونے سے چھاتی کے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے. اگر آپ کی چھاتی کے کینسر کی خاندانی تسلسل ہے، خاص طور پر نوجوان خواتین میں، تو آپ معمول سے پہلے اسکریننگ شروع کرنا چاہیں گے۔ اپنے ڈاکٹر سے بات کریں کہ آپ کے لیے کیا صحیح ہے۔
سوال۔ ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔ کیا بلوچستان میں کینسر کا علاج ممکن ہو چکا ہے۔۔؟
جواب۔ جی ہاں الحمداللہ بلوچستان اور بالخصوص کوئٹہ میں کینسر کا علاج ممکن ہو چکا ہے اس سلسلے میں سینار ہسپتال میں باقاعدہ طویل عرصے سے کینسر کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے جہاں کینسر کے ماہرین کو تمام تر سہولیات مشینری وغیرہ دستیاب ہیں اور اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اب تک سینکڑوں کینسر کے مریض صحت یاب ہو کر باقی لوگوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں ہمارے پاس کینسر کے بہترین ماہرین موجود ہیں جن کا کوئی ثانی نہیں ہے بی ایم سی میں کینسر کے بہترین وارڈ موجود ہیں ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ماضی کی طرح بلوچستان کوئٹہ کے مریضوں کو علاج کے لیے دوسرے شہروں میں نہ جانا پڑے ۔
سوال ۔۔۔؟ کینسر کا علاج انتہائی مہنگا ہے۔ غریب مریضوں کی کیا حالت ہوتی ہوگی۔۔۔؟
جواب ۔ آپ کا کہنا بالکل درست ہے بلوچستان چونکہ کے غریب صوبہ ہے اور یہاں غریب مریض آتے ہیںبلکہ ہمسایہ ملک افغانستان اور ایران سے بھی کینسر کے مریض لائے جاتے ہیں ان غریب مریضوں کے پاس سرنج تک کے پیسے نہیں ہوتے تاہم چند ایک سرکاری محکمے جس میں حکومت بلوچستان کی جانب سے صحت گارڈ ، بیت المال زکواةو عشر محکمہ سماجی بہبود کے تحت انڈومومنٹ عوامی فنڈ اور دیگر شامل ہیں اسی طرح مختلف این جی اوز اور مخیرحضرات بھی مریضوں کی مدد کرتے ہیں اور انہیں ادویات وغیرہ فراہم کرتے ہیں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بعض اوقات کینسر وارڈ کے ڈاکٹر بھی اپنی جیب سے کینسر کے غریب مریضوں کی مدد کرتے ہیں ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ اگرمہنگے ادویات کی مد میں مریضوں کی داد رسی کی جائے اور مہنگے ادویات ان کو سرکاری طور پر مہیا کئے جائیں توہم یہ دعوی کرتے ہیں کہ دوسرے صوبوں یا اسپتالوں کی نسبت ہمارے ہاں کینسر کے مریضوں کا بہترین اور سستا علاج ہو سکے گا
سوال ۔۔۔ سینار ہسپتال میں کینسر کے مریضوں کے علاج کے لیے تمام مشینری موجود ہیں۔…؟
جواب ۔ کوئٹہ میں کینسر پر کام کرنے والا سینار ہسپتال پورے صوبے کا واحد ہسپتال ہے جہاں صرف کینسر کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے سینار ہسپتال میں روزانہ کی بنیاد پر 150 مریضوں سے زائد مریضوں کا چیک اپ کرتے ہیں اور سالانہ بلوچستان سمیت ہمسائے ممالک ایران اور افغانستان سے پانچ ہزار مریض ہمارے پاس آتے ہیں جن کا علاج کرتے ہیں ہم سینار ہسپتال میں کیمیوتھراپی اور ریڈیشن طریقہ علاج استعمال کرتے ہیں جس کے وسائل ہمارے پاس موجود ہیں کینسر کے علاج کے لیے ہمارے پاس لنک ریڈیشن ہائی پاور جدید مشینری موجود ہیں جس کے ذریعے ہم شعاﺅں سے کینسر کے مریضوں کا علاج کرتے ہیں بلوچستان سے مردوں میں خوراک کی نالی میں کینسر اور خواتین میں بریسٹ کینسر کے زیادہ مریض آتے ہیں اور اگر سالانہ 5000 مریض آتے ہیں تو ان میں سے پانچ سو سے زائد چھوٹے بچے ہوتے ہیں سینار ہسپتال میں اکثر وہ مریض آتے ہیں جو چوتھے درجے پر پہنچ گئے ہیں
کینسر کے حوالے سے پاکستان میں کوئی نیشنل ڈیٹا سسٹم موجود نہیں ہے لیکن پاکستان آٹامک انرجی کمیشن اپنے 19 کینسر ہسپتالوں میں ڈیٹا اکٹھی کر رہے ہیں جس کا سالانہ ایک جامع میگزین بھی شائع کیا جاتا ہے۔
سوال ۔۔۔ ڈاکٹر صاحب ۔ ہر سال 4 فروری کو کینسر کا عالمی دن منایا جاتا یے۔ اس حوالے سے آپ کیا کہتے ہیں۔۔؟
جواب ۔ کینسر کے عالمی دن کا مقصد صحت عامہ کے مسئلے کے طور پر کینسر کے بارے میں آگاہی کو فروغ دینا اور معیاری دیکھ بھال، اسکریننگ، جلد تشخیص، علاج اور فالج کی دیکھ بھال تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کو تقویت دینا ہے۔ اس سال کا تھیم مہم کے دوسرے سال کی نشان دہی کرتا ہے “کیئر گیپ کو بند کریں” جو کینسر کی دیکھ بھال میں عدم مساوات کو سمجھنے اور ان سے نمٹنے کے لیے ضروری پیش رفت کرنے کے لیے اقدامات کرنے کے بارے میں ہے۔یہ دن ان سماجی اقتصادی عوامل کا جائزہ لینے پر بھی توجہ مرکوز کرے گا جو کینسر کی روک تھام، واقعات اور بقا میں تفاوت کا باعث بنتے ہیں، جیسے ثقافتی اور صنفی اصول، آمدنی اور تعلیم کی سطح، اور عمر، جنس، نسل، معذوری اور طرز زندگی کی بنیاد پر تعصبات۔ مزید برآں، کینسر سے متعلق آگاہی کو بہتر بنانے، کینسر کی روک تھام، تشخیص اور علاج میں پیشرفت میں معاونت، اور COVID-19 وبائی امراض کے ذریعہ نمایاں کردہ صحت کے نظام میں موجود خامیوں کو دور کرنے کے لیے کارروائی میں اضافہ کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ دنیا بھر کے مختلف خطوں اور ڈبلیو ایچ او کے ممالک میں ڈبلیو ایچ او اور شراکت داروں کے ساتھ انٹرویوز کے مواقع بھی ہوں گے۔ کینسر سے ہر سال پوری دنیا میں تقریباً 459000 اموات کا شکار ھوجاتے ہیں۔پچھلے پانچ سالوں میں، خطے میں کینسر کے تقریباً 1.6 ملین کیسز تھے، جو اسے ایک مسلسل بوجھ بناتا ہے جو افراد، خاندانوں اور کمیونٹیز پر زبردست جسمانی، جذباتی اور مالی دباؤ ڈالتا ہے۔ تقریباً 734000 افراد میں ہر سال کینسر کی تشخیص ہوتی ہے اور 2040 میں یہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ تشخیص کیے جانے والے افراد کی تعداد تقریباً 50 فیصد زیادہ ہوگی۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.