شہید ذوالفقار علی بھٹو امر ہوگئے
شہید ذوالفقار علی بھٹو امر ہوگئے
تحریر :محمد اسماعیل زہری . جنرل سیکرٹری پاکستان پیپلز پارٹی ضلع خضدار
ذوالفقار علی بھٹو شہید 5 جنوری 1928 کو سندھ کے شہر لاڑکانہ میں پیدا ہوئے آپ کے والد سر شاہنواز بھٹو جبکہ والدہ لیڈی خورشید بھٹو تھیں شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ابتدائی تعلیم لاڑکانہ میں حاصل کی پھر بمبئی چلےگئے اور وہاں کھیت ڈرل اسکول میں داخلہ لیا ذوالفقار علی بھٹو 1946 میں امریکہ چلے گئے جہاں انہوں نے سیاسیت جیورس پروڈونس اور بین الاقوامی قانون کی تعلیم کے لیے کیلی فورنیا یونیورسٹی کی لاس اینجلس برانچ میں داخلہ لیا وہاں سے سیاسیات میں بی اے انرز کیا 1950 میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلستان چلے گئے اور اکسفورڈ یونیورسٹی کے کراٹسٹ کالج میں داخلہ لیا انہوں نے تین سالوں کورس دو ہی سالوں میں مکمل کر لیا حالانکہ جو مضامین انہوں نے لے رکھے تھے ان میں رومن لاء لا تینی زبان میں پڑھنا اور پاس ہونا لازمی تھا ذوالفقار علی بھٹو نے اسی یونیورسٹی سے 1956 میں ایم اے سیاسیات کی ڈگری حاصل کی پھر باریٹ لاءکا امتحان پاس کرنے کے بعد انگلستان کی ساؤتھپئن یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کے پروفیسر مقرر ہوئے اس وقت تک ایشیا کے کسی مسلمان کو اس عہدے پر کام کرنے کا موقع نہیں ملا تھا اس دوران انہیں اپنے والد سر شاہ نواز بھٹو کی بیماری کی اطلاع ملی
پھر ذوالفقار علی بھٹو نومبر 1953 کو وطن لوٹ آئے پاکستان واپس آکر انہوں نے سندھ مسلم لاء کالج کراچی میں خدمات سرانجام دی 1957 میں اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کی قیادت کی اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی عمر 29 سال تھی مارچ 1958 میں بحری سرحدوں کے سوئرز لینڈ کے دارالحکومت جنیوا میں ہونے والے بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا 8اکتوبر 1958 میں ملک میں مارشل لا لگ گیا جناب بھٹو کی قابلیت اور ذہانت سے متاثر ہو کرجنرل ایوب خان نے انہیں اپنے کابینہ میں شامل کر لیا 28 اکتوبر 1958 کو انہوں نے معدنیات کے وزیر کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا 1960 میں انہیں امور اقلیت قومی تعمیرات اور اطلاعات کے وزارت بھی دے دی گئی 1960 میں معدنیات کے تلاش کے لیے روس سے معاہدہ کیا جولائی 1961 میں ایک کروڑ روپے کی سرمائے سے معدنیات اور گیس کی ترکی کی کارپوریشن قائم کی نومبر 1962 میں کراچی میں تیل صاف کرنے کا جدید ترین کارخانہ قائم کیا جب 1961 میں نہرو نے کشمیر میں جارحیت کا الزام لگایا تو ذوالفقار علی بھٹو نے اسے منہ توڑ جواب دیا اور مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی حمایت کے لیے چین برطانیہ مصر اور ائرلینڈ کے کامیاب دورے کیئے 23 جنوری 1963 کو وزیر خارجہ محمد علی بوگرا کی انتقال ذوالفقارکے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو قائم مقام وزیر خارجہ بنایا گیا تا ہم ایک مہینے کے اندر انہیں مستقل وزیر خارجہ بنادیاگیا
22 فروری 1963 کو چین کی سرحد بندی کے مذاکرات کے لیے پیکنگ گئے کامیاب مذاکرات کے بعد ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے نتیجے میں چین نے پاکستان کو 750 مربع میل مقبوضہ علاقہ دے دیا پوری دنیا میں اس واقعے کا بہت چرچہ ہوا اور ذوالفقار علی بھٹو کی کامیاب خارجہ پالیسی کو خراج تحسین پیش کیا گیا 10 جنوری 1966 کو معاہدہ تاشقند پر دستخط ہوئے ایوب خان نے میدان میں جیتی ہوئی جنگ میز پر ہار دی پورا ملک سراپا احتجاج بن گیا چنانچہ بھٹو نے بددل ہو کر 16 جون 1966 کو وزارت سے استعفی دے دیا اور عوامی رابطہ مہم شروع کر دی دو جون 1967 کو گول باغ لاہور میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا حکومت نے جلسہ روکنے کی بےحد کوشش کی مگر لوگ پھر بھی جلسہ گاہ میں پہنچ گئے حکومت نے منصوبہ بنایا تھا کہ بھٹو کو یہاں قتل کر دیا جائے اسٹیج پر حکومت کی کارندوں نے حملہ کر دیا مگر رکشہ ڈرائیور روشن علی نے ذوالفقار علی بھٹو کو وہاں سے نکال لے گیا 30 نومبر 1967 کو ڈاکٹر مبشر حسن کے قیام گاہ پر ایک ملک گیر کنونشن کے دوران ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کا اعلان کیا 16 مارچ 1968 کو لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کے افس کا افتتاح کیا 13 نومبر 1968 کو جناب ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر سے پولیس نے ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کر لیا ذوالفقار علی بھٹو کے گرفتاری کے خلاف پورے ملک میں سخت سے سخت احتجاج کیا گیا اور ہر شہر میں جلسے ہوئے اور حکومت سے نفرت کا اظہار کیا گیا ابتدائی طور پر ذوالفقار علی بھٹو کو میانوالی جیل میں رکھا گیا جنوری 1969 کو میاں والی جیل سے نکال کر ساہیوال جیل منتقل کر دیا گیا یکم فروری کو جیل سے نکال کر لاڑکانہ گھر میں نظر بند کر دیا گیا 14 فروری کو عوامی دباؤ میں آکر حکومت نے ملک سے ہنگامی حالت ختم کرنے کا اعلان کیا اس طرح 18 فروری کو ذوالفقار علی بھٹو کی رہائی عمل میں ائی پھر ذوالفقار علی بھٹو نے امریت کو اخری ضرب لگانے کے لیے رابطہ مہم تیز کر دی بالاخر 25 مارچ 1969 کو ایوب خان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور جنرل یحی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور ملک میں عام انتخابات کرانے کا اعلان کر لیا
دسمبر 1970 کے انتخابات میں مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی نے زبردست کامیابی حاصل کر لی جب کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو بھرپور کامیابی ملی جنرل یحی کا فرض تھا کہ وہ انتخابات کرنے کے بعد اقتدار منتخب نمائندوں کو سونپ دیتے مگر ہوس اقتدار نے انہیں ایسا کرنے نہیں دیا نتیجتا ملک بہرانوں کو نظر ہونا شروع ہو گیا اور بالاخر 16 دسمبر 1971 کو ملک دولخت ہو گیا اور اب جنرل یحیی خان اور ان کے ساتھیوں میں یہ حوصلہ نہیں تھا کہ عوام کے شدید غم نفرت اور غصے سے بھرے ہوئے جذبات کے اگے ٹھہر سکے مجبورا وہ اقتدار سے بھاگ نکلے اور یوں ذوالفقار علی بھٹو کو ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنا پڑی ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالنے کے بعد نہ صرف عوام کے حوصلے بلند کیے بلکہ پاکستان کو مستحکم بنایا اور اسے بین الاقوامی برادری میں ایک قابل احترام مقام بھی دلایا چار جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کر کے مری لے جایا گیا 24 روز کے بعد 28جولائی کو ذوالفقار علی بھٹو کی رہائی ہوئی دو ستمبر 1977 کو احمد رضا قصوری کے والد نواب احمد خان کے مقدمہ قتل کے سلسلے میں پھر گرفتار کر لیا گیا احمد رضا قصوری پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی رکنوں میں سے ایک تھے اختلافات کی وجہ سے 1973 میں وہ تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کی تین جون 1973 کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں ذوالفقار علی بھٹو اور احمد رضا قصوری کے درمیان تلخ کلامی ہوئی 19 ستمبر کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہائی کورٹ میں مولوی مشتاق سمیت پانچ رکنی بینچ مقدمہ کی سماعت کی مولوی مشتاق احمد بھٹو سے ذاتی عناد رکھتے تھے اور انہیں سخت ناپسند کرتے تھے جنرل ضیاء الحق نے مولوی مشتاق کو چیف جسٹس ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان کا چیف الیکشن کمشنر بھی مقرر دیا مولوی مشتاق اہم عہدوں پر تعینات ہونے کہ باعث جنرل ضیاء الحق کے احسان مند بھی ہو گئے لہذا انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمہ کی سماعت جنرل ضیاء الحق کے خواہش کی مطابق کی اور ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں ایسے ریمارکس بھی دیئے جو بھٹو صاحب کے لیے انتہائی اذیت ناک اور ناقابل برداشت تھے ذوالفقار علی بھٹو کے لیے مولوی مشتاق کے نفرت جناب بھٹو کے لیے سزائے موت کے اعلان پر منتج ہوئی مولوی مشتاق نے 18 مارچ 1978 کو ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت کا حکم سنایا لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمہ کی سماعت 10 ماہ سے زائد عرصہ جاری رہی سپریم کورٹ کے ساتھ میں سے چار ججز نے سزا بحال رکھی اور تین ججز نے ذوالفقار علی بھٹو کو بے گناہ ثابت کرتے ہوئے بری کر دیا سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کو بنیاد بنا کر چار اپریل 1979 کو رات دو بجے شہید ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا
شہید ذوالفقار علی بھٹو نہ صرف ایک محب وطن پاکستانی ایت ک عظیم انسان ایک زیرک سیاستدان اور دو مرتبہ عوام کے منتخب وزیراعظم بے مثال مقرر اور عوام کے انتہائی محبوب قائد تھے اور ایک بہترین مصنف بھی تھے اور ان کی تحریر کر چھ کتب بے حد مقبول ہوئیں
عدلیہ کے ماتھے پر سوالیہ نشان بینچ میں شامل جسٹس نسیم حسن شاہ اپنی کتاب (کانسٹی ٹیونشنل لاء اینڈ پاکستان اویئرنس ) میں لکھا ہے کہ ہم نے جنرل ضیا کے دباؤ میں ا کر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف فیصلہ دیا تھا
جناب اصف علی زرداری کی جانب سے ارٹیکل 186 کے تحت دائر صدارتی ریفرنس
ذوالفقار علی بھٹو کے پھانسی کے 30 سال بعد سن 2011 میں ان کے داماد اس وقت کے منتخب صدر پاکستان جناب اصف علی زرداری نے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر کیا جس میں اس نے موقف اختیار کیا
1اس سے قبل کسی بھی مقدمے میں محض اویئر کے بیان پر کسی کو سزائے موت نہیں ہوئی ہے
2نو رکنی بینچ کے دو ججز کے ریٹائرمنٹ یعنی درمیان میں کیس چھوڑنے کے بعد کسی دوسرے ججز کو منتخب کیے بغیر ان کی غیر موجودگی میں فیصلہ سنانا قانونی اور اخلاقی طور پر جائز نہیں ہے
3چیف جسٹس ہائی کورٹ مولوی مشتاق کی جانب سے مقدمہ سے ہٹ کر ذوالفقار علی بھٹو پر الزام لگانا کہ وہ نام کا مسلمان پر یہ صاف ظاہر ہے کہ اس مقدمے میں جانبداری موجود تھے
4ضیاء الحق کی تقاریر سے واضح ہے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہے اس لیے ان کے کہنے پر ذوالفقار علی بھٹو کو موت کی سزا سنائی گئی
5ذوالفقار علی بھٹو اور اویئر کے درمیان سازش کا کوئی ثبوت موجود نہیں تھا اس صورت میں انہیں بینیفٹ اف ڈاؤٹ کا بھی حق نہیں دیا گیا یوں اس صدارتی ریفرنس کے ذریعے عدالت کے اس فیصلے میں موجود متعدد قانونی رہنمائی مانگی گئی کہ ایا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائے جانے والا سزائے موت درست تھا یا نہیں
کیس کی سماعت 21 اپریل 2011 کو عدالت نے اپنے ارڈر میں سننے کے لیے پانچ سوال مختلف ارٹیکلز کے تحت ترتیب دیے تقریبا 12 سال بعد ایک دوبارہ سنایا گیا سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ نے چھ مارچ 2024 کو اس ریفرنس کا فیصلہ چیف جسٹس قاضی عیسی فائز نے سنایا شہادت کے 45 سال بعد عدالت کا مختصر فیصلہ ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا
سندھ اور بلوچستان کے صوبائی اسمبلیوں سے شہید ذوالفقار علی بھٹو کو قومی ہیرو قرار دینے کی قرارداد منظور کی گئی ہے جب کہ قومی اسمبلی میں ذوالفقار علی بھٹو کے سزا کو غیر قانونی قرار دینے کی قرارداد بھی منظور ہو گئی ہے یوں شہید ذوالفقار علی بھٹو پاکستانی عوام کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا
خاک میں ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ ہم نے سونا سپرد خاک کیا