سفرِ حجاز زندگی کا ایک منفرد و لازوال سفر

0 195

 

دنیا ایک کاروان سرائے ہے اور انسان اس کے راہی ہر کوئی اپنے مقدر کی پوٹلی اٹھائے کسی نہ کسی سفر پر گامزن ہے کہیں منزلیں قریب ہیں کہیں خوابوں سے بھی دور مگر سبھی رواں دواں ہیں کوئی بے قراری میں کوئی امید کے چراغ لیے کوئی مجبوریوں کی زنجیروں میں بندھا اور کوئی خوابوں کی تتلیوں کے تعاقب میں۔ کوئی ہے جو اپنے بچوں کے لبوں پر مسکراہٹ دیکھنے کی خاطر پردیس کی مسافتیں کاٹتا ہے۔ کوئی دل کو بہلانے کی خاطر پہاڑوں جھیلوں اور صحراؤں کی جانب نکلتا ہے کوئی علم کا متلاشی کتابوں کے دیس کی طرف کوچ کرتا ہے علم کے چراغ جلانے اور تحقیق کے سمندر میں غوطہ زن ہونے کے لیے۔ کہیں ایک مسافر روزی کے لیے زمینوں سمندروں اور سرحدوں کو پار کرتا ہے اور کہیں کوئی دل میں امید کی کونپلیں لیے شفا کی جستجو میں جدید اسپتالوں اور ماہر معالجوں کی تلاش میں سفر کرتا ہے۔ پھر وہ خوش نصیب بھی ہیں جو دین کی شمع تھامے دعوت و تبلیغ کی خاطر گلی گلی نگر نگر دلوں کو جگانے اور حق کا پیغام پہنچانے کے لیے نکلتے ہیں۔ ان کے قدموں میں اخلاص کی خوشبو اور لبوں پر ذکرِ خدا کی مٹھاس ہوتی ہے۔ اور کچھ وہ عاشقانِ حرم بھی ہیں جن کے نصیب میں “لبیک اللھم لبیک” کی صدائیں اور بیت اللہ کی پرنور فضاؤں میں سجدے بکھیرنا لکھا جاتا ہے۔ جب وہ حجازِ مقدس کا رخ کرتے ہیں تو دل میں صرف ایک ہی تڑپ ہوتی ہے رضائے الٰہی باقی ہر غم ہر خواہش ہر ہوس معدوم ہو جاتی ہے۔ مشاہدہ کیا جائے تو ان تمام سفروں میں اگر کوئی سفر سب سے بڑھ کر عظمت وقار اور روح کی گہرائیوں میں اُتر جانے والا ہے تو وہ ہے “حجازِ مقدس” کا سفر ایک ایسا سفر جو محض فاصلوں کا نہیں دلوں اور روحوں کا ہے جو جسم کو نہیں باطن کو جھنجھوڑتا ہے جو آنکھوں کو نہیں دل کو روشن کرتا ہے۔ یہ وہ سفر ہے جہاں انسان اپنی ہستی کو مٹی میں ملا کر بندگی کی معراج کو چھوتا ہے۔ جب وہ “لبیک اللہم لبیک” کی صدائیں بلند کرتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا پورا کائنات اس کی صدا میں شریک ہو گئی ہو۔ بیت اللہ کے سائے تلے دل لرزتے ہیں آنکھیں چھلکتی ہیں اور زبان بے ساختہ رب کی بڑائی بیان کرنے میں ڈوب جاتی ہے۔ یہ کوئی عام عمارت نہیں یہ وہ مقام ہے جہاں ہر ذی روح کی پیشانی خاک آلود ہو کر فخر محسوس کرتی ہے جہاں فرشتے بھی طواف کرتے ہیں اور جہاں زمین و آسمان کی وسعتیں سجدہ ریز ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح جب مدینے کے سبز گنبد پر نگاہ پڑتی ہے تو دل ٹھہر جاتا ہے سانس رک سی جاتی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے وقت کی گردش بھی ادب سے تھم گئی ہو۔ وہاں کی ہوائیں بھی درود پڑھتی ہیں در و دیوار بھی سلام کرتے ہیں اور عاشقوں کے قافلے صدیوں سے نبیِ مہربان ﷺ کی بارگاہ میں ادب و محبت کے چراغ جلانے آتے رہے ہیں۔ حج کے سفر میں صفا و مروہ کی سعی ہو یا منیٰ کے خیمے مزدلفہ کی خاموش راتیں ہوں یا عرفات کا دن ہر لمحہ ایک داستان سناتا ہے ہر جگہ ایک عظیم سبق دیتی ہے۔ جمرات کے کنکر محض پتھر نہیں شیطان پر فتح کی علامت ہیں۔ قربانی صرف جانور کا ذبح نہیں بلکہ اپنی انا غرور اور نفسانی خواہشات کے گلے پر چھری پھیرنے کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کلمہ گو مسلمان کے دل کی گہرائیوں میں ایک ہی تڑپ سلگتی رہتی ہے کاش زندگی میں ایک بار صرف ایک بار اُس سرزمینِ نور تک رسائی ہو جائے۔ جہاں قدم قدم پر انبیاء کے نقوش ہیں جہاں دعائیں آسمانوں سے ٹکراتی نہیں بوسہ پا لیتی ہیں جہاں جا کر انسان واقعی خود کو پہچانتا ہے اور اپنے رب کو پکارنے کا سلیقہ سیکھتا ہے۔ حجاز کا یہ سفر صرف سفر نہیں یہ عبادت ہے عشق ہے فنا ہے اور بقا کی تمہید ہے۔

الحمدللہ یہ ربِ کریم کی بے پایاں مہربانی اور فضل ہے کہ اس بندۂ خاکی کو دو مرتبہ “حج بیت اللہ” کے لیے حجازِ مقدس کی مقدس سرزمین پر حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ یہ سفر صرف مقامات کا سفر نہیں بلکہ روح کا ایک ایسا وجدانی سفر ہے جو انسان کو زمین سے اٹھا کر آسمانی قربتوں میں لے جاتا ہے۔ آج بھی جب اُن لمحات کو یاد کرتا ہوں تو دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور روح میں ایک لطیف سا ارتعاش دوڑ جاتا ہے۔ گھر کی دہلیز سے لے کر بیت اللہ کی پرنور فضاؤں تک کا ہر قدم ہر لمحہ ہر مقام دل و دماغ میں ایک روشن تحریر کی مانند ثبت ہے۔ ایامِ حج میں جب حاجی عرفات کے میدان میں جھولیاں پھیلا کر آنسو بہا رہے ہوتے ہیں جب سورج ڈھل رہا ہوتا ہے اور دلوں پر ندامت کی دھوپ چھائی ہوتی ہے تو وہ لمحہ گویا دنیا و مافیہا سے کٹ کر رب سے جڑنے کا لمحہ ہوتا ہے۔ پھر غروبِ آفتاب کے بعد مزدلفہ کا سفر بغیر آرام کیے کھلے آسمان تلے شب بسر کرنا پتھریلی زمین پر سونا کنکریاں چننا یہ سب محض اعمال نہیں یہ عاشقانہ اطاعت کے مظاہر ہیں۔ پھر صبح کی روشنی کے ساتھ منیٰ کا سفر جمرات کی طرف بڑھتے قدم اور شیطان کو کنکریاں مارنے کی سنت یہ سب جسمانی طور پر یقیناً مشقت طلب ہیں۔ پھر اسی دن حرم شریف پہنچنا طوافِ زیارت کرنا صفا و مروہ کی سعی اور اسی روز واپس منیٰ کا رخ یہ لمحے تھکن سے چور جسم کے لیے آزمائش ہوتے ہیں اکثر حاجیوں کے پاؤں چھالوں سے بھر جاتے ہیں سانس پھولتی ہے پیروں میں جان نہیں رہتی مگر سبحان اللہ ان تکالیف میں ایک عجیب سی لذت چھپی ہوتی ہے جیسے روح کسی بلند مقام پر پہنچ گئی ہو تھکن کے باوجود چہرے پر اطمینان درد کے باوجود لبوں پر تبسم اور جسم کی مشقت کے ساتھ دل کا سرور یہ کیفیت دنیا کے کسی سفر میں نصیب نہیں ہوتی یہ صرف اور صرف سفرِ حج کی عطا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے رب اپنے مہمانوں کو تھکا کر اُن کے دلوں کو قریب کر رہا ہو جیسے ہر چھالہ ہر آنسو ہر آہ عرشِ الٰہی پر سلام کہلوا رہا ہو یہ سفر دل و دماغ پر ایک ایسا روحانی نقش چھوڑ جاتا ہے جو عمر بھر مٹائے نہیں مٹتا۔ یہ محض مقامات کا طے ہونا نہیں یہ عشق و بندگی کا ایک لازوال سفر ہے ایک ایسی سعادت جس کی خوشبو روح کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے اور پھر ساری زندگی اُس خوشبو کا تعاقب جاری رہتا ہے جو ایک بار اس سفر کی لذت چکھ لیتے ہیں اُن کے دل میں ہر سال حج کی گھڑیاں یاد آتی ہیں ہر اذان پر بیت اللہ کی گونج سنائی دیتی ہے اور ایامِ حج میں اُن کا دل منیٰ عرفات اور حرم کی جانب اُڑان بھرنے لگتا ہے۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جسے لفظوں میں سمیٹنا ممکن نہیں اور جسے صرف وہی سمجھ سکتا ہے جس نے یہ روحانی بہار خود دیکھی ہو۔ ہر مسلمان کی دلی آرزو ہوتی ہے کہ بار بار اس در پر حاضری نصیب ہو اُس خاک کو چومے جس پر اللہ کے محبوب بندے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ مگر وسائل حالات صحت اور وقت جیسے کئی پردے اکثر اس تمنا کی راہ میں حائل ہو جاتے ہیں۔ پھر بھی دل ایک ہی صدا دیتا ہے “لبیک، اللّہم لبیک” خواہ جسم نہ جا سکے مگر روح ہر سال حرم کی گلیوں میں بھٹکتی ہے ہر طواف میں شامل ہوتی ہے ہر دعا میں گم ہو جاتی ہے۔ اور یہی وہ عشق ہے جو اس سفر کو باقی تمام سفروں سے جدا بلند اور لازوال بنا دیتا ہے۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.