جنگ ختم، نئی پابندیاں شروع، امریکا کا ایران پر دھماکہ خیز وار

0 72

جنگ ختم، نئی پابندیاں شروع، امریکا کا ایران پر دھماکہ خیز وار

12 روزہ ایران-اسرائیل جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا نے ایک بار پھر ایران کے توانائی کے شعبے کو نشانہ بناتے ہوئے نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ یہ پابندیاں ایک عراقی تاجر سلیم احمد سعید اور ان کی متحدہ عرب امارات میں رجسٹرڈ کمپنی پر لگائی گئی ہیں، جن پر ایرانی تیل کو عراقی تیل میں ملا کر غیرقانونی برآمدات کی کوشش کا الزام ہے۔

امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے بیان میں کہا کہ “ایران کو بارہا امن کا موقع دیا گیا، لیکن اس نے ہر بار انتہا پسندی کو چُنا”۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی محکمہ خزانہ ایرانی حکومت کے مالی ذرائع پر وار کرتا رہے گا تاکہ اس کے “تخریبی عزائم” کو روکا جا سکے۔

یاد رہے کہ 24 جون کو ایران-اسرائیل جنگ بندی کے بعد صدر ٹرمپ نے عندیہ دیا تھا کہ ایران پر سے توانائی کی پابندیاں اٹھائی جا سکتی ہیں، تاہم یہ نرمی زیادہ دیر نہ چل سکی۔

ٹرمپ نے حالیہ بیان میں انکشاف کیا کہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی اسرائیل کے خلاف “فتح کے دعوے” کے بعد انہوں نے فوری طور پر پابندیاں نرم کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ “میں نے اسرائیل کو خامنہ ای کو قتل کرنے سے روکا اور اسے ذلت آمیز انجام سے بچایا۔”

اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے تصدیق کی کہ ان کی حکومت خامنہ ای کو نشانہ بنانا چاہتی تھی، مگر موقع میسر نہ تھا۔

13 جون کو اسرائیل نے ایران پر بغیر کسی براہ راست اشتعال کے فضائی حملے کیے، جن میں سینکڑوں ایرانی شہری اور اعلیٰ فوجی افسران ہلاک ہوئے، جبکہ تین جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں میں امریکا نے بھی حصہ لیا۔

جواباً ایران نے اسرائیل پر میزائل داغے اور قطر میں امریکی فوجی اڈے کو نشانہ بنایا۔ امریکی صدر کے مطابق، ان حملوں نے ایران کے جوہری پروگرام کو “دو سال پیچھے دھکیل دیا”۔ تاہم ایران کے افزودہ یورینیم کے ذخائر کی موجودگی اب بھی ایک راز بنی ہوئی ہے۔

ایران نے حال ہی میں ایک قانون منظور کیا ہے جس کے تحت وہ اقوام متحدہ کے جوہری ادارے (IAEA) سے تعاون معطل کر دے گا، کیونکہ یہ ادارہ اسرائیل و امریکا کے حملوں کی مذمت کرنے میں ناکام رہا۔

ادھر ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے انکشاف کیا ہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان عمان اور قطر کے ذریعے خفیہ سفارتی روابط جاری ہیں تاکہ جنگ کو سفارتی حل کے ذریعے ختم کیا جا سکے۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.