توقیر احمد شریفی وہ جو وقت سے آگے سوچتا ہے
✍️ تحریر: امجد اقبال امجد
اگر کوئی شخص تخلیق اور تمدن کا ایسا سنگم ہو، جہاں الفاظ روح کی رگوں میں دوڑتے ہوں اور جذبے انسانیت کے وقار کو چومتے ہوں، تو وہ شخصیت انجینئر توقیر احمد شریفی کی ہے۔ ہم اکثر ایسے لوگوں سے متاثر ہوتے ہیں جو اسٹیج پر کھڑے ہوکر بولتے ہیں، مگر شریفی صاحب ان نادر شخصیات میں سے ہیں جو خاموشی سے بولتے ہیں — ان کا ہر عمل، ہر تخلیق، ہر خامہ کشی، اور ہر قدم ایک بیان ہے، ایک نقشِ دوام ہے۔
وہ محض ایک شاعر یا ادیب نہیں، بلکہ ایک فکری معمار ہیں، جو لفظوں کی اینٹوں سے آئندہ نسلوں کے لیے شعور کے محل تعمیر کر رہے ہیں۔ ان کا شعری کینوس محدود مضامین کا قیدی نہیں، بلکہ اس میں وقت، تہذیب، درد، جمال، اور تغیر کے ہزاروں رنگ ایک ساتھ جھلملاتے ہیں۔ وہ نظم لکھتے ہیں تو گویا کائنات کے بند دروازوں پر دستک دیتے ہیں۔ اور جب وہ فلاحی سرگرمیوں میں متحرک ہوتے ہیں تو ان کے ہر قدم میں انسان دوستی کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔
توقیر احمد شریفی اُن شخصیات میں شامل ہیں جو “ادب” کو محض زبانی لطافت نہیں سمجھتے، بلکہ ایک ذہنی، روحانی اور سماجی ذمہ داری کے طور پر نبھاتے ہیں۔ وہ اپنے وجود سے ایسے بے مثال کردار کا اظہار کرتے ہیں جو بیک وقت شاعر بھی ہے، سائنسدان بھی، اور معاشرتی رہنما بھی۔ وہ محفل میں چراغ بن کر آتے ہیں، مگر روشنی لے کر نہیں جاتے، بانٹ کر جاتے ہیں۔
ان کی تحریر میں نظریاتی استحکام اور فکری جدت کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ ان کے کلام میں کہیں فیض کی سی نرمی ہے، کہیں جوش کی سی للکار، اور کہیں احمد ندیم قاسمی کی سی مٹھاس۔ وہ روایت کی دھڑکن کو جدیدیت کی سانسوں میں ڈھالتے ہیں اور ہر مصرعے سے ایک نئی جہت کو جنم دیتے ہیں۔
ان کی سب سے بڑی خوبی شاید یہ ہے کہ وہ نہ صرف معاشرے کو آئینہ دکھاتے ہیں، بلکہ روشنی کا زاویہ بھی درست کرتے ہیں۔ یہی وہ وصف ہے جو انہیں ممتاز بناتا ہے۔ ان کے ہونے سے لفظ معنی پاتے ہیں، اور خیال کو پر لگ جاتے ہیں۔
ایک بار کسی نشست میں، ان سے پوچھا گیا :
> “آپ زندگی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟”
وہ مسکرائے اور کہنے لگے:
“میں زندگی کو وقت کا تسلسل نہیں سمجھتا، میں اسے جذبوں کی تدوین سمجھتا ہوں۔ ہر سانس، ہر لمحہ، ہر احساس — یہ سب میرے لیے تخلیق کے ذرائع ہیں۔”
بس یہی ایک جملہ کافی تھا یہ جاننے کے لیے کہ یہ شخص کتنا گہرا ہے، کتنا سچا ہے اور کتنا وقت سے آگے دیکھنے والا ہے۔
آج جب معاشرہ تیز رفتار شور میں خاموشی کی موت مر رہا ہے، ایسے میں توقیر احمد شریفی جیسے لوگ خاموشی کو صدا میں بدلنے والے معمار ہیں۔
ان کے کام، ان کی نظم، ان کی شخصیت — سب ہمیں یہی سکھاتے ہیں کہ زندگی گزارنا کافی نہیں، زندگی کو با معنی بنانا اصل کارنامہ ہے۔
ان کی شاعری کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ نظم کو روایت سے نکال کر حیاتِ نو کی طرف لے گئے ہیں۔ ان کی تازہ ترین شعری تصنیف “یکسوئی” دراصل ایک فکری دستور ہے، جو نوجوان نسل کو شعور کی سمت لے جانے والا چراغ ہے۔
اختتامیہ میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا:
توقیر احمد شریفی کسی فرد کا نام نہیں، ایک رویے کا نام ہے — وہ رویہ جو خامشی سے کام کرتا ہے، مگر اپنے نشان وقت کی پیشانی پر ثبت کر دیتا ہے۔*
> وہ لکھتے نہیں، تاریخ کی شہ رگ پر تحریر رقم کرتے ہیں۔
وہ بولتے نہیں، ان کا سکوت آئندہ نسلوں کی آواز بن جاتا ہے۔
دعا ہے یہ روشن چراغ سلامت رہے،
تاکہ ہم اندھیروں کو پہچانتے رہیں، اور روشنی کی سمت بڑھتے رہیں۔