شہید عثمان لالا کے برسی کا عظیم الشان جلسہ ، نئی تاریخ رقم کرگیا

0 79

تحریر/ سومیس سیم

پشتون خوا نیشنل عوامی پارٹی کے زیر اہتمام شہید ملت عثمان خان کاکڑ کی چوتھی برسی کے موقع پر 21 جون 2025 کو کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم میں منعقد ہونے والا جلسہ ایک عظیم الشان عوامی اجتماع کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ صرف ایک عام جلسہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک نظریاتی اور عوامی تحریک کی تجدید کا مظہر تھا جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ یہ جلسہ بلوچستان کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے کیونکہ اس میں صرف پشتون ہی نہیں بلکہ بلوچ، سندھی، سرائیکی، پنجابی، ہزارہ، ہندو، سکھ، عیسائی اور دیگر تمام قومیتوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھرپور شرکت کی۔ جلسے میں موجود ہر فرد نے یہ واضح پیغام دیا کہ عثمان خان کاکڑ ایک نظریہ تھے، اور ان کی سیاسی وراثت کو ہر مکتبہ فکر سے وابستہ لوگ تسلیم کرتے ہیں۔

جلسے کی سب سے نمایاں خصوصیت اس میں شرکت کرنے والی نوجوان نسل کی بڑی تعداد تھی۔ اندازاً اس جلسے میں شریک افراد میں 80 فیصد سے زائد نوجوان تھے، جو کسی بھی معاشرے کی ترقی، شعور اور سیاسی جدوجہد کے حقیقی معمار ہوتے ہیں۔ یہ نوجوان مختلف پس منظر سے تعلق رکھتے تھے—کالج اور یونیورسٹی کے طالبعلم، اساتذہ، سرکاری ملازمین، ڈاکٹر، انجینئرز، وکلاء اور چھوٹے کاروباری افراد—اور ان کی موجودگی اس امر کی نشاندہی کر رہی تھی کہ عثمان خان کاکڑ کی فکر اور جدوجہد نے نئی نسل کے اذہان و قلوب میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔ نوجوانوں کی یہ شرکت دراصل اس حقیقت کی علامت ہے کہ وہ اب فرسودہ روایات، قبائلی تعصب، جبر اور پسماندگی سے نکل کر ایک جدید، باشعور اور جمہوری پاکستان کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

خواتین کی شرکت اس جلسے کا دوسرا بڑا پہلو تھا، جو کہ بلاشبہ انقلابی نوعیت کا حامل ہے۔ بلوچستان جیسے قبائلی معاشرے میں، جہاں خواتین کی سیاسی سرگرمیوں میں شرکت کو ابھی تک محدود رکھا جاتا رہا ہے، وہاں اس جلسے میں ہزاروں خواتین کی باوقار اور باشعور شرکت نے معاشرتی ذہن سازی میں بنیادی تبدیلی کا اعلان کر دیا۔ ان خواتین کی شرکت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ صرف اپنے گھروں کی ذمہ داری تک محدود نہیں بلکہ وہ قوم کی سیاسی اور نظریاتی جدوجہد میں برابر کی شریک ہیں۔ ان خواتین نے واضح پیغام دیا کہ وہ فرسودہ رسوم و رواج اور شدت پسند بیانیے کو مسترد کر کے تعلیم، سیاست، ثقافت اور سماجی انصاف کی علمبردار بن چکی ہیں۔

یہ جلسہ افغانستان میں طالبان کے اس بیانیے کو بھی منطقی شکست دیتا ہے جس میں وہ پشتون خواتین کی سیاسی اور تعلیمی شمولیت کو ایک غیر اسلامی اور غیر ضروری اقدام تصور کرتے ہیں۔ جلسے میں خواتین کی بھرپور شرکت اس حقیقت کا اظہار ہے کہ پشتون خواتین نہ صرف اپنے حقوق سے آگاہ ہیں بلکہ وہ ان کے حصول کے لیے ہر ممکن قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ وہ طالبان کے رجعتی نظریے کو مسترد کرتی ہیں اور دنیا کو یہ پیغام دیتی ہیں کہ پشتون معاشرہ دراصل ایک جمہوری، روشن خیال، اور ترقی پسند معاشرہ ہے۔

سیاسی اعتبار سے یہ جلسہ اس وقت منعقد ہوا جب ملک میں جمہوری قوتیں کمزور پڑ رہی ہیں، سیاسی جماعتیں اپنے نظریاتی راستے سے ہٹ چکی ہیں اور ریاستی اداروں کی مداخلت عام ہو چکی ہے۔ ایسے حالات میں عثمان خان کاکڑ کے نظریاتی پیروکاروں کا اتنے منظم اور پرامن انداز میں جمع ہونا نہ صرف حوصلہ افزا ہے بلکہ ایک نئی سیاسی لہر کے آغاز کا اشارہ بھی ہے۔ اس جلسے نے ثابت کر دیا کہ عوام اب ان جماعتوں کو مسترد کر رہے ہیں جو ذاتی مفادات، خاندانی سیاست اور وقتی مصلحتوں کے تحت اپنے قومی نظریات سے انحراف کر چکی ہیں۔

یہاں ایک اور اہم پہلو بھی قابلِ ذکر ہے اور وہ ہے پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کا سیاسی ابھار۔ اگرچہ اس جماعت کو بنے محض دو سے تین سال کا عرصہ ہوا ہے، مگر خوشحال خان کاکڑ اور مختیار خان یوسفزئی کی قیادت میں یہ پارٹی نہایت سرعت کے ساتھ بلوچستان اور ملک کی ایک فعال، باشعور اور نظریاتی جماعت بن کر ابھری ہے۔ اس جماعت نے اپنے مختصر عرصے میں ایسی منظم سیاست کی بنیاد رکھی ہے جو نہ صرف قوم پرستی پر مبنی ہے بلکہ لبرل، جمہوری اور عوامی حقوق پر بھی زور دیتی ہے۔ جبکہ سابقہ قوم پرست جماعتیں عوامی اعتماد سے محروم ہو چکی ہیں کیونکہ وہ اپنے آئینی منشور اور قومی اہداف سے انحراف کر چکی ہیں، پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی نے ایک متبادل جمہوری اور نظریاتی بیانیہ فراہم کیا ہے جو نوجوانوں، خواتین، اقلیتوں اور تعلیم یافتہ طبقے کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔ آج یہ جماعت جوق در جوق عوام کی مقبولیت حاصل کر رہی ہے اور مستقبل قریب میں یہ بلوچستان اور پاکستان کی ایک صف اول کی قوم پرست اور لبرل جماعت کے طور پر ابھرے گی۔

اس جلسے کا تاثر صرف مقامی یا صوبائی سطح تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کے اثرات قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔ یہ جلسہ دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ پشتون معاشرہ طالبانائزیشن، شدت پسندی اور جبر پر مبنی سوچ کو یکسر مسترد کرتا ہے اور ایک ایسے پاکستان کا حامی ہے جو جمہوری، ترقی یافتہ، مساوات پر مبنی اور انسانی حقوق کا علمبردار ہو۔ اس جلسے نے یہ ثابت کر دیا کہ پشتون قوم کسی بھی ایسے نظریے کو قبول نہیں کرتی جو اسے ترقی، تعلیم، آزادی اظہار یا صنفی مساوات سے محروم رکھے۔
اس جلسے میں خواتین کی شرکت نے نہ صرف ایک سماجی روایت کو توڑا بلکہ اس نے یہ اعزاز بھی قائم کر دیا کہ پشتون اور بلوچ خواتین اب محض تماشائی نہیں بلکہ سیاسی جدوجہد کا فعال اور باشعور حصہ ہیں۔ ان کی شرکت ایک پیغام تھا کہ وہ اپنی آزادی، شناخت، تعلیم اور سیاسی حقوق کے لیے آواز بلند کرنا جانتی ہیں۔ یہ جلسہ بلوچ قوم پرست تحریک اور بلوچ سیاسی جدوجہد میں خواتین کی شمولیت کی حمایت کا ایک مظہر بھی تھا۔ جلسے میں مطالبہ کیا گیا کہ تمام بے گناہ خواتین، خاص طور پر بلوچ اسیر خواتین کو فوراً رہا کیا جائے، انہیں مین اسٹریم سیاست میں لایا جائے، اور ان کی آواز کو ہر فورم پر سنا جائے۔ یہ نہ صرف انسانی حقوق کا مطالبہ تھا بلکہ ایک سیاسی بیانیے کی وضاحت بھی تھی کہ بلوچستان کی خواتین اب اپنے حقوق سے آگاہ ہو چکی ہیں اور وہ اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ سیاسی میدان میں کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ اس جلسے کی خواتین نے ایک اور نہایت اہم بیانیہ بھی دنیا کے سامنے مسترد کیا: طالبان یہ باور کراتے ہیں کہ وہ پشتونوں اور افغانوں کی نمائندہ قوت ہیں، جبکہ اس جلسے میں خواتین کی واضح، باوقار اور بھرپور شرکت نے اس بیانیے کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ انہوں نے دنیا کو یہ دکھا دیا کہ طالبان دراصل ایک مسلط کردہ قوت ہیں، جنہیں افغان عوام پر طاقت، تشدد اور بیرونی سازشوں کے ذریعے تھوپا گیا ہے، اور وہ نہ تو پشتون معاشرے کی نمائندگی کرتے ہیں اور نہ ہی افغان ثقافت، سیاست اور خواتین کی آزادی کے علمبردار ہیں۔ جلسے کی یہ آواز صرف بلوچستان یا پاکستان تک محدود نہیں بلکہ یہ بین الاقوامی سماعتوں تک پہنچنے والی ایک مظبوط، منظم اور باشعور تحریک کی صورت اختیار کر چکی ہے۔
اس جلسے کی ایک اور خوبی اس کا منظم اور پرامن انعقاد تھا۔ لاکھوں افراد کی موجودگی میں نہ کوئی بدنظمی ہوئی، نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ، اور نہ ہی ریاستی اداروں کو کسی مداخلت کی ضرورت پیش آئی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نظریاتی جماعتیں اپنے کارکنوں کو نظم، برداشت، اور سنجیدہ سیاسی کردار ادا کرنے کی تربیت دیتی ہیں۔ شرکا کا نظم و ضبط، صفائی کا خیال، اور باہمی احترام ایک مہذب سیاسی کلچر کی تشکیل کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔

ملی شہید عثمان خان کاکڑ کی برسی کے موقع پر یہ جلسہ نہ صرف ان کی قربانیوں کا اعتراف تھا بلکہ ان کے نظریے کو زندہ رکھنے کا ایک واضح اظہار بھی تھا۔ شرکا نے جس جذبے، محبت اور شعور کے ساتھ شرکت کی وہ اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ عثمان کاکڑ صرف ایک فرد نہیں بلکہ ایک تحریک تھے، ایک نظریہ تھے اور ایک روشن مستقبل کی علامت تھے۔ ان کی جدوجہد آج بھی لاکھوں دلوں میں زندہ ہے اور ان کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے ایک مکمل نسل تیار ہو چکی ہے۔

یہ جلسہ دراصل ایک تاریخ ساز موقع تھا جس نے ریاستی اداروں، سیاسی جماعتوں، میڈیا اور دنیا بھر کو یہ پیغام دیا کہ جمہوریت کا سورج ابھی مکمل طور پر غروب نہیں ہوا۔ جب تک ایسے رہنما، ایسی جماعتیں اور ایسا باشعور عوامی طبقہ موجود ہے، تب تک اس ملک میں جمہوری، قومی، ترقی پسند اور عوامی سیاست زندہ رہے گی۔ پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی نے نہ صرف ایک جلسہ منعقد کیا بلکہ انہوں نے نئی سیاسی تاریخ رقم کی ہے۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.