طالبان اور روس مفادات کی نئی گٹھ جوڑ
قارئین کرام! روس کی جانب سے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنا بظاہر ایک سادہ سا سفارتی عمل معلوم ہوتا ہے، مگر اس کے پس منظر میں تاریخی تلخیاں، علاقائی تزویراتی تبدیلیاں، اور بین الاقوامی طاقتوں کی رسہ کشی چھپی ہوئی ہے۔ کبھی یہی روس، سابقہ سوویت یونین کی شکل میں افغانستان میں فوجی مداخلت کرکے لاکھوں جانیں ضائع کرنے کا ذمہ دار تھا، اور آج وہی روس طالبان کے لیے سیاسی اعتماد کا اظہار کر رہا ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف بین الاقوامی سیاست کی بدلتی ہوئی ترجیحات کی عکاسی کرتا ہے بلکہ اس بات کی بھی شہادت ہے کہ عالمی طاقتیں اصولوں سے زیادہ مفادات کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں۔روس نے یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا ہے جب امریکہ اور یورپ اب تک طالبان کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں، اور افغانستان کو ایک “نظرانداز شدہ” تنازعے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ روس، جسے اب خود بھی مغربی پابندیوں اور سفارتی تنہائی کا سامنا ہے، اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے طالبان کے ساتھ قربت بڑھا رہا ہے تاکہ وسط ایشیاء میں اپنے اثرورسوخ کو مضبوط کیا جا سکے۔ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا مطلب روس کے لیے نہ صرف ایک نیا اتحادی حاصل کرنا ہے بلکہ افغانستان کے قیمتی معدنی وسائل، تجارتی راہداریوں اور اسٹریٹجک جغرافیائی حیثیت تک رسائی حاصل کرنا بھی ہے۔ یہ اقدام روس کے “نیو گریٹ گیم” کا حصہ ہے، جس کے ذریعے وہ وسط ایشیائی ریاستوں میں اپنی گرفت مضبوط بنانا چاہتا ہے۔تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو روس اور افغانستان کا رشتہ ہمیشہ پیچیدہ رہا ہے۔ 1979ء کی سوویت جارحیت اور پھر 1989ء کی پسپائی نے افغان عوام کو روس کے خلاف ایک فطری نفرت عطا کی تھی۔ مگر حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ آج اسی افغانستان کی باگ ڈور ایک ایسی قوت کے ہاتھ میں ہے جس نے اس وقت روسی جارحیت کے خلاف ہتھیار اٹھائے تھے، اور اب وہی روس ان کو تسلیم کر رہا ہے۔ طالبان بھی روس کی اس پہل کو محض سفارتی کامیابی نہیں بلکہ اپنی عالمی حیثیت کی بحالی کا ذریعہ سمجھتے ہیں، کیونکہ اس سے انہیں اقوام متحدہ میں ممکنہ نشست، بین الاقوامی فنڈنگ اور علاقائی تسلیم حاصل ہو سکتا ہے۔روس کو اس فیصلے سے کچھ فوری فوائد بھی حاصل ہوں گے۔ سب سے پہلے، طالبان کے ساتھ براہ راست روابط اسے افغانستان میں موجود شدت پسند گروپوں جیسے داعش-خراسان پر دباؤ ڈالنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ دوسرا، طالبان کی حکومت کے ساتھ معاہدوں کے ذریعے روس معدنیات، تیل، گیس اور تعمیراتی منصوبوں میں داخل ہو سکتا ہے، جس سے اس کی معاشی مشکلات میں کمی ممکن ہے۔ تیسرا، اس فیصلے کے ذریعے روس یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ مغرب کے بغیر بھی اپنی خارجہ پالیسی آزادانہ طے کر سکتا ہے اور نئے اتحادی بلاکس بنا سکتا ہے۔تاہم روس کے اس فیصلے سے کچھ خطرات بھی وابستہ ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ طالبان کی حکومت پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، خواتین کی تعلیم پر پابندی، اقلیتوں کے حقوق کی پامالی، اور سیاسی شمولیت کے فقدان جیسے الزامات ہیں۔ اگر روس ان امور پر آنکھیں بند رکھتا ہے تو یہ نہ صرف اس کی بین الاقوامی ساکھ کو متاثر کرے گا بلکہ اس کے اندرونی مسلم اکثریتی علاقوں میں بدامنی کی لہر بھی پیدا کر سکتا ہے، جہاں پہلے ہی مذہبی انتہا پسندی کے جراثیم موجود ہیں۔ اگر افغانستان دوبارہ انتہاپسند گروہوں کا مرکز بن گیا تو اس کا براہ راست اثر روس کی سلامتی پر پڑ سکتا ہے۔
پاکستان، ایران، چین اور وسط ایشیائی ممالک کے لیے بھی روس کا یہ فیصلہ ایک نئی صف بندی کا اشارہ ہے۔ ان ممالک کو اب یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا وہ طالبان کے ساتھ کھل کر روابط بڑھائیں یا محتاط رہیں۔ روس کے ساتھ کھڑا ہونا بظاہر ایک نفع بخش انتخاب ہو سکتا ہے، مگر اس کے لیے طالبان کو داخلی اصلاحات، جامع حکومت اور علاقائی ہم آہنگی کی طرف بڑھنا ہو گا۔ بصورت دیگر، یہ گٹھ جوڑ محض کاغذی اتحاد ثابت ہو گا۔آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ روس کا طالبان کو تسلیم کرنا ایک سفارتی موڑ ہے جو آنے والے وقت میں علاقائی سیاست کو نئی شکل دے گا۔ طالبان کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ عالمی سطح پر اپنی ساکھ بحال کریں اور داخلی و خارجی چیلنجز کا دانشمندی سے مقابلہ کریں۔ روس کے لیے یہ ایک تجربہ ہے جس کی کامیابی طالبان کے طرز حکمرانی، علاقائی ردعمل اور عالمی منظرنامے میں تبدیلی پر منحصر ہے۔ اگر یہ گٹھ جوڑ صرف وقتی مفاد کی بنیاد پر قائم رہا تو ممکن ہے کہ آنے والے دنوں ۔میں یہی فیصلہ روس کے لیے ایک نیا درد سر بن جائے۔