شہیدڈاکٹر صمد خان اچکزئی مزاحمت کی پہچان، بیداری کی آواز
تحریر: جاوید خان اچکزئی
ڈاکٹر عبدالصمد خان اچکزئی ایک فرد نہیں، ایک تحریک، ایک نظریہ، اور پشتون افغان ملت کی بیداری کا وہ الاؤ تھے جس نے محکومی کی تاریکی میں روشنی کی کرن ڈالی۔ وہ صرف سیاستدان نہ تھے، وہ پہاڑ جیسے حوصلے، فولاد جیسے اعصاب اور شعور کی وہ چنگاری تھے جسے نہ توپ بجھا سکی، نہ بندوق، نہ زہر، نہ سازش۔
انہوں نے پوری زندگی پنجابی اسٹیبلشمنٹ، سامراجی جرنیلوں اور ان کے ریاستی جاسوسی اداروں کی غلامی، جبر، اور چالاکیوں کو بےنقاب کیا۔ وہ کھلے لفظوں میں بولتے تھے کہ یہ ریاست ایک مخصوص طبقے کے قبضے میں ہے، جہاں آئین، عوام اور ووٹ محض تماشا ہیں۔ انہوں نے اپنے کارکنوں، قوم اور مظلوم طبقات کو سکھایا کہ غلامی کو قسمت نہ مانو، بغاوت کرو، آواز اٹھاؤ، اور شعور کے ہتھیار سے ظالم کو للکارو۔
وہ نہ جھکے، نہ بکے، نہ رکے۔ وہ میدان میں آخری لمحے تک کھڑے رہے۔
لیکن 4 جولائی کا دن…
وہ دن تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے، جب ایک پہاڑ کو پہاڑوں میں مار کر شہید کیا گیا۔
چمن کے درہ کوژک کے مقام پر دن دہاڑے ریاستی اداروں اور انکے پالتو بزدل قاتلوں نے ان کی گاڑی کو نشانہ بنایا۔ اندھا دھند گولیاں چلائی گئیں۔ یہ کوئی عام حملہ نہیں تھا، یہ ایک نظریے، ایک مزاحمت، ایک پوری ملت کی روح پر حملہ تھا۔
اس بزدلانہ حملے میں شہید ڈاکٹر عبدالصمد خان اچکزئی کے ساتھ اُن کے دیرینہ رفیقِ کار، ایک اور سچے قوم پرست، عبدالرزاق بھی شہید ہو گئے۔ ان کے گاڑی میں موجود دیگر ساتھی شدید زخمی ہوئے۔ دشمن سمجھتا تھا کہ وہ ایک رہنما کو مار کر تحریک کو ختم کر دے گا، لیکن وہ بھول گیا کہ پہاڑوں پر گرنے والا خون، قوموں کے مقدر میں انقلاب لکھتا ہے۔
ڈاکٹر شہید کو پہاڑ کی چوٹیوں پر مارا گیا، لیکن ان کی فکری بلندی اُس پہاڑ سے بھی بلند تھی۔ انہوں نے ہمیں صرف مزاحمت نہیں سکھائی، انہوں نے ہمیں اپنی تاریخ، اپنی شناخت، اپنی زمین، اپنے وسائل، اور اپنی خودمختاری کے لیے لڑنا سکھایا۔ انہوں نے کہا:
زندگی عزت سے گزارو، یا لڑ کر مر جاؤ… لیکن غلامی ہرگز قبول نہ کرو!
آج 19 برس بیت چکے ہیں، لیکن ڈاکٹر شہید کا لہو آج بھی زندہ ہے۔ اُس کی للکار آج بھی ایوانوں میں گونجتی ہے، اُس کی سوچ آج بھی نوجوانوں کے دلوں میں بیداری پیدا کرتی ہے، اور اُس کی شہادت ہر ظالم کو یاد دلاتی ہے کہ حق کو دبایا جا سکتا ہے، مگر مٹایا نہیں جا سکتا۔
ہم اس عہد کے ساتھ اُنہیں سلام پیش کرتے ہیں کہ:
ہم تمہارے مشن کو مکمل کریں گے،
ہم تمہاری سوچ کو نسل در نسل منتقل کریں گے،
ہم غلامی کی ہر زنجیر کو توڑیں گے،
اور تمہارا نام، تمہارا مشن، اور تمہاری شہادت ہمارا پرچم بنے گی!
سلام ہو کوژک کے اُس پہاڑ پر بہنے والے خون کو،
سلام ہو اُس مزاحمت کو، جو آج بھی زندہ ہے!