سی پیک کے تحت بننے والی چاٸنہ گوادر یونیورسٹی کی لا ہور منتقلی

0 149

کالم نگار _ : سید فضل الرحمن ۔

ای میل ایڈریس:

syedfazalurehman@gmail.com

دنیا میں ترقی یافتہ ملکوں نے تعلیم ہی کے بدولت ترقی کے منازل طے کیے یے ۔اور تعلیم ہی کے ذریعےاپنے ساٸنسی ایجادات کے بدولت حکمرانی کو دوام دے رکھی یے۔ لیکن وطن عزیز میں بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص کی گٸی رقم کو دیکھ کر ایسا لگتا یے ۔کہ اس میدان سے ہمیں کوٸی سروکار نہیں ۔ ہمارے ہاں ایک طرف تو مختلف نظام تعلیم کی وجہ سے انتشہار کاشکار یے ۔عصری اداروں میں دو زبانوں میں تعلیم کی وجہ سے مساٸل جنم لے رٸے ہیں۔ابتک ہم پورے سسٹم میں کسی ایک زبان پر متفق نہیں ہوسکے۔ اہلیٹ کلاس کی تعلیمی زبان انگریزی اور مڈل اور غریب طبقے کی تعلیمی زبان سرکاری اداروں میں اردو کے ذریعے دی جارٸی ہیں ۔
دوسری جانب مختلف فر قے اپنے اپنے مدرسوں میں علحیدہ کورسز اور بورڈ کے ذریعے تعلیم دےرٸے ہیں۔
ہزاروں عصری اور مہزبی اداروں کے ہوتے ہوٸے تسخیر کاٸنات اور ساٸنسی ایجادات میں سب سے پچھے ہیں ۔مدرسوں کے طالب علموں سے جب اس جانب سوال کیا جاتا یے جوابأ نکا کہنا یے۔ کہ ہم اپنے میدان میں کامیابی کے جانب گامزن یے ۔یہ کام تو یونیورسٹیز میں پڑھنے والوں کا یے ۔کہ ساٸنسی ایجادات کرسکے ۔ لیکن بدقسمتی سے ان اداروں میں نماز کے لیے جانے والے افراد اپنے چپل اور بوٹ کی چوری کے ڈر سے خشعیت الہی سے نماز بھی نہیں پڑھ سکتے ہیں۔ معاشرے میں اسلامی تربیت دور کی بات مسجد کے اندر کمیرے کے موجودگی میں چوری نہیں روک سکتے ۔
کچھ عرصہ قبل بلوچستان یونیورسٹی اور اب بہاولپور یونیورسٹی اسکینڈل نے جس محاز میں ناموری حاصل کی یے۔ انکا بھیانک چہرہ دیکھ کر قباٸلی معاشرے کے افراد تعلیم سے دوری اختیار کرنے پر مجبور ہوگٸے یے۔ ان اداروں میں ریسرچ کا عالم یہ یے ۔کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالات میں فلجرزم (نقل) اپنے عروج پر یے ۔ایم فل کے طلبہ اپنے تیسیز کچھ پیسوں کے عیوض دوسروں سی مکمل کرواتے ہیں ۔
چین نے سی پیک کے تحت پاکستان میں بڑے منصوبے شروع کر رکھے ہیں ۔اسی منصوبوں میں گوادر کے نام سے گوادر میں یونیورسٹی کا قیام تھا ۔تاکہ بلوچستان اور گوادر کے لوگ اس ادارے سے مسنفید ہوسکے ۔
لیکن پچھلے دنوں پی ڈی ایم کے حکومت نے اسمبلی میں 25 نٸی یونیورسٹیوں کے قیام کا بل اسمبلی سے پاس کیا جسکا قیام صوبہ پنجاب میں ہونا یے ۔
حیران کن بات اس وقت سامنے آٸی۔ جب سی پیک کے تحت بننے والی گوادر یونیورسٹی کی لاہور منتقلی کا بل اسمبلی سے پاس ہوا۔بلوچستان کی نماٸندگٸ کرنے والی جماعتوں جس میں قوم پرست پارٹی بی این پی مینگل اور جمعیت علماء اسلام اور تمام نماٸندگان کی خاموشی باعث تشویش ہیں۔ بلوچستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوٸے۔اس طرح کے نااقبت اندیش فیصلے صوبے کے عوام کے احساس محرومی میں اضافہ کا سبب بن رٸے ہیں قومی یک جہتی کو نقصان پہنچانے والوں کا مواخذہ ہونا چاٸیے۔
مسلم لیگ ن اگر چہ ملک کے اوپر بارہاں حکمرانی کرچکی یے۔ لیکن تخت لاہور کی زہنیت سے باہر نہ نکل سکے ۔ لاہور کے اندر بے شمار تعلیمی اداروں کی موجودگی میں گوادر کے نام سے نٸے یونیورسٹی کے قیام سے ساٸنسی انقلاب اور ایجادات تو نہیں ہونگے ۔الغرض بلوچستان کی احساس محرومی میں اضافہ ضرور ہوگا۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.