سید سلیمان گیلانی کی خود نوشت نقوش حضوری
. خود نوشت لکھنا جو صداقت اور حقائق پر مبنی ہو بہت ہی مشکل ہے جارج برناڈشا نے تو 16 self sketches میں اس سے بھی زیادہ سخت بات کہہ دی ہے۔ شاء خود نوشت کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتا ہے لیکن میں جس اللہ کے بندے کی خود نوشت کی بات کر رہا ہوں وہ سچائی اور راست بازی کا پیکر متحرک ہے ۔ میں چند شخصیات کی خود نوشتوں کے بارے میں تمہید کے طور پر ذکر کرتا چلوں تو قاری کے لئیے نقوش حضوری میں سروری محسوس ہو گی ۔ جناب غفور شاہ قاسم پاکستانی ادب پر جو تحقیق کی ہے اس کی جستجو میں میری ارزو جاگ رہی ہے ۔ نصف صدی کی پاکستانی ادب کی شناخت کا مطالعہ ایک ادیب کے لئیے ضروری ہے ۔ مشفق خواجہ نے اپنے کالم میں اب بیتی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اب بیتی ایک عجیب و غریب صنف ادب ہے جس کا موضوع بظاہر تو لکھنے والے کی اپنی ذات ہوتی ہے لیکن بحث عموما دوسروں کے اعمال و کردار سے کی جاتی ہے لکھنے والے کو اجازت ہوتی ہے کہ ہر اس بات کو پھیلا کر بیان کرے جس کا اصل موضوع سے کوئی تعلق نہ ہو اور ہر اس بات کو نظر انداز کر دے جس سے اصل موضوع پر روشنی پڑنے کا امکان ہو اب بیتی لکھنے والے اپنا ذکر ایسی عقیدت و محبت سے کرتے ہیں جیسے وہ اپنے حالات نہیں لکھ رہے ہیں بلکہ کسی خوش اعمال بزرگ اور محترم ہستی کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھا رہے ہیں اس مقصد کے لیے اپنے شجرہ ء نسب میں تبدیلی سے لے کر ہر قسم کے واقعات میں رنگ امیزی تک کو جائز سمجھا جاتا ہے اب بیتی لکھنے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ لکھ رہا ہے اس کے لیے کسی دستاویزی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کی ذات فیض رساں ہی تمام سچائیوں کا سرچشمہ ہے اب بیتی کو یادوں اور یادداشتوں کا مجموعہ کہا جاتا ہے لیکن اپ بیتی میں یادوں اور یادداشتوں کی ترمیم شدہ یا حسب منشا صورت ہی نظر اتی ہے حافظہ اول تو کام نہیں کرتا اور اگر کرتا ہے تو مصنف کی مرضی کے مطابق مواد فراہم کرتا ہے اس لیے اپ بیتیوں میں بہت سے ایسے واقعات بھی شامل ہو جاتے ہیں جن کے وقوع پذیر ہونے کا امکان ماضی میں تو کیا مستقبل میں بھی نہیں ہوتا ۔۔
مولانا عبدالماجد دریا ابادی کی خود نوشت اپ بیتی کے نام سے شائع ہوئی تھی جو ان کی ذہنی اور فکری کشمکش کی حسین داستان ہے یہ خود نوشت حقیقت نگاری کا نہایت اعلی نمونہ تا ہم ایک نقاد کے بقول انہوں نے اپنی اب بیتی میں تجزیہ باطن کا وہ مظاہرہ نہیں کیا کہ جس سے ان کی ذات کے تہہ در تہہ اسرار کا پردہ چاک ہو سکتا ۔ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کی اب بیتی ۔ رو میں ہے رخش عمر ۔ عبدالمجید سالک کی اب بیتی ۔ سرگزشت ۔ ہے یہ ایک ہمہ جہت ہمہ گیر ادیب کی خود نوشت ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد اردو کی قابل ذکر تصنیف ہے اغا اشرف کی ۔ ایک دل ہزار داستان ۔ بیتی کہانی ۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل شہر بانو کی کہانی دریافت کی ہے رشید احمد صدیقی کی سرگزشت اشفتہ بیانی ۔ مرزادیب کی خود نوشت مٹی کا دیا ۔ جوش ملیح ابادی کی ۔ یادوں کی بارات ۔ قدرت اللہ شہاب کا شہاب نامہ ۔ ممتاز مفتی کی خود نوشت علی پور کا ایلی۔ احسان دانش کی جہان دانش اب بیتی جہان دانش مشتاق احمد یوسفی کی زرگزشت ۔ شورش کاشمیری کی اب بیتی پس دیوار زنداں ۔ ڈاکٹر وزیر اغا کی خود نوشت شام کی منڈیر سے ۔ ادا جعفری کی جو رہی سو رہی بے خیری رہی ۔ پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ وہ نثر پر بھی پوری گرفت رکھتی ہے۔ بیگم اختر حسین رائے پوری کی اپ بیتی ہمسفر ۔ ڈاکٹر یوسف حسین خان کی خود بیتی یادوں کی دنیا ۔ مختار مسعود کی تصنیف لوح ایام ۔ کشور ناہید کی بری عورت کی کتھا ۔ ڈاکٹر یوسف عباسی کی خود نوشت نوک خار ۔ اغا بابر کی خودنوشت خد و خال ۔ حمایت علی شاعر کی منظوم خود نوشت قابل ذکر ہے انتظار حسین کی یادوں کا دھواں ابوالفضل صدیقی کی کہاں کے دیر و حرم ۔ اکبر حمیدی کی جست بھر زندگی ۔ رانا تاب عرفانی کی اپلوں کا دھواں ۔ رفعت سروش کی پتہ پتہ بوٹا بوٹا ۔ چوہدری سردار محمد کی متاع فقیر ۔ جلیل قدوائی کی حیات مستعار ۔ کمانڈر سید انور کی ایک زخمی دل کی اب بیتی ۔ طارق اسماعیل ساگر کی میں ایک جاسوس تھا ۔ انیس ناگی کی ایک بھولی ہوئی سرگزشت ۔ جاوید شاہین کی میرے ماہ و سال شامل ہیں ۔ سید سلیمان گیلانی کی خود نوشت میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی اور نقوش حضوری میں دو گونہ سروری ہے ۔ نقوش حضوری خود نوشت کا انتساب سید سلیمان گیلانی نے ڈاکٹر خالد محمود سومرو نور اللہ مرقدہ اور انہی کی طرح جری و جی داران کے لخت جگر عزیزم راشد محمود سومرو کے نام نامی سے منسوب کیا ہے ۔ انتساب ثانی علم و ادب دوست محترم برادرم علامہ عبدالستار عاصم اور ان کی اہلیہ محترمہ کے نام جن کے ساتھ سید سلیمان گیلانی کے خاندان کے دیرینہ مخلصانہ تعلقات موجود ہیں جو ربع صدی پر محیط ہیں مولانا محمد اورنگزیب اعوان نے قلم فاؤنڈیشن کے سربراہ عبدالستار عاصم کو شاندار خراج تحسین پیش کرتے ہوئے سید سلیمان گیلانی سے اپنی پرانی یادوں کے چراغ روشن کیے اور انہوں نے کہا کہ کرونا نے سید سلمان گیلانی کو موقع فراہم کیا کہ انہوں نے اپنی یادداشتیں لکھنا شروع کیں تو 512 صفحات کی کتاب تیار ہو گئی یہ کتاب کیا ہے 70 سالہ تاریخ ہے جس میں علماء و مشائخ کے ساتھ شعرا ودابا کے تذکرے بھی ہیں کشف و کرامات کے ساتھ ساتھ اوراد و وظائف بھی ہیں خوابیں بھی ہیں اور ان کی تعبیرات بھی یہاں سلمان گیلانی قدرت اللہ شہاب ۔ ممتاز مفتی ۔۔ واصف علی واصف اور اشفاق احمد کا پر تو نظر اتے ہیں مولانا اگے چل کر رقم طراز ہیں ہم ان سے پرانے واقف ہیں وہ دور بھی یاد ہے جب 1994 میں اپنے دوست چشتی صاحب کے تبادلہ کے حوالے سے وہ اسلام اباد تشریف لائے تو قیام ہمارے ہاں ہی تھا ایک روز عصر کے وقت ہم شکرپڑیاں گھومنے چلے گئے وہاں ایک جگہ بیٹھ کر انہوں نے ایک غزل جو پڑھنی شروع کی تو حسیںناؤں کا مجمع لگ گیا سلمان گیلانی خوبصورت تو ویسے ہی ہیں سرمگی انکھیں مخصوص لہجہ اسلام اباد کا ماحول ڈوبتا سورج اور شکر پڑیاں کا سبزہ زار وہ ماحول بنا کہ جان چھڑانی مشکل ہو گئی زیر نظر کتاب میں ان کی شخصیت کا دینی و روحانی رخ پڑھنے کو ملتا ہے خود ان کے والد گرامی سید امین گیلانی کے کئی ایمان پرور واقعات اس کی زینت ہیں سلمان گیلانی نے جنہیں دیکھا اور جن سے متاثر ہوئے ان کا ذکر خیر بہت اچھے انداز میں کیا ہے حیران کن بات یہ ہے کہ ان مشاہیر میں مولانا کوثر نیازی اور مولانا اللہ وسایا کا ذکر خیر نہیں حالانکہ یہ دونوں ان کے خاص چاہنے والوں میں سے ہیں قائد جمیعت مولانا فضل الرحمن کی بیماری علاج معالج کرامت اور گلاب کا پھول ایک انکشافاتی مضمون ہے سید سلمان گیلانی نے اس کتاب میں بہت کچھ سمو دیا ہے شاعری میں تو مبالغہ ہوتا ہی ہے اور انہوں نے نثر میں بھی بعض مقامات پہ قلم توڑ کے رکھ دیا ہے بہر طور اس کی فنی خوبیوں سے انکار ممکن نہیں اشارے کنائے میں جو باتیں انہوں نے کہہ دیں باذوق اور واقف اسرار احباب بھی ان سے لطف اٹھا سکتے ہیں جدید تعلیمی اداروں کے طلبا و طالبات کو سید سلمان گیلانی کی تصویر کا یہ رخ بھی دیکھنا چاہیے وہ ایک مزاحیہ شاعر ہی نہیں صوفی صافی بزرگ بھی ہیں بقول ان کے ایک ارادت مند کے طنز و مزاح میں انہوں نے اپنی روحانیت کو چھپا رکھا ہے اور اس کی دلیل کتاب میں درج وہ منامی بشارات اور روحانی مشاہدات ہیں جو خود ان کے ساتھ پیش ائے ۔ بہر طور یہ کتاب ایک خود نوشت ہی نہیں تاریخی دستاویز بھی ہے اور صد ہا مبارک باد کے مستحق ہیں جناب علامہ عبدالستار عاصم کہ انہوں نے اسے بہترین انداز میں شائع کیا ہے قیمت اس کی 5000 ہزار سکہ رائج الوقت درج ہے اپ علامہ صاحب سے رابطہ کریں ان کے اخلاق کریمانہ سے امید ہے کہ اپ کے ساتھ خصوصی رعائت برتیں گے کتاب حاصل کرنے کے۔ قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل والٹن روڈ لاہور کینٹ پاکستان 03000515101 qalamfoundation2@gmail.com