بلوچستان میں حالیہ قتل عام
تحریر۔حمادرضا
کہا جاتا ہے کہ لکھاری بہت حساس طبیعت کا مالک ہوتا ہے وہ معاشرے میں ہونے والے اتار چڑھاو ¿ کو کچھ الگ انداز میں دیکھتا اور محسوس کرتا ہے ایک دفعہ کسی دانشور سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ ایک عام آدمی اور لکھنے والے میں کیا فرق ہوتا ہے؟ تو دانشور نے جواب دیا کے ایک لکھنے والا دنیا کو ایسے دیکھتا ہے جس طرح عام آدمی کسی عورت کو یہی وجہ ہے کہ جب بھی معاشرے میں کوءاندوہناک واقعہ پیش آتا ہے تو سب سے پہلے قلم قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد ہی اس کی مذمت کرنے کے لیے میدان میں اترتے ہیں اسی طرح کا ایک واقعہ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب بلوچستان میں پیش آیا جس میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے غریب مزدوروں کے خون سے ہولی کھیلی گءاور ہم سب جانتے ہیں کہ یہ کوءپہلا واقعہ نہیں جس میں اس برادری کو ٹارگٹ کا نشانہ بنایا گیا ہو اب تو قبرستان کے قبرستان آباد ہو چکے ہیں جن میں پڑے مردوں کی روحیں آج بھی سوال اٹھاتی نظر آتی ہیں کہ ہمیں کس جرم کی پاداش میں موت کی نیند سلایا گیا اس قسم کے واقعات کے پیچھے چاہے کوءبھی ملوث ہو اسے آپ اندرونی ہاتھ کا نام دیں یا بیرونی ہاتھ کا اگر ایک ہی طرز کے واقعات پے در پے رونما ہوتے رہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ حکومتِ وقت عوام کو تحفظ دینے میں پوری طرح ناکام ہو چکی ہے بلوچستان میں دہشت گردی وہ چبھتا ہوا کانٹا ہے جو اب ناسور کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے بد قسمتی سے اس قسم کے واقعات میں ملوث ملزمان کی پہلے تو شناخت ہی نہیں ہو پاتی اگر شناخت کر بھی لی جا? تو جرم ثابت کرنا انتہاءمشکل ہو جاتا ہے کیوں کہ اس قسم کے واقعات میں قاتل کا ذاتی عناد بلکل شامل نہیں ہوتا وہ تو صرف ایک کٹھ پتلی کا کردار ادا کر کے چلتا بنتا ہے اور ہم صرف لکیر پیٹتے رہ جاتے ہیں دو ہزار سات میں بھی جب مختلف دہشت گرد گروپ طالبان کے پرچم تلے جمع ہو رہے تھے تو ہم چپ چاپ بیٹھ کر ان کی یہ سرکس دیکھتے رہے سوات میں انھوں نے اپنا ایف ایم ریڈیو تک چلائے رکھا ہم پے جوں تک نا رینگی جب پانی ہمارے سر تک پہنچ گیا تب بھی ہم گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی تسبیح پڑھتے رہے اسی طرح بلوچستان میں بی ایل اے اور دیگر متحرک گروپوں نے ایک عرصے سے بلوچستان کو یرغمال بنا رکھا ہے لیکن آج بھی ہم ا نہیں ناراض بلوچ ہی قرار دیتے ہیں اور ان کی قومی دھارے میں شامل ہونے کی امید لگائے بیٹھے ہیں یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ان سب کے پیچھے بھارت کا بھیانک اور مکروہ چہرہ ہے جو کبھی بلوچوں کو آزادی کے لیے اکسا کر اور کبھی فرقہ وارانہ فسادات کروا کر اپنے گھناو ¿نے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ نے ایک خاص پالیسی مرتب کی وہ پالیسی یہ تھی کہ دہشت گردوں کے ہاتھ اپنے گریبان تک پہنچنے ہی نا دیے جائیں ان کا پوری دنیا میں پیچھا کر کے ان کا خاتمہ کر دیا جائے انھوں نے تمام مطلوبہ افراد کی ایک لسٹ تیار کی اور پھر سوڈان یمن پاکستان افغانستان عراق شام میں چن چن کر ان کو نشانہ بنایا گیا حتیٰ کہ القاعدہ جیسے گروپ کو اپنی نءقیادت چننے کے لالے پڑ گیے جبکہ ہمارے غدارانِ وطن بھارتی ایئر پورٹوں پے یہ تک کہتے رہے کے ہمیں کتا کہلوانا منظور ہے لیکن ہمیں پاکستانی نا پکارا جائے جس سے آپ ان کی پاکستان سے نفرت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں اور انہیں کوءپوچھنے والا بھی نہیں جب تک ان ملک دشمن عناصر کا ان کے گھر تک پیچھا نہیں کیا جائے گا ہماری اس وبال سے جان چھوٹنے والی نہیں اس سے برے حالات اور کیا ہو سکتے ہیں کہ بلوچستان اپنے ناقص امن و امان کی صورتِ حال کی وجہ سے دوسرے صوبوں سے یکسر کٹ کر رہ گیا ہے لوگ آج مری ناران کاغان تو جانا چاہتے ہیں لیکن کوءبھی زیارت کا رخ نہیں کرتا اس حقیقت سے کوءنظریں نہیں چرا سکتا کہ بلوچستان نا صرف ہزارہ برادری بلکہ ملک باسیوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے نو گو ایریا بن کر رہ گیا ہے جہاں لوگ جاتے وقت کم از کم ایک بار سوچتے ضرور ہیں حکومت کو مذمتی بیانات کی بجائے اس کا کوءدیر پا اور مستقل حل سوچنا ہو گا قیمتی جانوں کے نقصان کی بھرپاءہم کب تک معاوضہ دے دے کر کرتے رہیں گے اگر دہشت گردی کے ان واقعات کا جڑ سے تدارک نا کیا گیا تو ڈر ہے کے کہیں بلوچستان ایک گھوسٹ ٹاو ¿ن نہ بن کر رہ جائے فقیہ حیدر نے کیا دل سوز انداز میں اس کی عکاسی کی ہے ۔
میں کوئٹہ کی طرف جاتے ڈر رہا ہوں فقیہ
وہ اس لیے کہ” ہزارہ برادری ”ہے مری
[…] webdisk webdisk On Jan 17, 2021 0 0 Share تحریر۔حمادرضااہلِ علم سے شائد ہی کوءایسا شخص ہو جو ڈیل کارنیگی کے نام […]