توانائی بچت پلان پر عملدرآمدکیسے ہو گا؟
وطن عزیز اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین توانائی بحران سے گزر رہا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت نے توانائی بچت پروگرام بنایا ہے۔ وفاقی کابینہ نے توانائی بچت پلان کی منظوری دے دی ہے جو فی الفور نافذ العمل ہو گا۔ اس منصوبے کے تحت ملک بھر میں تمام شادی ہال رات 10 بجے اور مارکیٹیں رات ساڑھے 8 بجے بند ہو جائیں گی، سرکاری اداروں میں بجلی کا استعمال 30 فی صد کم کریں گے، تمام دفاتر میںبرقی آلات کے غیر ضروری استعمال سے اجتناب کیا جائے گا، اور تمام اداروں کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جائے گا۔ بجلی سے چلنے والے غیرمعیاری اور غیر موثر پنکھے یکم جولائی کے بعد سے فیکٹریوں میںتیار نہیں کیے جا سکیں گے، یکم جنوری کے بعد سے پرانے ٹرانسپیرنٹ بلب تیار نہیں کیے جا سکیں گے، اسٹریٹ لائٹس 50 فی صد جلائی جائیں گی۔ان اوقات کار کی پابندی سے باسٹھ ارب روپے کی بچت ہوگی۔ توانائی بچت پلان پر صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں نے وفاقی حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے عمل درآمد سے انکار کر دیا ہے۔جس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ توانائی بچت پلان پر عمل کیسے ممکن ہوگا؟۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان میں کسی حکومت نے توانائی کی بچت کا کوئی منصوبہ بنایا ہو اور اس پر عمل درآمد میں رکاوٹیں نہ آئی ہوں۔دوسری جانب جنوبی ایشیائی ممالک کی نسبت پاکستان میں بجلی کی قیمتیں زیادہ ہونے کے باوجود یہ شعبہ گزشتہ کئی دہائیوں سے بہت زیادہ خسارے کا سامنا کر رہا ہے۔ پاکستان اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کے باوجود لوڈ شیڈنگ سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پا رہا ہے۔موجودہ وقت میں پاکستان کا توانائی کا شعبہ پٹرولیم مصنوعات اور مایع گیس (ایل این جی) کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مسائل کا شکار ہیں، جبکہ بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ ماضی میں بھی موجود رہا ہے۔ توانائی کے شعبے کے بنیادی مسائل میں پانی سے بجلی پیدا کرنے پر تھرمل کو ترجیح دینا اور قابل تجدید ذرایع سے بجلی پیدا نہ کرنا، بجلی کی ترسیل کا پرانا نظام و آلات، ترسیل میں بجلی کا ضایع ہونا ، بجلی کی چوری اور اس شعبے کے اداروں میں کرپشن کی بھر مار ہیں۔ توانائی اور خصوصاً بجلی کے شعبے کیلئے بیرون ملک سے لیے گئے قرضوں کو بھی غیر ذمے داری سے استعمال کیا گیا ، جس کے باعث پاکستان ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کے باوجود کئی کئی گھنٹے اندھیروں میں ڈوبا رہتا ہے۔اس وقت پاکستان کو آٹھ ہزار میگاواٹ بجلی کے شارٹ فال کا سامنا ہے ، جسے پورا کرنے کیلئے ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے کم استعمال کا سہارا لیا جا رہا ہے ، کیونکہ ملک میں بجلی کی ترسیل کا نظام پرانا ہونے کے باعث 22 ہزار میگا واٹ سے زیادہ بجلی صارفین تک پہنچانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے، جہاں بلند پہاڑوں کے علاوہ وادیاں اور میدانی علاقے بھی موجود ہیں۔ ملک کے شمال
میں واقع پہاڑی سلسلوں سے نکلنے والے پانیوں کے جھرنے دریاو¿ں کی شکل اختیار کرتے ہیںاور میدانی علاقوں سے گزرتے ہوئے پاکستان کے جنوب میں واقع بحیرہ عرب کی آغوش میں جا گرتے ہیں۔پاکستان میں پانی کی فراوانی ہے، جو ملک کے شمال میں پہاڑی سلسلوں میں سفر
کرتے ہوئے اونچائی سے گرتا چلا جاتا ہے اور یہی وہ مظہر ہے جو اس قدرتی مایع سے بجلی بنانے کیلئے موافق سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے فیصلہ سازوں نے وافر مقدار میں پانی کی موجودگی اور اس سے بجلی بنانے کی استعداد کے باوجود گیس اور تیل سے برقی توانائی پیدا کرنے کی طرف جا کر ملک کے ساتھ زیادتی کی ، پاکستان میں پانی سے دو لاکھ میگا واٹ بجلی بنانے کی استعداد موجود ہے، جسے مختلف وجوہات کی بنا پر استعمال نہیں کیا گیا۔ توانائی کے بغیر ترقی ناممکن ہے، لہٰذا حکومت کو ایسی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جس میں توانائی کے وہ ذرایع استعمال کیے جائیں جو لوگوں کی صحت کو نقصان نہ پہنچائیں ، کم قیمت ہوں ، کاربن کا اخراج بھی نہ کریں اور سی پیک جیسے عظیم منصوبوں کے ذریعے لمبے عرصے تک ملک اور قوم کی بقا اور خوشحالی کا باعث بنے۔مہنگی تھرمل بجلی کو خدا حافظ کہتے ہوئے ، پانی ، سورج کی روشنی اور ہوا سے سستی بجلی بنائی جائے اور تمام دفاتر ، گھروں اور ٹیوب ویلز کو واپڈا سے الگ کر کے سولر پر منتقل کیا جائے تو نہ صرف بجلی سستی ملے گی اورمہنگائی بھی کم ہوگی بلکہ صنعتوں کو وافر اور سستی بجلی دستیاب ہو گی اور ملک کا تجارتی خسارہ بھی کم ہو گا اور
کفالت کے ہدف کو حاصل کیا جا سکے گا، توانائی کے شعبے میں بحران کا خاتمہ بجلی چوری اور لائن لاسز کم کر کے بھی کسی حد تک ممکن ہے مدنظر رکھا جائے کہ نئے پنکھے ہوں یا لائٹس کی تبدیلی ان سے بچت ضرور ہوگی لیکن اس سے قبل ان کی خریداری اور تبدیلی کیلئے بھاری رقم کی ضرورت بھی پڑے گی۔ضروری ہے کہ بجلی اور گیس کے شعبوں میں طلب کے مقابلے میں کم رسد پر قابو پانے کیلئے پیداوار میں اضافے کی ساتھ بجلی اور گیس کا ضیاع روکا جائے۔