مسائل تعلیم نسواں ؟
تحریر:شہزاد افق
تعلیم سے دوری ،خدا سے دوری،خداسے دوری ،جہالت وگمراہی کے راستہ۔تعلیم انسانیت کے آداب سیکھاتی ہے۔تعلیم حقیقت سے انسان کوروشناس کراتی ہے۔تعلیم اپنے خالقِ حقیقی کافرمانبردار بناتی ہے۔تعلیم احترام کانورپھیلاتی ہے ۔تعلیم سچائی کا دیب جلاتی ہے۔تعلیم کراداانسان کو پاکیزہ بناتی ہے ۔ تعلیم محمودوایاز کوایک صف میں لاتی ہے۔تعلیم سچائی کے پارٹ پڑھاتی ہے۔تعلیم محبت کے وار سے نفرت کومٹاتی ہے ۔انسانی تعلیم کاآغاز حضرت آدمؑ کی پیدائش سے ہی ہوگیا تھا ۔اللہ تعالی نے بابا آدمؑ کو زمین پربھیجنے سے پہلے ان کواشیا ءکے استعمال کا علم سیکھایا۔تعلیم کی حقیقت یہ ہے ،کہ آپﷺ نے اشاعت تعلیم مین اس قدر دلچسپی لی کہ تئیس سال23کی قلیل مدت میں عرب کے ملک میں ایک تعلیمی انقلاب برپا کر دیا تھا۔جوں جو ں مختلف علاقے اسلامی سلطنت میں شامل ہوتے گئے ۔مساجد کی تعداد بڑھتی گئی یہا ں تک کہ ہرگاو¿ں ہرمحلے میںمسجد تعمیر ہوئی اورہر مسجد اس آبادی کامکتب اورمدرسہ بھی تھی ۔ان مساجد میں ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلی تعلیم کت مضامین تک پڑھائے جاتے تھے۔جن میںتفسیر، حدیث،فقہ،لغت،ہیئت،ریاضی ،منطق،علم الکلام اورطب وغیرہ کے علاوہ کسی خاص پیشہ کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیم کی کیا اہمیت اورافادیت ہے ،انقلاب عرب نے تعلیم کی بدولت دنیا میں ایک نمایا مقام حاصل کیا۔جہاں تک بات ہے تعلیم نسواں کی تو تعلیم حاصل کرنا ہر مردوعوت پر فرض اورلازم قرار دیا گیا ہے۔تعلیم نسواں کے بنا یہ معاشرہ نامکمل ہے ۔تعلیم نسواں کو نظرا نداز کرنا نہایت ہی احمقانہ فیصلہ ہوگا۔تعلیم نسواں کے بغیر تعلیم وتربیت ،آداب واخلاق لاوارث سے ہوجائیں گے ۔عورت ہی معاشرے میں اخلاق ،آداب ،محبت ،عقیدت ،احترام کاسبب بنتی ہے ۔کیونکہ بچہ بولنے سے سکول ومدارس جانے تک یہ سب کچھ اپنی ماں سے سیکھتا ہے ۔ماں تعلیم یافتہ ہوگی ،اگر تو بچہ آدابِ سلیقہ سیکھے گا۔ماں اگر ان پڑھ ہوگی تو بچہ معاشرے کی غیراخلاقی روایات کواپنائے گا۔یہ ایک حقیقت ہے اگر تعلیم نسواں پر پردہ ڈال دیا جائے ۔تو معاشرہ زوال کے عروج پر ہمیں دکھائی دے گا۔ اب آتے ”رائے عامہ ” ممبران کی جانب
ثمینہ یاسمین ،گورنمنٹ ٹیچر ،لیہ
مشہور مقولہ ہے۔”مرد کوتعلیم دینا ایک فرد کوتعلیم دینا ہے ،جبکہ عورت کو تعلیم دیناپورے خاندان کو تعلیم دینے کے مترادف ہے”عورتیں آبادی کانصف حصہ ہیں۔جبکہ اسلام میں عورت کی تعلیم وتربیت کوبہت اہمیت دی گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے بچیوں کی پرورش اور تعلیم وتربیت کااہتمام کرنے والے کےلئے جنت کی بشارت دی ہے ۔اس طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی شق A-25 حکومت کوپابند کرتی ہے ،کہ وہ پانچ سال سے سولہ تک کے طلبہ وطلبات مفت تعلیم کی سہولیات فراہم کرے۔لیکن یہ بات اظہر بالشمس ہے،کہ ہمارے پیارے ملک پاکستان میںدوکڑور پچاس لاکھ بچے سکول جانے سے محروم ہیں۔جن میں49فیصد بچیاں ہیںپاکستان کا آئین دوقومی نظریہ نشرقی اقدار کا یہ تقاضا ہے ۔کہ بنت حوا کو تعلیم کے آسان مواقع میسر ہوں۔تعلیم نسواں کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ سماجی پہلو ہے۔کیونکہ ہماری آبادی کا60فیصدحصہ دیہاتوں میں آباد ہے۔ جہاں تعلیم ،شعور کی کمی اور غربت کی وجہ سے والدین کی اکثریت اپنی بچیوں کو سکول نہیں بھیج پاتے ۔لیکن میرے خیال میں تعلیم نسواں کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ غربت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیہی علاقوں میں رہنے والے غریب والدین کی اکثریت دووقت کی روٹی کے حصول کی خاطر بچیوں کوکھیتوں میں کام کرنے لئے تو بھیج دیتے ہیں،ان معصوم پریوںکو بہتر تعلیم وتربیت کی خاطر سکول نہیں بھیج پاتے ۔ دین سے دور اور شعور کی کمی کے باعث اکثر غریب والدین اپنی بچیوں کی ناتواچھی طر ح تربیت کر پاتے ہیںاور نہ ہی اپنی بچیوں کوزیور تعلیم سے آراستہ کر پاتے ہیں۔کیونکہ آج بھی دیہاتوں میں رہنے والے غریب والدین لڑکوں کی اعلی تعلیم کے حق میں ہوتے ہیں ،مگر بچیوں سے وہی صدیوں پرانا جاری و ساری امتیازی سلوک۔بطور ایک معلم ہونے کے ناطے میں نے مشاہدہ کیا ہے،اکثروالدین غریب اورخاص طور پر دیہاتوں میں رہنے والے لوگ اپنی بچیوں کو صرف پرائمری تک اس لئے تعلیم دلاتے ہیں ،کہ ان کی بچیوں کو صرف اپنا نام لکھنا آجائے ۔ گویا ان کے نزدیک نام لکھنا ہی بچیوں کے لئے بہت عمدہ تعلیم ہے !مختصر! جب تک ہم لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی تعلیم کے لئے بہتر اور آسان مواقع میسر نہیں کریں گے ،اس وقت تک ہم ایک اچھے اور بہتر معاشرے کی تشکیل نو نہیں کر سکتے۔بس مفکر کے اس قول کے پیش نظر کہ ”وجود زن سے ہے کائنات میںرنگ”بس مفکر کے اس پیش نظر ہم تعلیم نسواں کی اہمیت کو سمجھیں اور اس بات پر سختی سے عمل کریں ،کہ جب تک ہم بچیوں کے حصول علم کے لئے کوئی بہتر لائحہ عمل کارفرمانہیں کریں گے ۔اس وقت تک ہم افراد معاشرہ کی بہتر تربیت کے اصول اجاگر نہیں کرسکتے ۔میری ارباب اقتدار سے اور والدین سے گزارش ہے اگر ہم نے اپنے ملک کوکامیاب و کامران ترقی کی منزلوں پرگامزن دیکھنا ہے تو خدارا بچیوں کی بہتر تعلیم وتربیت اوربہتر نشوونما کے لئے تعلیم کے آسان مواقع فراہم کریں تاکہ ملک ترقی وخوشحالی میں لڑکیاں بھی لڑکوں کے ساتھ شانہ بشانہ زندگی کے ہرمیدان میں ساتھ ساتھ ہوںآج کے اس نفسانفسی کے دور میں عورتوں کے لئے دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم کی اشدضرورت ہے۔تعلیم نسواں کے حصول میں دستکاری کی تعلیم سے انکار نہیں کیا جاسکتا ،کیونکہ تعلیم یافتہ عورت زندگی کے ہر شعبہ میں اپنے علم و فن سے کامیابیوں کی بلندیوں کو چھو سکتی ہے۔اوریہ سب اس وقت ممکن ہے ،جبہم تعلیم نسواں کے حصول کے لئے بہتر مواقع میسر کریں اور ان کے لئے سازگار ماحول کی فضا قائم کریں
وقاص،وقاص سہیل لیکچرر اینڈ پیف مانیٹرنگ آفیسر ،چوبارہ
تعلیم و تربیت کی ضرورت ہر دور میں محسوس کی جاتی رہی ہے ۔دورجدید میں اس کی اہمیت وافادیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں،کہ ہر مسلمان مردہو عورت ان کا علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔اسلام میں مرد اورعورت کے مابیں کوئی تفریق نہیں کی گئی ۔حضور کریم ﷺ کاارشاد ہے”علم کاحاصل کرنا ہرمردوعورت پر فرض ہے”ماں کی گود کو انسان کی پہلی درس گاہ سے تعبیر کیا گیا ہےیہ ایک حقیقت ہے کہ تعلیم وتربیت کاسلسلہ ماں کی آغوش سے ہی شروع ہوتا ہے ،اس لئے ایک پڑھی لکھی عورت اورایک ان پڑھ عورت کی کی گئی پرورش میں ایک واضح فرق دیکھنے کوملے گا۔یہی سے ہی خواتین کی تعلیمی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔دور جدید میں خواتین کی ذمہ داریاں اوربھی بڑھ گئی ہیں۔ان کو گھریلوں فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ دنیاوی حالات سے بھی باخبر رہنا ضروری ہوگیا ہے۔حالات حاضرہ اوروقت کے تقاضے کودیکھتے ہوئے ،خواتین کا تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونا بے حد ضروری ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ اور کودنیا میں مختلف کردار نبھانے ہوتے ہیں۔کبھی بیٹی ،کبھی بہن ،کبھی بیوی اورکبھی ماں بن کران مختلف روپ میں اپنے فرائض سرانجام دینے ہوتے ہیں۔ان تمام مدراج میں اس کی ذمہ داریاں بدلتی رہتی ہیں۔ اس تمام مدراج کوکامیابی اوراحسن طریقہ سے نبھانے کے لئے اور ان کو اپنے مقام انجام تک پہنچانے کے لئے عورت کاتعلیم یافتہ ہونا بے حد ضرورہ ہے۔ہمارے سماج میں تعلیم نسواں کو لے کر جو مسئلہ جنم لیتا ہے۔وہ یہ کہ لوگوں کی تعلیم وتربیت میں کہاں نہ کہیں کچھ کمی رہ گئی تھی ،تبھی تو تعلیم نسواں کو وہ اہمیت حاصل نہ ہوسکی جواس کا حقیقی مقام تھا ۔اوراسکا اولین اس حق تھا بے شک انسان صحیح تعلیم وتربیت کے بعد ہی انسان بنتا ہے
شاعر ۔عظیم ماہی ،چوک اعظم
تعلیم نسواںمین درپیش آنے والے وہ مسائل اور رکاوٹیں جن کی وجہ سے ہمارا معاشرہ وہ منازل طے نہ کرپایا جو اس کا حق تھا ۔عورت کو ہمارے معاشرے میںڈر کاسامنا کرنا پڑتا ہے ۔اوراس ڈر کی سب سے بڑی وجہ ہم لوگوں کی کم ظرفی اور پسماندہ سوچ ہے ۔جس بنا پرعورت خود کو یہاں غیر محفوظ سمجھتی ہے۔جس بنا پرایک غیرت مند باپ یابھائی اس ڈر بدنامی کے باعث اسے تعلیم سے دور رکھتے ہیں۔حالات کب بدلیں۔جب ہم بدلیں گے ۔ہم کب بدلیں گے ۔جب سوچ بدلیں گےاورافسوس صد افسوسافسوس تو اس بات کا ہے ،کہ زمانہ جاہلیت کو پھر سے دوہرایا جا رہا ہے ۔قبل ازطلوع اسلام عورت کو معاشرے میں کوئی عزت ومقام حاصل نہ تھا ۔آپ ﷺ نے عورت (ماں) کے پیروں تلے جنت ،بیٹی کورحمت قرار ددیا عورت کوایک عزت ومقام ملا تعلیم ضروری قرار دی گئی ۔عورت کے پڑھنے لکھنے سےخاندانوں کی پرورش وتربیت بہتر انداز میں ہوتی ہےہمارے بنی ﷺ نے عورت کو اعلی مقام دیاجو سمجھ نہ پائے میرے نبی ﷺ کی بات کو کم عقلی ہے ہماری عورت کو بس عور کانام دیا!
(ابراہیم عرفان ،راولپنڈی)
آپﷺ نے ارشاد فرمایا”علم حاصل کرنا ہرمرد اورعورت پر فرض ہے۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے ۔جوکہ ابھی تک ترقی کے مراحل میںہے۔اورہمارے پیارے ملک پاکستان کی آبادی کاتقریبا60فیصدحصہ دیہی آبادی پرمشتمل ہے۔اوردیہی علاقوں میں رہائش پذیز لوگوں کی سوچ صدیوں پرانی روایات سے جڑی ہوتی ہے ۔اوروہ تعلیم سے منسلک افرادکو خود سے الگ تھلگ سوچتے اور سمجھتے ہیں۔اور تعلیم کو وہ غیرضروری سمجھتے ہیں اورخاص طور پربہن بیٹیوں کی تعلیم کو توجو شاید گناہ ہی تصور کرتے ہیں ۔حالانکہ ایکپڑھی لکھی عورت ایک خاندان کو تعلیم زیور سے آراستہ کر سکتی ہے ۔اور معاشرے کو بہترین خیالا ت کی ایک نئی نسل دے سکتی ہے ۔مگر شاید والدین کی سوچ بھی کسی حد تک ٹھیک ہے ۔کیونکہ ہمارے کالجز او ر یونیورسٹیوں جو ماحول بنا ہے شاید ایک غیرت مند پاپ بھائی اس کی اجازت ان کاضمیر نہیں دیتا ۔مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ معاشرہ کی ترقی کاراز عورت کی تعلیم سے منسلک ہے
بابر جاوید ہاشمی طالب علم ،لیہ
مشہور مقولہ ہے”کہ مرد کوتعلیم دیناایک فرد کو تعلیم دینا ہے ۔جبکہ ایک عورت کو تعلیم دینا پورے خاندان کو تعلیم دینے کے مترادف ہے۔حضور کریم ﷺ نے ارشادفرمایا”تعلیم حاصل کرنا ہرمرد عورت پر فرض ۔ہاکستان میں تعلیم نسواں کے حوالے سے درپیش مسائل دوپہلو سے ہوتے ہیں۔ایک کا تعلق حکومتی اورانتظامی امور سے ہے ۔اوردوسرا پہلو عوامی و سماجی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے ۔کہ پرائمری کے بعد لڑکیوں کے سکول جانے کی شرح نصف ہوجاتی ہے ۔جس کی بڑی وجہ مڈل اور ہائی سطح پرگرلز سکول کی کمی ہے۔ یہ اسکولز پاکستان کے کل سکولوں کا9فیصدہیں ۔تعلیم نسواں کے حصول میںرکاوٹ کا سماجی پہلویہ ہے۔ہماری آبادی کاتقریبا 60فیصد حصہ دیہاتوں میں آباد ہے ۔تعلیم اور شعور کی کمی کی وجہ سے والدین کی اکثریت لڑکیوں کو پرائمری یا پھر صرف میٹرک تک تعلیم دلوا تی ہے۔وہ اپنی بیٹوں اورکو کالجز اور یونیورسٹیوں کے مخلوط اور مادرپدر ماحول اور اس لئے مضر اثرات کے رحم وکرم پر چھوڑنے کی بجائے گھر کے گوشہ عافیت میں آمور خانہ داری اور دیگر گھریلوں فنون سیکھانے پر اکتفا کرتے ہیں۔معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ ،روی فحاشی اورغیر اخلاقی گراوٹ نے بھی باصلاحیت لڑکیوںکواعلی تعلیم کے حصول سے محروم کیا ہوا ہے
شائستہ کنول انصاری ،سکول ٹیچر ،لیہ
تعلیم سب کابنیادی حق ہے۔اس معاشرے کے ہر فرد کویہ حق حاصل ہے۔مرد کت ساتھ ساتھ خواتین کوبھی یہ حق حاصل ہے۔اسلام نے اس سلسلے میں جو حقوق عورت کو فراہم کئے ہیں۔جنہیں اسلام سے پہلے دیکھنا کیا سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا ۔کیونکہ عورت کومعاشرے میں کوئی اہمیت حاصل نہ تھی۔بل کہ پیدا ہوتے ہی اسے زندہ دفن کر دیا جاتا ۔ایسے میں تو تعلیم کاتصور سوہان روح تھا،مگر اسلام نے ہر اعتبار سے فضیلت اوراعلی مقام سے نوازا،حدیث مبارکہ ہے”علم حاصل کرنا ہر مرد عوت پر فرض ہے”اس روح سے عورت کوتعلیم کاباقائدہ اور مساوی حاصل ہے ۔اورایک عورت کی تعلیم ایک معاشرے کی تعلیم ہے۔ جس سے نسلیں سنورتی ہیں،ایک پڑھی لکھی ماں معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔زمانہ جہالت میں عورت مسائل کاشکاررہی اس زمانہ میں بھی ،عورت کو کبھی معاشرتی معاشی وسائل کے نام اور کبھی غیرت کے نام پرپابندیوں میںجکڑی رہی ۔اس جدید دور میں بھی ایسے مسائل کا شکار ہے۔جس کا تصور کر کے جھرجھری آجاتی ہے۔دیہی علاقوں میں تو یہ صاف کہہ دیا جاتا ہے۔تم نے پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے۔شہروں میں مرد اساتذہ سے تعلیم کا حصول میعوب سمجھا جاتا ہے۔پڑھی لکھی خواتین کو بہتر روزگار نہ ملنا بھی دوسروں خواتین کی تعلیم میں رکاوٹ کاباعث بنتا ہے۔ان وجوہات کی بنا پرعورت اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ پاتی۔اورپھر غلط راہ کی مسافر بن جاتی ہیں۔اورناخواندہ مائیںمعاشرے کے نصیب ہوتی ہیںخداراجو حقوق اسلام نے عورت کودیئے ہیں۔وہ ان سے مت چھینیںان کو تعلیم کا حق دیں تاکہ عورت ایک بہترین معاشرہ بنا سکے
امقدس انمول راجپوت،BSCطالب علم ،بدین ،سندھ
موجودہ دور میں تعلیم نسواںکی اہمیت وافادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔کیوں کہ خواتین معاشرے کا نصف حصہ ہیں ،لہذاان کی تعلیم وتربیت ،قوم اورمعاشرہ دونوں کی ترقی اوربھلائی کے لئے ضروری ہے ۔اسلام میں تعلیم نسواں کامقصد ایسی تعلیم ہے ۔نسوانی زندگی ،مقاصد حیات سے ہم اہنگ ہو۔جوعورت کو ایک باکردارہمدردماں،صالح ونیک بیٹی ،وفاشعاربین اور فرمابندار بیوی بنا ئے۔اورقرآن کریم میںارشاد باری تعالی ہے” جونیک عورتیں ہوتی وہ فرمابردار ہوتی ہیں۔مردوں کی عدم موجودگی میںاللہ کی حفاظت ونگرانی میںان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں”اسی مقصد کی بنا پراسلام نے عورتوں کی تعلیم وتربیت میںمردوں کے برابرحقوق دیئے ،اور ان کے لئے تعلیم کوضروری قرار دیا ہے۔ کہ وشریعت کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیںافسوس کپ قرآن وسنت کی اتنی تاکید کے باوجود بھی ،آج ہم لڑکیوں کی تعلیم کی جانب سے غافل ہیں۔اور لوگ کہتے ہیں،کہ ہمیں اپنی بیٹیوں سے نوکری نہیں کرانی ہے۔ہمیں اپنی بیویوں کی کمائی نہیں کھانی ہے۔ان اتنی تعلیم کافی اعلی تعلیم کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔مگر وہ کیوں یہ بھول جاتے ہیں،ایک عورت کو تعلیم دلانا پورے خاندان کو تعلیم دلانا ہے۔کیونکہ ماں کی گود ہی بچہ کی اولین درس گاہ ہوتی ہے۔اگر وہ تعلیم یافتہ ہوگی ۔تب وہ اپنے بچوں کی تربیت اچھی طرح سے کرسکے گی ۔بعض لوگوں کاخیال ہوتا ہے،تعلیم حاصل کرنے کے بعد لڑکیاں بگڑ جاتی ہیں۔لیکن اس کاحل یہ نہیں،سرے سے تعلیم ہی نہ دلائی جائے،بل کہ ایسی تربیت کی جائے ۔کہ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ ساتھ ملک وقوم کا نام روشن کرسکیں
زبیرآمینBscs،طالب علم چشتیاں
عورتوں کی تعلیم پر بزرگ لوگ بہت غلط فہمیاں رکھتے ہیں۔اور سمجھتے ہیں کہ تعلیم صرف لڑکوں کو دینا ضروری ہے ۔خیال رکھا جائے۔ضفِ نازک صرف باورچی خانے کےلئے پیدا نہیں ہوئی ۔موجودہ صورت حال کے پیش نظر آج بہت سی خواتین جو تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے اپنی اولاد کی پرورش میں کچھ خامیاں چھوڑ جاتی ہیں۔دنیاوی ترقی کو دیکھا جائے ،توان سب کی کاوشیں صرف تعلیم کی بدولت ہی ہیں۔نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺ نے فرمایا”علم حاصل کرنا ہر مرد عورت پر فرض ہے”نظام تعلیم کا جائزہ لیں تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ہمارا نظام تعلیم طبقاتی سسٹم پر مبنی ہے ۔اور ہمارے ملک کے لوگوں کو طبقات میں تقسیم کردیا گیا ہے ،جو کہ ناصرف اسلام بل کہ معاشرتی اصولوں کے بھی سراسر خلاف ہے۔آزاد قومیںاپنے اہداف خود تعین کرتی ہیں ،اور نظام تعلیم ترغیب دیتی ہیں،لیکن حال یہ ہے ،کہ اب تک ہم لارڈ میکالے،کے اس نظام تعلیم کو رائج کئے ہوئے ہیں ۔جو سراسر غلام قوموں کے لئے بنایا گیا ۔اچھا نظام تعلیم ماہرانہ صلاحتیں پیدا کرتا ہے ،لیکن ہمارے نظام تعلیم میں یا تو نوکری کی حوس یاتو مایوسی کو جنم دیتا ہے ۔دوسرا مسئلہ دینی اوردنیاوی تعلیم کی تقسیم بھی ہے ۔ایک دوسرے کو حقیر سمجھا جاتا ہے ،اوردینی طبقات مغربی طرز لباس اور شکل صورت کو نشانہ بناتے ہوئے خودکو آخرت کا ٹھیکدار تصور کرتا ہے ۔علاوہ ازیںموجودہ مسائل کوسمجھنے سے قاصر ہے ،تا ہم نظام تعلیم کا ازسر نو جائزہ لیں توطبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ کرے اور مساواتی نظام تعلیم کو رائج کریں۔جس کی اس وقت قوم کو اشد ضرورت ہے
دانیال رضا ،شریعہ اینڈ لاء،iiui)
بلاشبہ علم شرافت وکرامت اوردارین کی سعادت سے بہرمندکابہترین ذریعہ ہے ۔انسان کو دیگر بے شمار مخلوقات مین ممتاز کرنے کا اہم سبب علم کا حصول ہی ہے۔اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کو مجموعی طور پر دین ست روشناس کرانے تہذیب وثقافت سے بہیرورکرنے میں اس میں قوم کی خواتین کا اہم بل کہ مرکزی اوراساسی کردار ہوتا ہے ،اور قوم کے نونہالوںکے صحیح اٹھان اور صالح نشونما میں ماو¿ں کا اہم حصہ ہوتا ہے ۔اسی وجہ سے کہا گیا ہے ۔کہ ماں کی گود بچے کااولین مدرسہ ہے۔ اس لئے شروع ہی سے اسلام نے جس طرح مردوں کے لئے تعلیم کی تمام تر راہیں وار رکھی ہیں اس طرح دین نے خواتین کو بھی تمدنی ،معاشرتی اورملکی حقوق کے بے تمام وکمال عطا کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی حقوق مکمل طور پر دئے ہیں ۔لیکن جہاں تک بات ہے ۔خواتین کے موجودہ نظام تعلیم کی جسے Co Educationسے یاد کیاجاتا ہے ۔جو کہ مغرب سے درآمد ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس کی مذہب اسلام تو کبھی بھی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتا ۔نیز عقل دانا بھی اس سے پناہ مانگتی ہوئی نظر آتی ہے ۔اوریہی ایک بنیادی سبب ہے کہ جو نسواںکو علم کے حصول سے قاصر کردیتا ہے ۔غورکیجئے کہ جب قدرت نے مردوں اورعورتوں میں تخلیقی اعتبار سے فرق رکھا ہے ۔اعضاءکی ساخت میں فرق ،رنگ وروپ میں فرق ہے ۔پھر اسی طرح معاشرے میں دونوں کے کردار مختلف ہیں۔تو پھر کیون ان کو ایک ہی سانچے میں تولاجائے ،مثلا کچھ ایسے مضامین ہیں ،جن میںلڑکوں اورلڑکیوں کے درمیان فرق کرنا ہوگا ،جیسا کہ انجینئر نگ ،عسکری تعلیم اورٹیکنیکل تعلیم جن کی لڑکیوں کو قطعا ضرورت نہیں ہے ۔البتہ میڈیکل تعلیم کا اچھا خاصا حصہ خواتین کے حق میں ہے ،تو ان چیزوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے تعلیم نسواں کو فروغ دیا جاسکتا ہے
پروفیسر ساجدحسین،گورنمنٹ پوسٹ ڈگری کالج ،چوک اعظم
تعلیم معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔تعلیم کے ذریعے بچے کاذہن تبدیل ہوتا ہے۔اس کانظریہ ِ حیات جنم لیتا ہے۔تعلیم سے ہی اخلاقیات اوراحساس ِ ذمہ داری کاپتہ چلتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہرمردو عورت کے لئے علم حاصل کرنا لازمی قرار دیا گیاہے۔عورتوں کی تعلیم کے بغیر ہم اپنے تعلیمی اہداف حاصل نہیں کر سکتے۔عورتیں ہماری آبادی کاتقریبا نصف حصہ ہیں۔اگر ہمارے ملک میں انہیں تعلیم کے مواقع حاصل نہ ہوں ،تو ہم کیسے ترقی کی جانب گامزن ہوسکتے ہیں۔ایک وقت تھا جب تعلیم نسواںکے مواقع صرف شہروں تک میسر تھے۔مگر اب دیہاتوں میںبھی تعلیم حاصل کرنے کےلئے اچھے ادارے موجود ہیں۔بچیوں کے لئے پرائمری،مڈل اور ہائی سکول موجود ہیں۔والدین اپنی بچیوں کی تعلیم وتربیت کے لئے کوشاں ہیں۔تعلیم کے ساتھ ساتھ وظائف بھی بچیوں کو دیئے جارہے ہیں۔اعلی تعلیم کے لئے بچیوں کے کالجز بڑے قصبوں میں موجود ہیں۔یونیورسٹیاں بھی بچیوں کی تعلیم کے لئے کوشاں ہیں۔کہیں صرف خواتین کےلئے بھی یونیورسٹیاں قائم ہیں۔ہمارے یونیورسٹیوں میں Co Educationکی تعلیم جس میںکئی مسائل بھی درپیش ہیں۔جب اس مقدس پیشہ کی روح کو بھلا کرہم اپنی ذاتی خواہشات کوترجیح دیتے ہیں، تو کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔لیکن ہماری خواتین تمام مسائل کامقابلہ کرتے ہوئے اپنی منزل کی جانب روادوا ںہیں۔ فنی تعلیم ہو یا پیشہ ورانہ،فاصلاتی تعلیم ہو یا رسمی ۔عورتیں مردوں کی نسبت زیادہ سنجیدہ اور معاشرے کی کی تشکیل میں اپناکردار ادا کرہی ہیں۔اوران کا یہی ایک مقصد ہے کہ; ”Enter to learn Leave to serve”وہ تعلیم سے ہی اپنا مقصد حیات متعین کررہی ہیں۔تعلیم نسواں سے ہی ہمارے ہاں ایک مقابے کی فضا نے جنم لے رکھاہے۔بڑے بڑے امتحانات میں خواتین کی شاندارکامیابیوں نے ان کی تعلیمی پختگی کو چاند لگا دیئے ہیں۔اب وہ دن نہیں رہے،جب عورت کو زمین کا بوجھ قرار دیاجاتا تھا،تعلیم کے حق سے اسے محروم کردیا جاتا تھا،مگر اسلام نے جومقام عورت کو بخشا ہے ،جس مثال کسی بھی مذہب میں نہیں ملتی۔ نسل ِ انسانی کی بقاءتعلیم نسواںسے ہے۔اگر ہم ایک مرد کو تعلیم دیتے ہیں،تو وہ ایک فرد کی تعلیم وتربیت ہے ۔جب کہ ایک عورت کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم و تربیت ہے ۔پاکستان میںتعلیم نسواں کی بہت اہمیت ہے۔غیر تعلیم یافتہ خواتین آسانی سے نہ صرف معاشی معاملات، بل کہ مذہبی معاملات میں بھی جلد گمراہی کاشکار ہو جاتی ہیں۔بنیادی تعلیم سے بچیاں کلام مجید مع ترجمعہ اور احادیث اوراسلامی تاریخ کامطالعہ کرسکتی ہیں،اور اپنے بچوں کو بھی تعلیم وتربیت سے روشناس کرسکتی ہیں۔نیپولین نے کہا ”Give me good mothers ,I will give you good nation” ایک معلم ہونے کی حیثت سے مجھے یقین ہے،ہر والد اپنی بیٹیوں کو تعلیم دینے کے لئے اپنی ہر ممکن کوشش کرتا ہے ۔خواہ اسے کتنی ہی تکالیف کیوںنہ اٹھانی پڑے ۔بچیوں کی تعلیم وتربیت میںحائل تمام رکاوٹوں کو والدین کچل دیتے ہیں۔ادارہ ہذاگھر سے دورہونے کی وجہ سے ، آمدورفت کے مسائل والدین کے سامنے ثانوی حیثیت کے حامل ہیں۔یہ گھر کاماحول اورتربیت کانتیجہ ہے،کہ بچیاں اعلی تعلیم تک پر اعتماد طریقے سے اپنے دامن کو ہرقسمی کانٹوں سے بچاتے ہوئے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھتی ہیں۔ یہ گھر کا ماحول اور تعلیم کی بدولت ہی ہے ،کہ بچیاں اپنے والدین کی ناموس کاخیال رکھتے ہوئے اپنی منزل کو پالیتی ہیں۔تعلیم وتربیت کا حصول اتناآسان اور مفید لگتا ہے ، کہ تمام مسائل خود بخود حل ہوجاتے ہیں۔اور خدائے بزرگ وبرتر محنت کاصلہ ضرور عطا کرتا ہے ، انہیںاحساس ذمہ داری اورخوشحالی جیسی دولت نصیب ہوتی ہے۔عورت کو کبھی کم تر نہ سمجھنا اے خداراعورت کبھی مریم،کبھی حوا،کبھی زہرا
احسن علی جاوید ،چشتیاں،شریعہ اینڈلائ( iiui)
تعلیم نسواں کی بھی قوم جکی تر قی کااہم جز ہے۔اس کی اہمیت ہمارے دین بھی ہے۔تعلیم حاصل کرنا ہر مردوعورت پر فرض ہے ۔مگرآج کل خواتین کو بہت سے مسائل کاسامنا کرنا پڑتا ہے ۔سب سے پہلے تواس سوچ کا کہ بیٹی کوپڑھانے کا کیا فائدہ وغیرہ وغیرہ ۔پھر اس معیار کی تعلیم تحفظ شعبہ جات کاانتخاب بھی شامل ہے ۔لیکن آج عورت کے لئے علیحدہ تعلیمی ادارے موجود انہیں اوپن میرٹ کے ساتھ ساتھ خصوصی کوٹہ بھی دیا جارہا ہے۔مگر پھر بھی کردار سازی سے دور رکھا جاتا ہے ،جو کہ سب سے اہم مسئلہ ہے اگر ہم موازنہ کریں تحریک پاکستان میں خواتین کا اورآج کی خواتین کا اس وقت مسائل اوروسائل کا اور آج کے مسائل اور وسائل کا ان نے عملی زندگی میں کیا کیا۔اورآج کی عورت کیا کررہی ہے یہ تھا رائے عامہپرمشتمل حصہ مسائل تعلیم نسواں کے بغیر یہ معاشرہ نامکمل ہے۔ اس معاشرے کی ترقی میں عورت ذات کا اہم کردار ہے۔سب سے بڑا الزام یہ لگا یا جاتا ہے،کہ تعلیم نسواں میں سے بڑی رکاوٹ دیہی علاقوں میںرہائش پذیر وہ لوگ ہیں ۔جن کی سوچ پرانی روایات پرمشتمل ہے،جو تعلیم میں نسواں میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔جو اپنی بیٹیوں کی تعلیم کے سخت خلاف ہیں ۔مگر کیوں خلاف ہیں، کبھی اس بات پر غور کرنے کی زحمت کی ہے ۔ان کے خدشات کودور کرنے کی کوشش کسی حکومت نے کی ہے ۔گھر کی تربیت بہتر ہونے کے باوجود انسان جب کسی جگہ جاتا عرصہ گزارنے کے بعد وہاں کی تہذیب وثقافت کے اثرات اس انسان پر ضرور اپنا نقش چھوڑتے ہیں ۔میں یہ نہیں کہتا کہ کہ وہ مکمل طور پر غلط ہیں ،مگر کافی حدتک والدین کے خدشات برحق ہیں۔ہمارے نظام تعلیم کے اند ر بہت سی خرابیاں موجود ہیں ۔اسلام نے عورت کی تعلیم پرزور ضرور دیا ہے۔ مگر ساتھ ساتھ شرم وحیا اخلاقیات کی حدود کاتعین بھی کررکھا ہے ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ابھی تک نظام تعلیم فرسودہ انگریز سامراج کا بنایا ہوا لوگو ہے ۔Co Eucationکی تباہ کاریوں کومدنظر رکھتے ہوئے والدین اپنی بچیوںکواس غیراخلاقی سسٹم کا حصہ بننے سے گریز کرتے ہیں۔میں جب ایف کاامتحان دے رکھا تھا اس وقت 12thکی کتاب علم التعلیم میں ایک تحریر نصب تھی۔کہ جب انگریز سامراج برصغیر کوچھوڑ کر جانے لگا توایک انگریز جو تعلیم میں کووزیر تھا مجھے اب نام یاد نہیں آرہا اس نے کہا” ہم برصغیر کوچھوڑ کر جارہے ایسانظام تعلیم کاطریقہ دیا ہے،کہ اگلے دوسوسال تک یہاں کے لوگ شکل وصورت سے تو برصغیر کے ہونگے مگر اخلاقی طو ر پر انگریز رہیںگے” تو یہی حالت آج ہمارے نظام تعلیم کی ہے ۔ہمیں سب سے پہلے یہ سسٹم کوبدلنا ہوگا اس نظام تعلیم کو اسلام کے مطابق ترتیب دینا ہوگا ۔ اس وقت دیہی علاقوں میں رہنے لوگوں کی سوچ بدلے گی ۔والدین بچیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں نظام تعلیم میں خامیوں پرخدشات پرمجبور ہوجاتے ہیں ۔میرے نظریات کے مطابق والدین کی بات کافی تک حقائق پرمبنی ہے ۔معذرت کے ساتھ ہمارے تعلیمی اداروںمیں سوائے تہذیب اخلاق اورشعور کے سب کچھ سکھایا جاتاہے۔تعلیم عورت کے لئے لازم ہے اس کو نظرانداز کرنا ،دین اسلام کے قانون کوپشت پرڈالنے کے مترادف ہے ۔مگر پہلے نظام تعلیم کو اس قابل بنانا ہوگا