تین سو ارب روپے کا نقصان ذمہ دار کون؟

0 96

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شیخ فرید
دل مراد تڑپ تڑپ کر کہتا ہے ہمیں نہ نوچو !
آہستہ آہستہ کھاؤ ، ہم کہیں اور جانے والے نہیں ۔
دل مراد کا درد ہم سب کا مشترکہ درد ہے ۔ اِس درد کو پوری قوم پون صدی سے سہہ رہی ہے ۔
بااختیار طبقہ غریب عوام کو نوچ نوچ کر کھا رہا مگر اْس کی بھوک نہیں مٹتی ۔
اور غریب غْربا ، مزدور اور ملازم پیشہ عوام اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کیلیے دو وقت کی روٹی کو ترس گیا ہے ۔
جس ملک کو ربِّ کریم نے اتنا نوازا ہے کہ کوئی بھکا نہ سوئے ، اْس ملک کے حکمران نے اپنے چھوٹے پیٹ کی خاطر بڑے بڑے گھپلے کئیے ، کرپشن کی اور دو نمبری کی ساری حدیں پار کر لیں ، اپنے مفادات کیلیے وطنِ عزیز کو 3 سو ارب کا چونا لگا دیا ۔
دولت کی حرص نے صبر شکر کا احساس ہی ختم کر دیا ہے ۔
دل مراد کہتا ہے ۔ جب ملک میں 2 کروڑ 80 لاکھ ٹن گندم موجود تھی تو بیرونِ ملک سے مہنگے داموں گندم کیوں منگوائی گئی ۔اخباری اطلاعات کے مطابق ملک میں 8 فروری کے الیکشن کے بعد نئی حکومت آنے کے بعد بھی 98 ارب51 کروڑ روپے کی گندم درآمد کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں بھی 6 لاکھ ٹن سےزیادہ گندم درآمدکی گئی، ایک لاکھ13ہزار ٹن سے زیادہ کا کیری فارورڈ اسٹاک ہونےکے باوجود گندم درآمد کی گئی اور وزیراعظم شہباز شریف کو بھی گندم کی درآمد کے حوالے سے لاعلم رکھا گیا جس پر وزیراعظم نے لاعلم رکھنے پر سیکرٹری فوڈ سکیورٹی کو عہدے سے ہٹایا۔
ذرائع کے مطابق گندم کی درآمد نگران حکومت کے فیصلےکے تحت موجودہ حکومت میں بھی جاری رکھی گئی۔ وزارت خزانہ نے ٹی سی پی کے ذریعےگندم درآمد کرنےکی سمری مسترد کی اور نجی شعبےکے ذریعے 5 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنےکی اجازت دی کی جو بندرگاہ پر 93 روپے 82 پیسے فی کلو میں پڑی۔ باوثوق ذرائع کے مطابق وزارت بحری امورکو درآمدی گندم کی بندرگاہوں پرپہنچ کو ترجیح دینےکی ہدایت کی گئی تھی اور اجازت نامے میں ضرورت پڑنے پر سمری پر نظرثانی کا بھی آپشن رکھا گیا تھا۔ یاد رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے حکومت کے پہلے ماہ میں 6 لاکھ 91 ہزار میٹرک ٹن گندم درآمد کا نوٹس لیا تھا اور فروری 2024 کے بعد گندم کی درآمد جاری رکھنے پر تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے گندم درآمد جاری رکھنے اور ایل سیز کھولنے کے ذمہ داروں کے تعین کی ہدایت کی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہےکہ نگران حکومت کے دور میں 200 ارب روپے سے زیادہ کی گندم درآمد کی گئی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے گندم اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کے سربراہ کامران علی افضل کو پیر تک حتمی رپورٹ پیش کرنےکی ہدایت کی ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے بھی گندم اسکینڈل پر وزیراعظم شہباز شریف کو پیر کو طلب کر رکھا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا کی رپورٹ میں بتیا گیا ہے کہ صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے کسان گذشتہ کئی روز سے حکومت کی جانب سے گندم نہ خریدے جانے کے معاملے پر سراپہ احتجاج ہیں۔ ’کسان اتحاد‘ کے رہنما ملک ذوالفقار نے بتایا کہ حکومت کسانوں کو باردانہ فراہم نہیں کر رہی۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’آڑھتیوں کو دھڑا دھڑ بار دانہ مل رہا ہے اور وہ کسانوں کو یہ بار دانہ دے کر 2900 روپے فی من سے لے کر 3000 روپے فی من تک کا نرخ دے رہے ہیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’چھوٹے رقبے پر کاشت کرنے والے کسان دھڑا دھڑ اپنی فصل آڑھتیوں کو فروخت کر رہے ہیں اُن کے پاس گندم کو لمبے عرصے تک ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
انھوں نے مزید دعویٰ کیا کہ حکومت کی جانب سے کسانوں کے نمائندوں کو بتایا جا رہا ہے کہ چونکہ درآمدی گندم بڑی مقدار میں پہلے ہی موجود ہے چنانچہ ’ہمارے پاس نہ تو پیسے ہیں کہ زائد گندم خریدیں اورنہ ہی زائد گندم کو ذخیرہ کرنے کا کوئی انتظام ہے۔
ملک ذوالفقار کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت نے بھاری مقدار میں گندم کو ضرورت کے بغیر درآمد کیا تھا اس سے قطع نظر کہ یہ شنید پہلے ہی تھی کہ رواں برس پاکستان میں گندم کی فصل شاندار ہو گی۔
انھوں نے کہا کہ پنجاب اور سندھ میں حکومتی اہلکار کسانوں کی یہ کہہ کر حوصلہ افزائی کرتے رہے کہ گندم کاشت کریں، حکومت خریدے گی مگر اب کوئی بھی نہیں خرید رہا ہے۔ پنجاب حکومت کے وزیر خوراک بلال یاسین نے اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت ہر سال تقریباً 40 لاکھ ٹن گندم کے حصول کو ممکن بناتی ہے مگر اس سال ابھی تک گندم حصولی کا ٹارگٹ صرف 20 لاکھ ٹن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ نگران حکومت کے دور میں گندم کو برآمد کرنا تھا جو اب حکومتی سٹاک میں موجود ہے۔ دوسری جانب وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے حالیہ اعلامیے کے مطابق وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے اس صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے جسٹس (ر) میاں مشتاق کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا ہے دوسری جانب سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا گندم اسکینڈل کے حوالے سے کہنا ہے کہ وزیر اعظم کا کام نہیں ہےکہ وہ گندم کی پیداوار دیکھے ، 40 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی کمی تھی، صرف 34 لاکھ میٹرک ٹن درآمد کی گئی۔ سابق نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے سوشل میڈیا شو ٹاک شاک میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ گندم کی مصنوعی طلب صوبوں نے پیدا کی ہے ۔
واضح رہے کہ گندم درآمد اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے سابق نگران وزیراعظم اور سابق نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کو طلب کرنے کی خبروں کی تردیدکردی ہے۔ سوال یہ ہے کہ35 لاکھ ٹن گندم اسٹاک موجود تھی۔ 40 لاکھ ٹن گندم نگران حکومت نے مزید منگوا لی۔ نہلے پہ دھلا یہ ہوا کہ موجودہ حکومت نے بھی 6 لاکھ میٹرک ٹن گندم باہر سے منگوائی۔ جبکہ پنجاب سندھ میں گندم کی فصل تیار کھڑی تھی۔ یہ گندم کیوں کس نے منگوائی، کس نے ایل سی اوپن کراوئی ، اجازت نامہ کدھر سے آیا ؟ انوسٹمنٹ کس نے کی؟ قوم کو تین سو ارب کا ٹیکہ کس نے لگایا ؟ پنجاب ، سندھ کے لاکھوں کسانوں کا معاشی قاتل کون ہے ؟
ان سوالات کے جواب کوئی مشکل کام نہیں۔ دل مراد تو نتیجہ اخذ کرنے میں ناکام ہو چکا ہے کہ یہ فیصلہ کرنے والے بھلا کون لوگ ہیں ؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔?۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.