توقیر احمد شریفی کی خدمات کا اعتراف

0 84

ٹائن بی نے کہا تھا کسی قوم یا معاشرے کے فکر و عمل کا اصل سرچشمہ اکثریت نہیں بلکہ اقلیت ہوتی ہے ، حاکم یا حکام نہیں بلکہ چند افراد ہوتے ہیں اور تخلیقی ذہن رکھتے ہیں یہ چند افراد نئے افکار تخلیق کرتے ہیں اور حسب توفیق کی ایجادات و اختراعات پیش کرتے ہیں ، قوم کو افکار تازہ میں اپنا ہم خیال بنا لیتے ہیں اور عام لوگ ان کی طرح سوچنا شروع کر دیتے ہیں اس طرح یہ تخلیقی اقلیت معاشرے کی اصل طاقت بن کر اکثریت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہے اور معاشرہ ترقی کی منازل طے کرتا ہے انہی جلیل القدر انسانوں میں جو معاشرے کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں اور اپنی تمام تر صلاحیتیں قوم کے لیے وقف کیئے ہوئے ہیں انہی لوگوں میں ممتاز سماجی سائنسدان، شاعر، مصنف انجینیئر توقیر احمد شریفی کا نام نامی اسم گرامی آتا ہے ، انہوں نے عمر بسر نہیں کی وہ زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ عمر سو کر گزرتی ہے اور زندگی جاگ کر توقیر احمد شریفی کا شمار ہمیشہ جاگنے والوں میں رہے گا اور وہ نہ صرف شعر و ادب کی خدمت کرتے ہیں بلکہ سماجیات کے میدان میں بھی آپ کے کار ہائے نمایاں بڑے نمایاں ہیں ۔ آپ جس محفل میں موجود ہوں وہاں آپ ممتاز دکھائی دیتے ہیں، آپ کی شخصیت بڑی مقناطیسی ہے اور آپ کے ساتھ لوگ معانقہ کرتے چلے جاتے ہیں پچھلے دنوں روسی سفیر تشریف لائے تھے وہاں توقیر احمد شریفی صاحب کو دیکھا لوگ آپ سے معانقہ کرتے چلے جا رہے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ آپ کا وجود کسی بھی معاشرے میں ایک روشن چراغ کی حیثیت رکھتا ہے ، تعمیری جذبوں کو بیدار کرنے والی حقیقی معنوں میں جہاد کر رہے ہیں ، آپ کی کامیاب زندگی کا راز اخلاق و کردار کی بلندی میں پنہاں ہے ، ہمارے سورج کے گرد گھومنے والے نو سیاروں اور ان کے چاندوں میں سے حسن صرف زمین پر دریافت ہوا ہے ، ہمارے شاعروں نے اپنی شاعری میں بھی حسن و جمال کی رعنائیوں کو مرکزی حیثیت دی ہے ، توقیر احمد شریفی بے شمار محاسن اور اوصاف حمیدہ کا مجموعہ ہیں ، خدمت انسانی کی بات ہو تو موصوف سبقت لے جاتے ہیں ، المصطفی آئی ہسپتال ہو ، شوکت خانم ہسپتال ہو ، رحمٰن فاؤنڈیشن ہو ، فلاحی کاموں میں سبقت لے جانے والے توقیر احمد شریفی ہی ہوں گے ، میں نے عظیم الشان وصف جن جلیل القدر انسانوں میں قریب سے دیکھے ہیں ان میں محترم المقام مسعود علی خان ، محترم شعیب بن عزیز ، محترم میجر مجیب آفتاب ، محترم فیاض احمد ، محترم خالد شریف ، محترم ڈاکٹر خالد سعید ، جواں سال ماہر تعلیم فہد عباس ، ڈاکٹر ندیم بھٹی ، کرنل ممتاز حسین ، ڈاکٹر وقار احمد نیاز ، محترم ھارون الرشید عباسی اور حسیب احمد کو بے لوث خدمات انجام دیتے دیکھا ہے ، یہی وہ اوصاف حمیدہ ہیں جو توقیر احمد شریفی کی شخصیت کو ممتاز کرتے ہیں ، توقیر احمد شریفی جس کام کو ہاتھ ✋ لگاتے ہیں اسے پوری یکسوئی سے مکمل کرتے ہیں ، ویسے بھی یکسوئی آپ کا تیسرا شعری مجموعہ ہے جس نے بقول خالد شریف یکسوئی سوچ کے نئے دروازے وا کرئے گی اور اردو نظم کے اعتبار کی توثیق کرئے گی ۔ انجینیئر توقیر احمد شریفی نے بیشمار ادبی حلقوں کی مشکلات کو آسان بنانے میں کامیاب معرکے سر کئیے ہیں ۔ توقیر احمد شریفی نے اپنی ہمدردی کا حلقہ وسیع رکھا ہوا ہے وسعت قلب اور بے لوث ہمدردی یہ بڑے عظیم الشان وصف ہیں اور یہی اوصاف توقیر احمد شریفی کی شخصیت کو نکھارنے میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں اور یہ طلائی چابی موصوف کے پاس موجود ہے وہ جب چاہیں جس کے دل میں چاھت کا دروازہ کھولنا چاہیں ، کھول لیتے ہیں ، میں اپنے ان قومی سماجی سائنسدانوں کے بارے میں مختصر خاکے لکھنا چاہتا ہوں ان میں ہمارے بہت سارے دوست موجود ہیں وہ کچھ تو ہمیں بھولے ہوئے ہیں ان کو یاد کرنا ہے بقول بسمل صابری کے ،

وہ بے وفا ہی سہی آؤ اسے یاد کریں

تمام عمر پڑی ہے اسے بھلانے کو

لیکن ہمارے احمد فراز فرماتے ہیں

کہ

کتنے ناداں ہیں تیرے بھولنے والے کہ تجھے

یاد کرنے کے لیئے عمر پڑی ہو جیسے

مجھے سی ٹی این فورم کی سیکرٹری جنرل محترمہ فردوس نثار نے ترغیب دی ہے اور وہی اس کی محرکہ ہیں ۔ تقریبا ایک سو کے قریب شخصیات کو ہم نے کتابی صورت میں انہیں محفوظ کرنا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کا شمار مشتہرین میں نہیں آتا ، مشاہیر میں آتا ہے مشتہرین کی عمر صرف عید کے چاند کی طرح طلوع ہو کر دیوالی کے دیپ کی طرح بجھ جاتی ہے ، لیکن مشاہیر تاریخ کے اوراق میں کہکشاں کی مسجع اور مقفعہ عبارتوں کی طرح جگمگاتے رہتے ہیں دنیا کی کوئی قوت ان جلیل القدر انسانوں کو تاریخ کے اوراق سے محو نہیں کر سکتی اور یہ دوام ان کی خدمات کے اعتراف کی بدولت ہے، بقول محسن نقوی

عمر اتنی تو عطا ہو میرے فن کو خالق

میرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو ترسے

یہ لوگ زندہ رہنے والے کام کر چکے ہیں اس لیئے یہ ہمیشہ زندہ رہنے والے لوگ ہیں غالب نے تو دعا دی تھی کہ

تم سلامت رہو ہزار برس

ہر برس کے دن ہوں پچاس ہزار

میں اسے مبالغے پر معمول کرتا تھا لیکن جب میں نے تاابد زندہ رہنے والے کام دیکھے تو محسوس ہوا کہ یہ غالب کا دعائیہ شعر مبالغہ نہیں ہے اس میں پوری حقیقت پنہاں ہے توقیر احمد شریفی کا دل محبت، اخوت اور رواداری سے بھرا ہوا ہے۔ آپ ہی کی نظم پر کالم اختتام ہوتا ہے ، ۔

شیشہ گھر

شیشہ گھر میں

گھٹنوں تک ڈوبے

پھول مسکرانے لگے

کتابی چہروں کا شور

الماری سے باہر گرنے لگا

زندگی دھوپ کی طرح بڑھنے لگی

کرنوں کی مسلسل در اندازی نے

کمرے میں تلخی بڑھا دی

انہیں باہر نکالنے کے لیئے

کھڑکی نے دونوں پٹوں کو گلے لگا لیا

اندھیرے نے نمکین آنسو کو

دکھ ماپنے کا آلہ سمجھ لیا

اور وہ کسی دعا کی طرح

ایسے گڑگڑانے لگی

جو کسی بھی مصیبت سے بچا سکتی ہو

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.