انسدادِ منشیات قومی فریضہ
کالم ندیم ملک
پاکستان اس وقت جن کثیرالجہتی چیلنجز سے نبرد آزما ہے، ان میں سب سے خطرناک اور خاموش مگر تباہ کن چیلنج منشیات کا پھیلاؤ ہے۔ یہ مسئلہ صرف ایک فرد یا طبقے تک محدود نہیں بلکہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ منشیات کا زہر ہماری نوجوان نسل کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، تعلیم و تربیت کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا ہے اور صحت و سماج کے تانے بانے کو تار تار کر رہا ہے۔ ہمارے ہسپتالوں، جیلوں، بحالی مراکز، تعلیمی اداروں اور عدالتوں کی فائلیں اس تلخ حقیقت کی گواہی دے رہی ہیں کہ منشیات کا پھیلاؤ قومی سلامتی کے لیے ایک مستقل خطرہ بن چکا ہے منشیات کے خلاف جدوجہد اس وقت ایک قومی فریضے کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ پنجاب حکومت نے حالیہ دنوں میں اس ناسور کے خلاف جس سنجیدگی، حکمتِ عملی اور جرأت سے اقدام کیا ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔ انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کی سربراہی میں پورے صوبے میں زیرو ٹالرنس پالیسی لاگو کی گئی ہے۔ ہر ضلع، ہر تحصیل، ہر تھانے کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ منشیات فروشوں کے خلاف بلا تفریق، بلا امتیاز کارروائی کریں۔ اس حوالے سے پنجاب پولیس، اسپیشل برانچ، انسدادِ منشیات فورس اور حساس اداروں کے مابین ایک منظم ہم آہنگی قائم کی گئی ہے جس کے نتیجے میں درجنوں منشیات فروش گروہ پکڑے جا چکے ہیں، سینکڑوں کلو گرام چرس، ہیروئن، آئس، اور دیگر نشہ آور اشیاء برآمد کی گئی ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ تعلیمی اداروں کے اندر اور ان کے آس پاس سرگرم عناصر کے خلاف بھی الگ سے کارروائیاں کی گئی ہیں پولیس تھانوں کو خصوصی ہدایت دی گئی ہے کہ سیاسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر اپنے دائرہ اختیار میں موجود منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن کریں۔ تھانے داری کلچر میں بہتری، ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر سے اجتناب، خفیہ اطلاعات کے نظام کو مؤثر بنانا اور سی سی ٹی وی کیمروں و دیگر نگرانی کے آلات سے استفادہ کرنا، ان اقدامات کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔ آئی جی پنجاب کی سربراہی میں ایک خودکار نگرانی کا نظام متعارف کروایا گیا ہے جس کے تحت تمام کارروائیوں کی رپورٹنگ مرکزی سطح پر ہوتی ہے اور ناکامی یا غفلت کی صورت میں ذمہ دار افسران کے خلاف فوری کارروائی کی جاتی ہے پنجاب کی وزیرِ اعلیٰ مریم نواز شریف اس مہم کی نہ صرف سیاسی قیادت کر رہی ہیں بلکہ ایک ماں، بہن اور استاد کی حیثیت سے بھی اس مسئلے کو اپنی اولین ترجیح قرار دے چکی ہیں۔ ان کی ہدایت پر محکمہ داخلہ، محکمہ صحت، محکمہ تعلیم، سوشل ویلفیئر، اور دیگر متعلقہ اداروں کو مربوط حکمت عملی کے تحت متحرک کیا گیا ہے۔ منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے مراکز کو نہ صرف فعال کیا گیا ہے بلکہ ان میں سہولیات میں بھی اضافہ کیا گیا ہے تاکہ وہ افراد جن کی زندگی نشے کی بھینٹ چڑھ چکی ہے، انہیں دوبارہ ایک باعزت شہری بنانے کا موقع مل سکے یہ بحالی مراکز صرف طبی امداد تک محدود نہیں، بلکہ یہاں نفسیاتی مشاورت، سماجی تربیت، دینی تعلیم، اور فنی ہنر سکھانے کا نظام بھی متعارف کروایا گیا ہے تاکہ منشیات کے عادی افراد نشہ چھوڑ کر ایک نئی زندگی شروع کر سکیں۔ یہ عمل ہمارے دین اسلام کی تعلیمات کا بھی مظہر ہے، جہاں گناہگار کو دھتکارنے کے بجائے اس کی اصلاح اور توبہ کی راہ ہموار کرنے کا حکم ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: “وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ” — (سورۃ النور:31) یعنی “اے ایمان والو! تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔” منشیات کے عادی افراد کو نفرت اور طعن کا نشانہ بنانے کے بجائے ان کی اصلاح اور بحالی کو مقصد بنانا اسلامی تعلیمات کی روح کے عین مطابق ہے اسلام نے نشہ آور اشیاء کو صراحتاً حرام قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: “يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ” — (سورۃ المائدہ:90)۔ یعنی “اے ایمان والو! شراب، جُوا، بتوں کے لیے قرعہ نکالنا، یہ سب ناپاک کام ہیں، شیطان کے عمل سے ہیں، ان سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ۔” احادیث نبویؐ میں بھی نشہ آور اشیاء کے بارے میں سخت تنبیہات موجود ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “كلّ مسكر حرام” — ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ ایک اور حدیث میں فرمایا گیا: “ما أسكر كثيره فقليله حرام” — جس چیز کی زیادتی نشہ دے، اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں خلفائے راشدین اور بعد کے حکمرانوں نے نشے کے خلاف سخت اقدامات کیے۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں شراب نوشی پر سخت سزائیں مقرر کی گئیں اور اس عمل کو ریاستی جرم تصور کیا گیا۔ فقہاء کے مطابق نشہ آور اشیاء کا استعمال، خرید و فروخت، تیاری، اور اس میں معاونت بھی حرام اور جرم ہے۔ موجودہ دور میں اگر کوئی حکومت نشہ آور اشیاء کے خلاف سخت ایکشن لیتی ہے تو یہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے اور دینی ذمہ داری بھی پنجاب حکومت کی جانب سے اسکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں میں “ڈرگ فری ایجوکیشن زون” منصوبہ ایک انقلابی قدم ہے۔ اس منصوبے کے تحت نہ صرف تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام کی جا رہی ہے بلکہ طلبہ، اساتذہ، اور والدین کو شعور دینے کے لیے آگاہی پروگرامز، سیمینارز، اور ورکشاپس کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے۔ یہ آگاہی مہم صرف تعلیمی اداروں تک محدود نہیں بلکہ سوشل میڈیا، ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے بھی منشیات کے خلاف بھرپور پیغام پھیلایا جا رہا ہے۔ اس پیغام میں قانونی سزاؤں، منشیات کے طبی و سماجی نقصانات، اور بحالی کے امکانات پر روشنی ڈالی جا رہی ہے اس پوری جدوجہد کا ایک اور روشن پہلو یہ ہے کہ معاشرتی سطح پر بھی اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جانے لگا ہے۔ مختلف سماجی تنظیمیں، دینی ادارے، اور شہری سوسائٹی کے فعال افراد اب منشیات کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ مساجد میں جمعے کے خطبات، مدارس میں درس، اور مختلف تقریبات میں علماء کرام اس حوالے سے لوگوں کو دینی، اخلاقی اور معاشرتی بنیادوں پر سمجھا رہے ہیں کہ نشہ نہ صرف دنیا کی بربادی ہے بلکہ آخرت کی ہلاکت بھی۔ ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مُدْمِنُ خَمْرٍ” — یعنی “شراب کا عادی جنت میں داخل نہیں ہوگا۔” اسی طرح نشہ آور اشیاء کا استعمال ایک ایسا جرم ہے جو انسان کو ایمان، عقل، غیرت، صحت اور کردار سب کچھ سے محروم کر دیتا ہے ہمیں یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ منشیات کے خلاف جنگ صرف حکومت یا پولیس کا کام نہیں بلکہ ایک اجتماعی قومی فریضہ ہے۔ ہر والدین، ہر استاد، ہر امام مسجد، ہر صحافی، ہر سوشل ورکر، ہر ڈاکٹر، اور ہر فرد کو اس جنگ میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسلیں صحت مند، تعلیم یافتہ، باکردار اور ترقی یافتہ ہوں تو ہمیں منشیات کو صرف ایک برائی نہیں بلکہ دشمن سمجھنا ہوگا۔ جس طرح ہم دہشتگردی، کرپشن اور لاقانونیت کے خلاف متحد ہو جاتے ہیں، اسی طرح منشیات کے خلاف بھی ہمیں یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا پنجاب حکومت کی موجودہ مہم ایک مثالی ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے جس سے دیگر صوبے بھی سیکھ سکتے ہیں۔ اگر وفاقی سطح پر نیشنل کوآرڈینیشن پالیسی تشکیل دی جائے، عدالتی نظام میں بہتری لائی جائے، مقدمات کا جلد فیصلہ ہو، سزائیں فوری نافذ ہوں، اور بحالی مراکز کی تعداد بڑھائی جائے تو پورے پاکستان میں اس مہم کو یکساں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے اگر یہ مہم اسی جذبے، عزم اور تسلسل کے ساتھ جاری رہی تو وہ دن دور نہیں جب پنجاب اور پھر پورا پاکستان نشے سے پاک، باوقار، اسلامی، اور فلاحی ریاست کی تصویر بن کر دنیا کے سامنے آئے گا — جہاں نوجوان تعلیم، تحقیق، ہنر، اخلاق، دین، اور انسانیت کے علَم بردار ہوں گے، اور نشہ صرف تاریخ کی کتابوں میں ایک عبرتناک باب کی حیثیت سے باقی رہ جائے گا