صدارتی ایوارڈ یافتہ سندھی لوک گلوکار الن فقیرکی19ویں برسی منائی گئی
جہانیاں صدارتی ایوارڈ یافتہ سندھی لوک گلوکار الن فقیرکو اس جہان سے گئے انیس برس بیت گئے ان کی19ویں برسی 4 جولائی جمعرات کو منائی گئی وہ 4جولائی 2000ء کو انتقال کر گئے تھے۔الن فقیر 1932ء کو سندھ کے ضلع جامشورو میں پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے صوفیانہ کلام گا کر ملک گیر شہرت حاصل کی انہوں اردو اور سندھی میں قومی ترانے بھی گائے تھے ان کی گائیگی کا انداز اس لیے منفرد تھا کہ وہ گلوکاری کے ساتھ ساتھ اعضاء کی شاعری بھی کرتے تھے ۔الن فقیر کا والد ایک ڈھولچی تھا جو کہ شادی اور دیگر تقریبات میں ڈھول بجانے کے علاوہ گانے بھی گایا کرتا تھا الن فقیر اگرچہ صوفی تھا لیکن اس نے فقیر تخلص کا انتخاب کیاوہ گھر بار چھوڑ کر حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی کے مزار پر سکونت پذیر ہو گیا الن فقیر بنیادی طور پر ان پڑھ تھا لیکن خدا نے انہیں کمال کا حافظہ عطاء کی تھا وہ جو ایک بات سن لیتا تھا اسے ازبر ہو جاتی تھی وہ دربار شاہ عبدالطیف بھٹائی پر آنے والے عقیدت مندوں کو دیکھتا اور ان سے شاہ عبدالطیف بھٹائی کا کلام سنتا وہیں پر الن فقیر نے شاہ عبدالطیف بھٹائی کا کلام گانا شروع کیا وہ 20برس تک اسی دربار پر مقیم رہا اور روحانی فیض حاصل کرتا رہا ۔اس کی پرسوز آواز ایک مرتبہ ریڈیو حیدر آباد تک پہنچ گئی جس کے بعد وہ ملک گیر شہرت حاصل کر گیا۔الن فقیر نے اگرچہ سندھی زبان میں گلوکاری کی ہے لیکن اس نے یہ کلام اردو میں بھی گایا ہے الن فقیر نے معروف پاپ سنگر محمد علی شہکی کے ساتھ ملک کر گانا بھی گایا جس کے بول تھے ’’ اللہ اللہ کر بھیا ‘‘ اس گانے نے الن فقیر کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا ا س کی گائیگی میں صوفی ازم کا رنگ جھلکتا تھا۔الن فقیر کو صدر جنرل ضیاء الحق نے 1980ء میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا تھا اس کے علاوہ انہیں شاہ لطیف ایوارڈ،شہباز ایوارڈ اور کندھ کوٹ ایوارڈز سے بھی نوازا جا چکا ہے۔الن فقیر 4جولائی 2000ء کو اس فانی دنیا سے کوچ کر چکا ہے لیکن اس کی یاد آج بھی لاکھوں دلوں میں زندہ ہے سندھی زبان سے عدم واقفیت کے باوجود اس کی پرسوزآواز کے لاکھوں شیدائی آج بھی دنیا میںموجود ہیں۔#/s#
[…] بیورو رپورٹ،ڈیلی صحافت کوئٹہ ) کندھ کوٹ کے قریب اوگاہی لاڑو کے قریب تیز رفتار موٹرسائیکل اور […]