مفتی محمود رح کی دینی و سیاسی خدمات
تحریر :فضل الہادی پانیزئی
یہ تو صدیوں کے جہانوں کی کڑی ہوتی ہیں
بڑے انسانوں کی یادیں بھی بڑی ہوتی ہیں۔
اس جہان فانی سے ہر ایک نے چلے جانا ہے۔مگر بعض ایسی ہستیاں اس دنیا سے چلے جاتے ہیں،جنکی علم و عمل،شرافت ونجابت،انسانیت و سیادت ،غیرت و حمیت،تواضع و انکساری رہتی دنیا تک انسانوں کے اذہان اور قلوب پر نقش رہتے ہیں۔
ان شہرہ آفاق اور جامع الکمالات شخصیات میں سے مفکر اسلام ،فاتح قادیانیت، سابق ناظم عمومی جمعیت علما اسلام، والد قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمان مولانا مفتی محمود رح جو اپنے عہد کے مفتی اعظم ،شیخ الحدیث والتفسیر،منجھے ہوئے سیاستدان ،علم و حکمت کے پہاڑ، مظلوم کیلئے خیر خواہ اور ظالم کیلئے سیف بے نیام تھے۔
مفتی محمود رح کی پیدائش 9 جنوری 1919 کو مولانا خلیفہ محمد صدیق کےہاں ڈیرہ اسماعیل خان کے گاوں عبد الخیل میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی۔جن میں ناظرہ ،فارسی اور عربی کی ابتدائی کتابیں شامل تھی۔ چھ سال کی عمر میں گورنمنٹ مڈل سکول پنیالہ میں داخلہ لیا اور 1934 میں مڈل کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرتے ہوئے دینی علوم کی حصول کیلئے کمربستہ ہوئے۔ والد صاحب نے مفتی صاحب کو حضرت مولانا سید عبد العزیز شاہ رح کے ہاں اباخیل بھیجا۔جہاں شاہ صاحب نے مفتی صاحب کو علم منطق ،علم صرف ونحو وغیرہ فنون کی ابتدائی رسائل پڑھائے۔خانقاہ یسین زئی میں مولانا شیر محمد رح ،مولانا غلام رسول رح اور اپنے والد ماجد رح سے شرح جامی، حسامی،ہدایہ اولین اور دیگر کتابیں پڑھی۔اعلی تعلیم کیلئے مدرسہ شاہی مراد آباد تشریف لے گئے،جہاں چھ سال تک زیر تعلیم رہے۔درس نظامی کی تکمیل 1942 میں مدرسہ امروہ سے کی۔مولانا خلیفہ محمد صدیق رح ،مولانا شیر محمد رح ، مولانا غلام رسول رح ،مولانا عجب نور رح ،مولانا سید محمد میاں رح،مولانا فخر الدین رح آپ کے اساتذہ تھے۔
سیاست کا آغاز اس وقت کیا جب آپ طالبعلم تھے اور یہ 1937 کا زمانہ تھا جب ہندوستان میں عام انتخابات کا اعلان ہوا۔آپ نے جمعیت علما ہند کی حمایت کی اور انتخابی کمپئن میں کافی فعال نظر آئے۔یوں مفتی صاحب نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز جمعیت علما ہند کے پلیٹ فارم سے کیا۔
تعلیم سے فراغت کے بعد مدرسہ عزیزہ میں بحیثیت مدرس تین سال تک خدمات سرانجام دی۔ اسکے بعد عیسی خیل کے مقامی مدرسہ میں بھی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ آپ رح کی پہلی شادی 1946 کو ہوئی۔ اولاد کے انتقال کر جانے کی سبب سے دوسری شادی 1960 میں کرائی گئی۔ پہلی بیوی سے دو نرینہ اولاد مولانا فضل الرحمان، مولانا عطا الرحمان ہیں۔جبکہ دوسری بیوی سے نرینہ اولاد لطف الرحمان ،انجینئر ضیاالرحمان ،مولانا عبید الرحمان ہیں اور آپ رح کی تین صاحبزادیاں ہیں۔
1947 میں اپنے مرشد مولانا عبد العزیز شاہ صاحب کے حکم پر بغرض امامت اپنے سسرالی گاوں عبد الخیل چلے گئے۔جہاں مفتی صاحب نے امامت کےساتھ ساتھ درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
قیام پاکستان کے بعد غالبا 1950 کا زمانہ تھا جب ملتان کے مشہور دینی و علمی ادارہ مدرسہ قاسم العلوم میں آپ کی تقرری بحیثیت مدرس ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد آپ کو شیخ الحدیث اور مفتی کے مناسب پر فائز کردئے گئے۔آپ نے حدیث کے مشہور کتابیں بخاری شریف اور ترمذی شریف بھی پڑھائے۔بقول مولانا فیض احمد صاحب کہ ” مفتی محمود رح اس دور کے محدث اعظم ہے “۔
شیخ الحدیث ہونے کے ساتھ ساتھ آپ عمدہ مفسر بھی تھے۔ 1976 کا زمانہ تھا سیاسی مصروفیات ہونے کے باوجود حضرت لاہوری رحمہ اللہ کے مسجد شیرانوالہ گیٹ لاہور میں طلبہ کو روزانہ چھ چھ گھنٹے قرآن کی تفسیر پڑھا کر مکمل قرآن تفسیر کےساتھ صرف ڈیڑھ ماہ میں مکمل کرنے کا شرف حاصل کیا۔
افتا کی میدان میں آپ کی خدمات ناقابل فراموش ہے۔1955 سے لیکر 1975 تک چالیس ہزار سے زائد فتاوی جاری کئے۔
بقول خواجہ خواجگان حضرت مولانا خان محمد رح کہ ” مفتی محمود کے جاری کردہ فتاوی سے امت مسلمہ رہتی دنیا تک استفادہ کرتی رہیگی “۔
مفتی صاحب سیاست پاکستان کے اسٹیج پر اس وقت نمودار ہوئے جب ملک کا شیرازہ مکمل طور پر بکھر چکا تھا۔ ملک میں آئین و قانون نام کوئی چیز نہ تھی۔1956 میں جب پاکستان کا پہلا ا?ئین دستور ساز اسمبلی نے منظور کیا،جن میں اسلام کا صرف نام ہی استعمال کیا گیا تھا اور اسلامی دفعات کو یکسر مسترد کئے گئے تھے۔ مولانا مفتی محمود رح نے 1956 کی وسط میں علمائ کا ملک گیر کنونشن بلایا جس کی غرض وغایت یہ تھی کہ حقیقی اسلام کے حامی افراد کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے اور پوری تندہی خلوص اور سرگرمی سے ملکی سیاست میں حصہ لیا جائے۔ اگرچہ یہ مفتی صاحب کا پہلا سیاسی اقدام تھا مگر اس کے نتائج بہت حوصلہ افزائ رہے۔
مفتی محمود رح1962 کے اوائل میں ہونے والے انتخابات میں ڈیر اسماعیل خان سے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔
1972 میں دوسری مرتبہ ذولفقار علی بھٹو جیسے عوامی قوت سے لیس لیڈر کو تیرہ ہزار ووٹوں سے شکایت دیکر دوسری مرتبہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔اس وقت ملک کو نئی آئین کی ضرورت پیش آئی۔ اس آئین کی احیاءمیں مفتی صاحب کا کردار نمایاں ہے۔اور جتنی بھی اسلامی دفعات اس آئین کا حصہ ہے وہ بھی مفتی صاحب کی مرہون منت ہے۔ یکم مئی 1972 کو سرحد (موجودہ خیبر پختونخواہ) کے وزیر اعلی منتخب ہوئے۔مفتی صاحب نے اپنے دور اختیار میں کے پی کے میں شراب نوشی ،سود،قمار بازی پر پابندی عائد کی۔ فحاشی اور بے حیائی روکنے کیلئے عورت کیلئے پردہ لازمی قرار دیا۔ پہلی مرتبہ کے پی کے میں اردو کو سرکار زبان کے طور متعارف کروایا۔جہیز ایکٹ ،احترام رمضان آرڈنینس، جمعہ کی تعطیل کی سفارش، تعلیمی اور معاشرتی مسائل کے حل کیلئے تگ ودو۔
آپ کے دور میں سرکاری دفاتر میں باجماعت نماز پڑھنا لازمی تھا۔
ایک دفعہ ایک بڑا مجمع آپ کے پاس جارہا تھا اچانک اذان ہو گئی آپ نے سب کو صف بندی کا حکم دیا اسی اثنا میں مجمعے میں موجود پولیس اہلکار سے کسی نے پوچھا وضو ہے یا مفتی صاحب کی ڈر سے نماز پڑھ رہے ہو ؟پولیس اہلکار نے جواب دیا کہ جب سے مفتی صاحب کے ساتھ ڈیوٹی لگی ہے صبح وضو کرکے گھر سے نکلتا ہوں۔ کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ مفتی صاحب نے ہر حال میں ہم سے نماز پڑھوانی ہے۔
مفتی محمود رح سچے عاشق رسول تھے قادیانیت کے خلاف چلنے والی تمام تحاریک میں شریک رہے۔خصوصا 1974 میں چلنے والی “تحریک ختم نبوت” جسکا بنیادی مطالبہ قادیانیوں کو کافر اور اقلیت قرار دینا تھا۔مفتی صاحب نے پارلیمنٹ میں علمی،نظریاتی اور پارلیمانی محاذوں پر امت مسلمہ کی بھرپور ترجمانی کی، اور پارلیمنٹ کے اندر امت مسلمہ کا موقف اور قادیانی سربراہ پر جرح مفتی صاحب نے کی۔ آخر کار آئین پاکستان کے رو قادیانیوں کو کافر قرار دیا گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ میٹھے پھل ہمیشہ چھری کے دہانے پر ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح مفتی صاحب روز اول سے بندوق کے نشانے پر تھے۔آپ پر متعدد قاتلانہ حملے ہوئے۔ملتان کے ریلوے اسٹیشن پر آپ پر خنجروں سے حملہ کیا گیا۔1953 میں ایام اسیری کے دوران زہر دیا گیا۔1975 میں ضلع ٹھٹھ کے مقام پر آپ پر دو حملے ہوئے۔لیکن اس مرد حر کے حوصلے تھمنے کے بجائے مزید بلندہوتی گئی۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ آپ رح کئی مرتبہ گرفتار بھی ہوئے۔پہلی مرتبہ آپ کو تحریک آزادی کے دوران کرفتار کیا گیا۔1953 میں تحریک ختم نبوت کے دوران آپ رح نے نو ماہ تک جیل کاٹی۔بھٹو کے دور میں دو مرتبہ گرفتار ہوئے۔جنرل ضیا الحق کے دور میں آپ کو جمہوریت کی بالادستی کی خاطر پابند سلاسل ہونا پڑا۔۔
زبد المقال فی رویہ الہلال ،المنتبی القادیانی من ھو فتنہ ، زادالمنتہی(شرح سنن ترمذی شریف) التسہیل لا حکام،تفسیر محمود ،فتاوی محمودیہ آپ کے مشہور و معروف تصنیفات و تالیفات ہے۔
14 اکتوبر 1980 کو پاکستان کے مشہور دینی وعلمی درسگاہ جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاون کراچی میں دینی مسئلے پر بحث کے دوران اچانک دل کا دورہ پڑا جس سے آپ رح اس دار فانی سے دار البقا کی طرف کوچ کرگئے !!
آپ کی تدفین ڈیرہ اسماعیل خان کے گاوں عبد الخیل میں ہوئی۔
مفتی محمود رح کی وفات کے بعد کسی نے آپکو خواب میں دیکھا تو پوچھا
زندگی کیسی گزری؟
مفتی صاحب نے کہا”ساری زندگی قرآن وحدیث ک? تعلیم میں گزری،ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کی حتی الوسع کوشش کی،اللہ کے ہاں مقبول ہوئی،
مگر نجات اس محنت کی وجہ سے ہوئی جو قومی اسمبلی میں ختم نبوت کیلئے کی تھی،
ختم نبوت کے صدقے اللہ تعالی نے بخشش ?ی.
[محاسن اسلام جنوری 2013]۔
وفات کے بعد مفتی محمود رح کی سیاسی کمان انکے لائق فائق فرزند قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب نے سنبھالی۔اور اپنے والد ماجد رح کی حقیقی جانشین ثابت ہوئے۔