بھیک مانگنا دنیا کا مشکل ترین کام
کالم نگار:
محمّد شہزاد بھٹی
Shehzadbhatti323@gmail.com
آج کل نفسا نفسی کا دور ہے ہمدردی کا جذبہ ختم ہوتا جا رہا ہے ہر کوئی اپنی ذات تک محدود ہو کر رہ گیا ہے کوئی کسی کا سوچنے والا نہیں رہا، ہر ایک کو اپنی پڑی ہے۔ کوئی امیر ہو یا غریب ہو، کوئی گورا ہو یا کالا ہو، کوئی عربی ہو یا عجمی ہو، کوئی مسلم ہو یا غیر مسلم سب انسان حضرت آدم کی اولاد ہیں۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ گلی کوچوں، بازاروں، سکولوں، كالجوں، یونیورسٹیوں، بس اڈوں یا بسوں میں کچھ افراد بھیک مانگنے آتے ہیں یاد رکھیں، یہ لوگ خوشی سے نہیں بلکہ حالات و واقعات سے مجبور ہو کر ہی بھیک مانگتے ہیں۔ یاد رکھیں دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک مشکل کام بھیک مانگنا بھی ہے۔ یہ تو کسی انسان کے بس کی بات نہیں اللہ تعالیٰ جسے چاہے دینے والا بنا دے جسے چاہے بھیک مانگنے والا بنا دے، مگر یہ بڑی عجیب بات ہے کہ بعض دفعہ آپ کسی مانگنے والے کو نظر انداز کر کے اپنا راستہ لیتے ہیں تو آپ کے دل کو کوئی ہاتھ سا پڑتا محسوس ہوتا ہے آپ کا دل کرتا ہےکہ آپ واپس جائیں اور اس مانگنے والے کو کچھ دے کر آئیں۔ بعض دفعہ آپ نا چاہتے ہوئے بھی واپس جاتے ہیں اور اس مانگنے والے کو دس بیس دے کر آتے ہیں اور بہت خوشی محسوس کرتے ہیں آپ کو لگتا ہے کہ آپ نے کوئی بہت بڑی اچیومنٹ کر لی ہے۔ بعض دفعہ اس خوشی کی تازگی آپ کو کافی دیر تک محسوس ہوتی رہتی ہے اور بعض دفعہ آپ ایک دو دن تک اپنے آپ کو اچھا اچھا سا محسوس کرتے ہیں لیکن بعض دفعہ آپ اس مانگنے والے کو نظر انداز کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں اور اپنے دل کی آواز نہیں سنتے اور واپس نہیں جاتے اور پھر کوئی اور سوچ آجاتی ہے اور کسی وجہ سے آپ کا واپس جانا مشکل ہو جاتا ہے اور آپ آگے سے آگے نکلتے آتے ہیں تو آپ کے دل کو پچھتاوا سا محسوس ہونے لگتا ہے، آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا کوئی نقصان ہو گیا ہے یا آپ سے کچھ غلط ہو گیا ہے آپ بہت بھولنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بار بار آپ کو یاد آتا ہے کہ آپ نے اس مانگنے والے کو کچھ نہ دے کر بہت بڑی غلطی کی ہے آپ کافی دیر تک اس پچھتاوے میں بے چین رہتے ہیں بعض دفعہ دو تین دن تک اور جب کبھی یاد آتا ہے آپ کو دکھ سا محسوس ہونے لگتا ہے آپ اپنے آپ کو کوستے ہیں کہ آپ رک کیوں نہ گئے آپ آگے کیوں بڑھ آئے دس بیس دے دینے میں مسئلہ ہی کیا تھا اور پیسے تھے بھی آپ کے پاس لیکن اب کچھ ہوتا نظر نہیں آتا۔ بعض دفعہ آپ اگلے دن پھر اسی راستے سے آتے جاتے ہیں آپ کا دل کرتا ہے کہ وہ مانگنے والا مل جائے اور آپ اسے کچھ دے کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لیں لیکن وہ نہیں ملتا اور بعض دفعہ مل جاتا ہے اور آپ فوراً اسے کچھ دے آتے ہیں اور آپ کو لگتا ہے کہ اس نے آپ کو پہچان بھی لیا ہے آپ کو لگتا ہے وہ پہچان گیا ہے کہ کل یہی شخص اسے کچھ دیئے بغیر آگے بڑھ گیا تھا اور آپ خفت سی محسوس کرتے ہیں یہ سب کیوں ہے؟ اس لئے کہ آپ اللہ تعالی کے اچھے بندوں میں شامل ہیں، یہ وہ نشانیاں ہیں جو میرے خیال میں اللہ تعالی آپ کو دکھاتا ہے کہ آپ اس کی پسندیدگی کو محسوس کریں کیونکہ قرآن شریف میں اللہ تعالی نے سورۃ المعارج اور سورۃ الذاریات میں جہاں نمازیوں متقیوں اور جنتیوں وغیرہ کا ذکر کیا ہے وہاں اپنے ان بندوں کا ذکر کیا ہے جن کے مالوں میں مانگنے والوں اور محروموں کا حصہ تھا اور جو وہ انہیں لوٹاتے تھے اور ان کے مالوں میں سوال کرنے والے اور محتاج کا حق ہوتا تھا اور وہ جن کے مالوں میں حصہ معین ہے سائل اور غیر سائل کے لئے کوشش کریں کہ ہر مانگنے والے کو کچھ نہ کچھ دے دیں، پتہ نہیں آپ کے مال میں کس مانگنے والے یا محروم کا حق ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اپنی آیات کو روزمرہ زندگی کے تناظر میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔