کیا پاکستان میں صدارتی نظام ممکن ہے؟؟
خصوصی تحریر وتجزیہ
کسی بھی ملک کو چلانے کے لئے سب سے ضروری چیز اس ملک کا نظام ہوتا ہے جس کے بنیاد پر ہی اس ملک کو چلایا جا سکتا ہے شرط یہ کہ اس نظام پر عمل کرنا اہم ترجیحات میں شامل ہو!
کسی ملک کا آئیڈیالوجی چاہیے میگناکارٹا کی شکل میں ہو یا کسنٹیٹیوشن کی شکل میں یا کسی نظام کی شکل میں ہو
سوشلزم، کمیونزم، ہندوازم، اسلامیزم اور جمہوریت کی شکل میں کئی مختلف ممالک ان مختلف نظاموں کے بنا پر حکومتیں چلا رہی ہیں،
پاکستان میں آج کل شہ سرخیوں میں بلکہ گزشتہ کچھ دنوں سے پاکستان کے نظام بدلنے کیلئے اہم پیشرفت صدارتی نظام کے حوالے سے بات ہورہی ہے ۔ جو سوشل میڈیا پرنٹ میڈیا اور نائٹ سیاسی شوز پر ٹاپ ٹرینڈ ہے ۔ جس میں ماضی کے حکمران سیاسی جماعتوں کے عہدیدار کافی سنجیدگی سے یہ ٹرینڈ مزید فعال بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں _
سیاسی جماعتوں کے گٹھ جوڑ اتحاد کے بانی اور عام لوگ اس کی حمایت میں ہیں اور کچھ لوگ اس عمل کی مخالفین کے صف میں دکھائی دے رہے ہیں،
صدارتی نظام کا پاکستان میں کیا مستقبل ہوسکتا ہے کیوں ضروری ہے اور صدارتی نظام کا فائدہ کیا ہوگا ؟؟؟
یہ سوال عام لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہورہے ہیں
ہمیں سب سے پہلے یہ معلوم کرنا چاہے کہ صدارتی نظام کیا ہے اور کن ممالک میں رائج ہے اور پاکستان میں صدارتی نظام کا ماضی کیا ہے اور اس کا مستقبل کیا ہوسکتا ہے عوام کیلئے مفید ثابت ہو سکتا ہے کہ نہیں.
برصغیر پاک و ہند کے مشترکہ دور زندگی میں عام معاملات سے لیکر بڑے بڑے فیصلے برصغیر پاک و ہند پر رائج تیسرا قوت تمام تر ذمہ داریاں اور معاملات سنبھالتے تھے
جس میں مذاہب کے بنا زبان کے بنا اور رسم ریواج کے بنا پر انسان اور قومیں تقسیم تھے
مگر پھر بھی ان لوگوں کے بھیج تیسری قوت اور نظام زندگی مفلوج بنانے والے برطانوی حکمران رائج تھے
وہ آزادی جو نہ تو کسی خون اور جنگ کے بنا پر ملی بلکہ انسانی ذہنوں پر مذہبی آگ بھڑکایا اور ایک دوسرے سے علیحدہ رہنے اور آزاد مملکت کے خواب دیکھنے لگے
اور پھر برطانوی راج کے آخری لمحات میں وہ تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد کے ذہنوں میں صرف اور صرف آزادی کے خواب تھے
وہ آزادی جو خود بخود برطانوی راج دے رہا تھا مگر مذہب کے نام پر بٹوارہ ہوا اور دو آزاد مملکت پیدا ہوگئے،
تاریخ کے نقاط سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ انگریز سامراج نے آزادی کے مہنے میں باقاعدہ طور پر آل انڈیا ریڈیو کے زریعے اعلان کیا کہ ہم چار ممالک کو چھوڑ کر چلے جا ئنگے جس سے ازادی مل جائے گی ان ممالک میں شامل پاکستان بھارت نیپال اور ریاست قلات جو بلوچستان سمیت شامل تھا
اور باقاعدہ طور پر 14 اگست کو پاکستان اور 15 اگست کو بھارت اور بلوچستان کو پاکستان میں ایک صوبے کے طور پر شامل کیا
اور دو مختلف نظام بن گئے ایک اسلام اور دوسرا ہندو جس میں ایک کو نام دیا گیا اسلامی جمہوریہ پاکستان
اور دوسرا ہندوستان.
اور اس نظام کو چلانے کیلئے پاکستان میں 1956ء تک ریاست کا ہے سربراہ گورنر جنرل تھا جو آئینی طور پر ملک کا نمائندہ تھا۔ حکومتی سربراہ اور ملکی معاملات سنبھالنے کیلئے وزیر اعظم تھا۔ پاکستان کا صدر سکندر مرزا آخری گورنر جنرل اور پہلا صدر تھا۔ 1956ء کا آئین پارلیمانی تھا۔ ایوب کا آئین 1962ء شیر والاصدارتی تھا۔ 1973ء کا آئین پارلیمانی تھا۔ بہت پاکستان میں جو چارمشہور صدر گزرے ہیں ان میں صدر ایوب خان، صدر ضیا احق، یحییٰ خاں اور مشرف تھے یہ سب اصل میں فوجی آمر تھے یعنی فوج سے ان کے بندھن تھے ۔ جو عوامی رائے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان والا الفاظ جمہوری جو خودمختاری کا نام ہے جس کے بنا پر یعنی عوامی رائے سے منتخب نہیں گئے تھے بلکہ فوجی آمریت کے بنا پر نظام کو چلانے کیلئے بیٹھے تھے
اور ایوب خان بنیادی جمہوریت کے نمائندوں کے ذریعے منتخب ہوئے تھے۔ اس الیکشن میں فاطمہ جناح میں اپوزیشن کی جماعتوں کی متفقہ امیدوار تھی ان کو دھاندلی کی بنا پر ہرایا گیا تھا۔ جنرل ضیا نام نہاد ریفرنڈم کے ذریعے صدر بنے تھے۔ جنرل مشرف پی سی او کے تخت صدر عادی بنے تھے۔ پاکستانی عوام کی ان صداروں اور ان 98 کے صدارتی نظام سے بہت تلخ یادیں وابستہ ہیں۔ 02 ایک صدر نے تین در یا انڈیا کو بیچ دیئے۔ دوسرے صدر نے مشرقی پاکستان کا تحفہ دیا، تیسرے صدر نے کلاشنکوف، ہیروئن ، لسانی فسادات اور مذہبی اگ منافقت کا تحفہ دیا.
دور حاضر میں مختلف مشکلات میں پہنسا پاکستان میں صدارتی نظام کو ممکن بنانے کیلئے مختلف رائے سے اتفاق ابھی تک نہیں ہوا کیونکہ اس وقت دنیا میں دو طرح کی جمہوری حکومتیں قائم ہیں۔
ایک پارلیمانی نظام جس میں وزیر اعظم ملک کے سربراہ ہوتے ہیں
جو اس وقت پاکستان میں رائج ہے اس میں حکومت کا سر براہ وزیر اعظم ہوتا ہے اور ریاست کا حاکم صدر ہوتا ہے ۔ وزیر اعظم کو الیکشن جیتنے والا سیاسی اور مذہبی جماعت یا الیکشن اتحادیوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ وزیر اعظم قومی اسمبلی سے اکثریت کا ووٹ حاصل کرتا ہے ۔ وزیر اعظم کے الیکشن میں دو یا دو سے زائد امیدوار ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت کافی سیاسی جماعتیں ہیں ان میں سے جو جماعت زیادہ سیٹیں لیتی ہے یا جس کے اتحادی زیادہ ہوتے ہیں وہ حکومت قائم کرتی ہے۔ صدر کا عہدہ نمائشی ہے ۔ سب اختیارات وزیر اعظم کے پاس ہیں ۔ اس وقت پارلیمانی طرز حکومت برطانیہ، انڈ یا میلیا، نیوزی لینڈ اور کنیڈا کامیابی سے رائج ہے۔ جہاں پر حکومت کا سر براہ وزیر اعظم اور سٹیٹ کا سربراہ صدر ہے
اور مقنہ کے کنٹرول سے آزاد ہوتا ہے یعنی پارلیمنٹ کے نظام میں صدارتی عہدے پر
کسی قسم کے تنقید نہیں کیا جاتا
مقنہ اور انتظامیہ کے درمیان کسی قسم کا آہم انگی نہیں ہوتا مقنہ کا اپنا کام ہوتا ہے اور انتظامیہ کے اپنے کام ہوتے ہیں
صدر کو کوئی نہیں ہٹا سکتا صدر کے سامنے تمام وزراء جوابدہ ہوتے ہیں
آج کل ملک بھر میں صدارتی نظام حکومت کے بارے میں بحث ہو رہی ہے جو ماہرین سمجھتا ہے کہ پاکستان کیلئے لائق تحسین ہے ۔ماہرین سیاسیات نے صدارتی اور پارلیمانی نظام ہائے حکومت کی خوبیوں اور خامیوں پر طویل بحثیں کر رکھی ہیں۔ اعداد و شمار کی رو سے دنیا کے ’’75 فیصد‘‘ جمہوری ممالک میں صدارتی طرز حکومت رائج ہے اور پاکستان کیلئے بہتر نظام سمجھتے ۔ یہ امر واضح کرتا ہے کہ بیشتر ملکوں میں صدارتی نظام کو فوقیت حاصل ہے۔ اس نظام میں صدر حکومت اور مملکت ‘ دونوں کا سربراہ ہوتا ہے۔پاکستان میں پارلیمانی نظام کے تحت ہر سیاسی جماعت موروثی سیاست کر رہی ہے ،باپ کے بعد بیٹا پھر پوتا نسل در نسل اپنوں کو نوازنے والا واحد ملک ہے جہاں غریب کبھی بھی سیاست کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے ،دنیا بھر میں جس ملک میں بھی پارلیمانی نظام ہے وہ ملک گوناگوں مسائل کا شکار ہے ،اب آپ دیکھیں کہ ہمارے ملک میں گزشتہ کئی عشروں سے پارلیمانی نظام ہے اسی نظام کی بدولت آج لاکھوں بچے سکولوں سے باہر ہیں ،غربت کے تناسب میں ہر روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے،ٹیکس دینے والی عوام اور اس پر عیاشیاں کرنے والے دس فیصد اشرافیہ ہے ،غریب کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں جبکہ کہ سیاست دانوں کے کتوں کی بھی غذا بیرون ممالک سے آرہی ہے تو پھر ہم کسطرح پارلیمانی نظام کی سپورٹ کریں میں پارلیمانی نظام کی مخالفت پاکستان میں اس لیے کر رہا ہوں کیوں کہ ہم ترقی پذیر ملک ہیں ہمارے ملک تعلیم کا تناسب ساٹھ فیصد سے بھی کم ہے ووٹ دینے والے کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس کو اور کیوں ووٹ دے رہا ہے اور ہم ایسی قوم کے باشندے ہیں جہاں ووٹوں کو نوٹوں کے بدلے بھی دیا اور لیا جا تا ہے ،آپ ان کو ممالک کو دیکھیں جہاں پارلیمانی نظام ہے تو ان ممالک میں،برطانیہ‘ آسٹریلیا ‘ کینیڈا ‘ ملائیشیا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ان ممالک میں پارلیمانی نظام حکومت اس لیے کامیاب ہوا کہ وہاں تقریباً 100فیصد آبادی تعلیم یافتہ ہے۔ ایک تعلیم یافتہ اور باشعور ووٹر جانتا ہے کہ اس کی ذات ،محلے اور ملک و قوم کی بہتری کے لیے کون سا امیدوار موزوں رہے گا۔ وہ عموماً کسی لالچ‘ ترغیب اور خوف کے بغیر آزادی سے اپنا ووٹ استعمال کرتا ہے۔ مگر جن ممالک میں خواندگی کم ہے‘ وہاں پارلیمانی نظام حکومت کا ناگفتہ حال دیکھ لیجیے…اس نظام کے باعث مجرم تک حکمران بن بیٹھتے ہیں۔
اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان نے بھی ایک پریس کانفرنس میں پاکستان میں صدارتی نظام کے نفاذ کی حمایت کی لگتا ہے کہ خان صاحب بھی پارلیمانی نظام سے تنگ آئے بیٹھے ہیں۔کیوں کہ اس کی وجہ سے انہیں اپنی پارٹی میں ان جاگیرداروں‘ وڈیروں اور کرپٹ طاقتور خاندانوں کی اولادوں کو بھی شامل کرنا پڑا ہے جنہیں پاکستانی روز اول سے میدان ِ سیاست میں گھوڑے دوڑاتے دیکھ رہے ہیں۔عمران خان ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ لگا کر میدان سیاست میں داخل ہوئے۔ اس تبدیلی سے ان کی مراد نظام حکومت کو تبدیل کرنا ہے اور ان کے نزدیک صدارتی نظام حکومت موجودہ پارلیمانی طرز حکومت سے بہتر ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ صدر بن کر انھیں اتنی طاقت مل جائے گی کہ وہ فرسودہ نظام تبدیل کرنے والی پالیسیوں کو نافذ کر سکیں۔جبکہ سابق صدر اصف علی زرداری نے اپنی صدارت کے دوران ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت اپنے اختیارات بھی پارلیمنٹ کو منتقل کر دیے جس کے ذریعے وہ جمہوریت کو طاقتور بنانے کی سعی کرتے نظر آئے تھے لیکن حقیقت میں غریب عوام پر جمہوریت نما آمریت مسلط کی گئی،اس نظام میں عام طور پر طاقتور اور دولت مند لوگ ہی اسمبلیوں سے لے کر کونسلوں تک پہنچ سکتے ہیں۔